سُنو تھر کی پکار

تھر کی حالت ایسی نہیں جیسی دکھائی جارہی ہے، ٹھوس اقدامات ضروری ہیں


Express Report February 15, 2016
تھر کی حالت ایسی نہیں جیسی دکھائی جارہی ہے، ٹھوس اقدامات ضروری ہیں۔ فوٹو: محمد عظیم/ایکسپریس

تھر میں گذشتہ 3 سال کے دوران غذائی قلت، طبی سہولتوں کی کمی، حکام کی لاپرواہی اور وہاں کے منتخب نمائندوں کی جانب سے معاملات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بچوں کی اموات کا سلسلہ تیزی سے شروع ہوا جس نے انتہائی سنگین شکل اختیار کرلی تھی۔

ہر روز بچوں کی اموات کی خبروں نے پورے ملک میں تہلکہ مچادیا تھا۔ گوکہ اس کے بعد پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے حالات پر قابو پانے کیلیے بھرپور کوشش کی، بہت سے اقدامات کیے گئے لیکن یہ سلسلہ کم و بیش اب بھی جاری ہے ۔ آخر تھر کا اصل مسئلہ کیا ہے؟، وہاں کے بچوں کو بروقت طبی سہولتیں کیوں نہیں مل پارہیں؟ اور حکومت کیا کررہی ہے؟، ایسے ہی سوالات کے جواب جاننے کیلیے اور تھر کی اصل صورتحال اور حقائق سے قارئین کو آگاہ کرنے کیلیے کراچی میں تھر کی صورتحال پر ایکسپریس فورم کا اہتمام کیا گیا جس میں سندھ حکومت، اپوزیشن اور تھر میں آر او پلانٹ کے حوالے سے کام کرنے والی ایک کمپنی کے نمائندوں نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا، تھر کے حوالے سے ایکسپریس فورم کی روداد نذر قارئین ہے۔

تاج حیدر (سینئر رہنما پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین تھر ریلیف کمیٹی کے سربراہ)

تھرمیں صورت حال اتنی خراب نہیں ہے جتنی دکھائی جارہی ہے،حکومت سندھ کی مکمل توجہ تھر کی جانب مرکوز ہے ۔تھر میں پانی کی کمی نہیں ہے ۔زیر زمین 1.5بلین پانی کا ذخیرہ موجود ہے ۔اس کھارے پانی کو میٹھا کرنے کے لیے 437آر او پلانٹس قائم کررہے ہیں اور آئندہ چندماہ میں ان کی تعداد 700تک پہنچادی جائے گی ۔پانی کی تقسیم اور ذخیرہ کرنے میں کچھ خامیاں ہیں جن کو بتدریج دور کیا جارہا ہے اور تھر میں پانی کی تقسیم کے لیے پائپ لائن کا نظام تشکیل دیا جائے گا ۔ ایک چھوٹے آر او پلانٹ سے 20ایکڑ زمین پر کاشت کاری کی جاسکتی ہے اور اگر تمام آر او پلانٹس قائم کریں تو تھر کی ایک سے ڈیڑھ لاکھ زمین کو کاشتکاری کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔

تھر میں تمام آراو پلانٹس کو سولر نظام میں منتقل کردیا جائے گا اور شمسی توانائی سے ہزار سے1200گاؤں کو بجلی فراہم کی جائے گی۔ تھر کے کنویں بھی شمسی توانائی سے چلانے کیلیے کام جاری ہے جس سے صورتحال بہت بہتر ہوجائے گی ۔ حکومت سندھ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت 5ارب روپے کی لاگت سے سندھ میڈیکل سپورٹ پروگرام شروع کررہی ہے جس سے صحت کے شعبے کے مسائل کو حل کیا جائے گا ۔جبکہ ماں اور بچے میں قوت مدافعت کو بہتر بنانے اور غذائیت کمی کو دور کرنے کے لیے فوڈ نیوٹریشن پروگرام شروع کیا گیا ہے جس سے ان مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی جبکہ سندھ اینگرو کمپنی کے تعاون سے تھر میں ڈیری فارمنگ کو بڑھانے کے لیے12کلیکشن یونٹس بنائے جارہے ہیں اور اس ڈیری فارمنگ پروگرام سے تھر کے لوگوں کے معاشی مسائل حل ہوںگے۔

سردی کے موسم میں جانوروں کو چارے کی کمی کا سامنا ہوتا ہے اور بچوں میں نمونیا کی ویکسی نیشن نہ ہونے کی وجہ سے کچھ اموات ہوتی ہیں تاہم اس مسئلے پر بھی حکومت کی توجہ ہے ۔بائیو ایگری کلچرل پروگرام کے تحت آر او پلانٹس کے پانی کی مدد سے چارے کی کاشت شروع کردی گئی ہے۔ ایل بی او ڈی نظام میں خرابیوں کی وجہ سے سندھ میں پانی کے مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔اس نظام کی خامیوں کو بھی دور کررہے ہیں جبکہ تھر کی دیگر تحصیلوں خصوصاً اچھرو تھر اور اطراف کے علاقوں میں بھی آر او پلانٹس لگائے جائیں گے۔

تھر کے لیے منصوبے بہت ہیں لیکن کراچی میں بیٹھی بیوروکریسی تھر کے منصوبوں میں رکاوٹ ڈالتی ہے جس کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سے بات کی ہے، یہ مسئلہ بھی جلد حل کرلیا جائے گا ۔تھر کی آبادی 16لاکھ سے زائد ہے جبکہ 75لاکھ سے زائد مویشی ہیں ۔تھر کے تعلقہ اسپتالوں اورچھوٹی ڈسپنسریوں کو بھی اپ گریڈ کیا جارہا ہے ۔تھر میں ڈاکٹروں کی کمی کے مسائل ہیں ۔پارلیمانی جماعتیں اس حوالے سے تعاون کریں اور جو ڈاکٹر تھر میں نوکری کرنا چاہتا ہے اسے حکومت فوری بھرتی کرے گی اور تھرمیں ڈیوٹی ادا نہ کرنے والے ڈاکٹروں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔

سعید خان نظامانی (رکن سندھ اسمبلی پاکستان مسلم لیگ فنکشنل)

تھر کے مسئلے کو حل کرنا حکومت سندھ کی ذمے داری ہے ،اس مسئلے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔مٹھی ،ڈیپلو ،اسلام کوٹ صرف تھر نہیں بلکہ اچھرو ،سانگھڑ سے ملحقہ ریگستانی علاقہ اور دیگر تحصیلیں بھی تھر میں شامل ہیں ۔حکومت سندھ اور میڈیا نے صرف مٹھی پر توجہ دی ہوئی ہے۔مٹھی تھر کا نام نہیں ہے ،اچھرو تھرمیں 300سے زائد اموