مجھے تم سے محبت ہے
جیسا کہ آپ میں سے پچاس فیصد لوگ تو ضرور جانتے ہوں گے کہ آج عالمی یوم محبت ہے
جیسا کہ آپ میں سے پچاس فیصد لوگ تو ضرور جانتے ہوں گے کہ آج عالمی یوم محبت ہے، جسے عرف عام میں ویلنٹائن ڈے کہا جاتا ہے، اس کی تاریخ کو جانتے ہوئے ہمارے ہاں اس حوالے سے ہمیشہ بحث رہی ہے کہ ہمیں یہ دن منانا چاہیے کہ نہیں، نوجوان نسل کے لیے اس دن میں کشش ہے اور وہ مناتے ہیں، دھڑلے سے جب کہ ہماری نسل کے لوگ اس کی مخالفت میں سر گرم رہتے ہیں ،اسے منانے میں حرج ہی کیا ہے اگر اس کا کوئی اچھا طریقہ وضع کیا جا سکتا ہے!!
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی کرم نوازی سے ہمارے ہاں ایسی چیزیں در کرآئی ہیں کہ جن کا نہ ہمارے مذہب سے واسطہ ہے نہ تہذیب و تمدن سے، کئی سو سال تک برصغیر پاک و ہند میں ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی جس تمدن کی حفاظت ہمارے آباء نے کی تھی، ہم بد قسمتی سے ایک آزاد اور علیحدہ مملکت میں رہ کر بھی نہیں کر سکے۔ یہ مملکت جس کا حصول ہی اسلام کے نام پر کیا گیا تھا، '' پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ ... '' کے نعرے ہندوستان کی گلیوں میں گونجے اور لاکھوں قربانیوں کے بعد ہمیں یہ ملک ملا جس میں ہم آزادی سے سانس لیتے ہیں۔
اب یہاں بسنت، ہولی، دیوالی، کرسمس، ایسٹر جیسے تہوار منائے جاتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہاں اقلیتیں موجود ہیں اور انھیں اپنے تہوار منانے کی پوری آزادی ہونا چاہیے۔ جس طرح ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے مذہبی تہوار منانے کی آزادی ہونی چاہیے، مگر کیا ہمارے اسلامی تہوار ان ممالک میں منائے جاتے ہیں جن کی تقلید میں ہم ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل جاتے ہیں؟ کیا ہم نے ان رسوم و رواج اور تہواروں کی اندھی تقلید کرنے سے پہلے ، ان کی روح کو سمجھنے کی کوشش کی ہے؟
اگر ہم چاہتے ہی ہیں کہ ہم ان تہواروں کو منائیںتو بہتر ہے کہ ہم انھیں اپنے مذہب اور ثقافت کا رنگ دے لیں، ویلنٹائن ڈے کو اس طرح نہ منائیں کہ جس طرح وہ لوگ بھی نہیں مناتے جن کے یہ اصل میں تہوار ہیں۔ ہم تو اس مذہب کے پیرو کار ہیں جس کی بنیاد ہی محبت پر ہے، اس کی اصل ، اس کا منبع، اس کی روح اور اس کا فلسفہ ہی محبت ہے۔
اپنے رب سے محبت کہ جس نے ساری کائنات کو تخلیق کیا، کائنات کی ہر چیز اس کی حمد و ثناء اور اسی کی تسبیح کرتی ہے، اس کی اطاعت، اس کی بندگی، اسی کی عبادت اور اسے لا شریک ماننا، یہ اس سے محبت کا تقاضہ ہے۔اللہ کے رسولﷺسے محبت کہ جنھیں وجہء تخلیق کائنات کہا گیا اور اللہ کو اپنے اس رسولﷺ سے سب سے زیادہ محبت ہے... اللہ کے رسولﷺسے محبت، اللہ ہی سے محبت کا دوسرا پہلو ہے-
آپﷺ کی سنت کی تقلید، اس نیت کے ساتھ کہ اس سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہو، ان کی حیات طیبہ کے ہر پہلو سے اپنی حیات کے گوشوں کو منور کرنا، نبیء پاکﷺسے محبت کا تقاضہ ہے۔ کوئی دکھ برداشت کریں تو یہ سوچ کر کہ اللہ کے رسولﷺ نے اللہ کی راہ میں اس سے بڑھ کر تکالیف برداشت کیں، صبر کریں تو آپﷺ کی حیات سے صبر کا درس لے کر، شکر کریں تو ان سے سیکھ کر، غرض اپنی زندگی کے ہر عمل کو اس بات سے مربوط کردیں کہ یہ میرے اللہ کے پیارے رسولﷺ کی زندگی کا آئینہ اور ان سے محبت کا تقاضہ ہے۔
اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق سے محبت، اللہ سے محبت کا ایک اور پہلو ہے۔ ناصرف انسانوں بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی نرمی اور شفقت کا درس دیا گیا، اس کی ادنی سے ادنی مخلوق کو بھی حقیر نہ جاننا، کسی کو اپنے ہاتھ اور زبان سے ایذا نہ پہنچانا، کسی کے حقوق غصب نہ کرنا۔ایک انسان کے قتل کو انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا، ایک چیونٹی کو بھی ناحق مارنے کی اجازت نہیں، وہ خود اپنی مخلوقات سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ پتھر کے اندر کیڑے کو بھی رزق پہنچاتا ہے زمین کی تہوں میں رہنے والی مخلوقات کو بھی، اللہ سبحان تعالی کی اس عظمت کا اعتراف کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اس کے بنائے ہوئے ایک خاک کے ذرے کو بھی حقیر نہ جانا جائے۔
قرآن پاک میں جگہ جگہ اپنے والدین اور قرابت داروں سے محبت کا درس دیا گیا ہے، اس درس کے بعد ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم محبت کے اظہار کے لیے ہر سال چودہ فروری کا انتظار کریں، لال گلاب یا گلابوں کی کلیاں خریدیں، شام کو پارٹیاں منعقد کریں اور صرف اس ایک دن... اپنے پیاروں کو بتائیں کہ ہمیں ان سے محبت ہے!!!
اللہ تعالی نے انسان کا خمیر ہی محبت کی مٹی سے اٹھایا ہے، انسان آپس میں مربوط ہیں تو یہ تقاضہء محبت ہے، دو انسانوں کے مابین محبت کے تعلق کے باعث ہی انسان کی تخلیق کا عمل شروع ہوتا ہے، ماں اپنے بچے کے بوجھ کو اپنے پیٹ میں اٹھاتی ہے تو محبت سے، اسے اپنے دودھ پر سینچتی ہے تو وہ بھی اس کی محبت ہے، اسے نرم و نازک کونپل سے ایک طاقتور انسان بننے تک وہ مشکلات اور آزمائش کے کتنے ہی مرحلوں سے گزرتی ہے، باپ اپنی اولاد کی خاطر مشقت کرتا ہے تو وہ اس کی طرف سے اپنی اولاد سے محبت کا اظہار ہے۔
عموما دنیا میں آنیوالا انسان ، رشتوں کے ایسے مضبوط تاگوں سے بندھا ہوا ہوتا ہے کہ اس کی پیدائش ان رشتوں اور ناطوں کو اور بھی مضبوط کر دیتی ہے۔ دنیا میںایسے لوگ بھی ہیں جن کی پیدائش ان چاہی ہوتی ہے، بعض ایسے ہیں جن کا دنیا میں پیدا کرنے والی کے سوا کوئی بھی نہیں ہوتا، بعض ایسے کہ جن کی پیدا کرنیوالی بھی انھیں بوجھ سمجھ کر پیدا ہوتے ہی مار دیتی ہے یا کچرے کے ڈھیر کی زینت بنا دیتی ہے۔
ایسی مجبوریوں کہ کہانیوں کے کردار بھی اسی دنیا کا حصہ ہیں اور معاشروں میں ٹھکرائے ہوئے انسان بھی بہت کہ جن سے صرف ان کا اللہ ہی محبت کرتا ہے۔محبت کا مقدس لفظ، کچھ اذہان کی پراگندگی کی وجہ سے ہوس کے لفظ جیسا سمجھ لیا جاتا ہے۔ محبت کے کئی نام ہیں، کئی روپ، کئی شکلیں اور کئی طریقے۔ محبت عشق بھی ہے اور پیار بھی، شفقت بھی ہے اور انسیت بھی، ہمدردی بھی ہے ، رحم بھی اور ترس بھی، لگاؤ بھی ہے اور التفات بھی۔ محبت ان لوگوں سے بھی ہوتی ہے جن سے ہمارا خون کا رشتہ ہے اور ان سے بھی جن سے دوستی ہو اور وہ بھی جو ہم سے کسی اور ناطے یا تعلق سے جڑ جاتے ہیں۔ لیکن ان ساری محبتوں میں سب سے اہم ہے... خود سے محبت کرنا۔
آج محبت کے اس دن پر آپ سب خود سے وعدہ کریں کہ آپ اس کے بعد خود سے محبت کریں گے، بے لوث اور بے غرض محبت، یہی محبت باقی ساری محبتوں کی بنیاد ہے، اپنے آپ سے سچی محبت کرنیوالا اپنے خالق سے محبت کرے گا، اس کی باقی مخلوق سے، ان کی پیدا کی ہوئی نعمتوں سے، انسانوں سے، جانوروں سے، اپنے ملک سے، اپنے ملک کے محافظوں سے، ہر وہ شخص جو اسے کسی نہ کسی طرح سہولت مہیا کرتا ہے، خواہ وہ اسے لفٹ دینے والا ہو، اس کا جوتا مرمت کرنیوالا، آگے بڑھ کر اس کے لیے دفتر کا دروازہ کھولنے والا، آپ کا خریدا ہوا سامان اٹھا کر اس کی گاڑی تک پہنچانے والا، مسجد میں صفیں بچھانیوالا، محلے کا چوکیدار جو راتوں کو جاگتا ہے تو ہم سوتے ہیں، مستری مزدور جو ہمارے لیے گھر بناتے ہی کیونکہ ہم خود گھر نہیں بنا سکتے، ہمارے گھروں سے کوڑا کرکٹ سمیٹنے والا ورنہ ہمارا گھر کوڑے کا ڈھیر بن جائے، تھکن کے وقت دفتر میںچائے کا ایک کپ لا دینے والا، ضرورت کے وقت آپ کے بالوں کی حجامت کرنیوالا، آپ کے لباس تیار کرنیوالا، آپ کے گھر میں کام کار کے لیے ملازمین، کھانا پکانیوالا، د ھوبی جو آپ کے کپڑے دھوتا اور استری کرتا ہے...
غرض ہمارے ارد گرد درجنوں ایسے لوگ ہیں جو ہمارے لیے سہولت کار ہیں، چاہے وہ یہ سہولیات ہمیں کسی تنخواہ یا ٹپ کے عوض دیتے ہوں ، مگر ہم اپنی زندگی میں ان کے محتاج ہیں، ہم ان سے کام لیتے ہیں مگر ہم ان سے محبت نہیں کرتے، اس لیے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ انھیں ان خدمات کے عوضانے مل جاتے ہیں- یقینا ہم انھیں یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں ان سے محبت ہے، مگر اتنا تو کرسکتے ہیں کہ ان کی خدمات کا دل سے اعتراف کریں اور ہر ایک کا شکریہ ادا کرنے کی عادت ڈالیں، انھیں '' I love you '' کہنے سے کہیں افضل اور اہم ہے کہ انھیں '' جزاک اللہ'' کہیں -یہی معاملہ ہم سب اپنے گھروں اور اپنے خاندان والوں سے روا رکھتے ہیں، ماں ، دادی، نانی، بہن، بیٹی، بیوی، بیٹا، باپ، بھائی، شوہر... جو کوئی ہمارے لیے کسی قسم کا کام کرتا ہے ، ا سے ہم اپنا حق سمجھتے ہیں، کوئی دن بھر مشقت کر کے کما کر لاتا ہے، کوئی تیمار داری کرتا ہے، کوئی کھانا پکارہی ہے، ہمارے کپڑ ے دھو رہی ہے، گھر کی صفائی کر رہی ہے، اپنے حصے کی بوٹی بھی اٹھا کر آپ کی پلیٹ میں ڈال رہی ہے، سونے سے پہلے اپنی انگلیوں کی پوروں سے ہماری تھکاوٹ کو چن رہی ہے، ہم ان سب کو ان کا فرض سمجھتے ہیں، ان کاموں پر کسی کا بھلا کیا شکریہ ادا کیا جائے، یہ تو روز کے کام ہیں، انھوں نے کرنا ہی کرنا ہیں!!!
کیا ہم ہر روز پانچ دفعہ اور اس کے علاوہ بھی اللہ کے حضور سر بہ سجود ہو کر اس کا شکر ادا نہیں کرتے، اس کی تسبیح نہیں کرتے۔ کیا وہ ہماری عبادتوں کا محتاج ہے؟ ہر گز نہیں۔ یہ صرف اس کا سکھایا ہوا طریقہ ہے جو ہمیں ہر محبت کے اعتراف کے لیے اختیار کرنا چاہیے۔ ہم اللہ کیسامنے مودب کھڑے ہو کر اسے بار بار بتاتے ہیں کہ ہمیں اس سے محبت ہے اور ہم اس کے مشکور ہیں، اللہ کو بتانے کی کیا ضرورت ہے، وہ تو ہمارے دلوں کے بھید بھی جانتا ہے، اگر ہم اس سے محبت کرتے ہیں تو وہ جانتا ہے۔ اس اعتراف کو بارہا کرنے کا مقصد ہمیں یہ سکھانا بھی ہے کہ جس سے محبت ہو اسے بتاؤ، اس کی عنایتوں کا اعتراف کرو اور اس کے ممنون ہو، ہم اپنے دل میں سوچتے ہیں کہ لو بھلا...یہ تو understood ہے، بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے، اسے نہیں معلوم کہ مجھے اس سے محبت ہے، لو بھلا میں ہر روز اس کا دس دفعہ شکریہ ادا کروں !!
ایسا ہی کرنا چاہیے، ابھی سے ابتداء کریں، اس وقت کا انتظار نہ کریں کہ جب کوئی دنیا سے چلا جائے اور سوچیں کہ کاش میں نے اسے بتایا ہوتا ... '' مجھے تم سے محبت ہے!!''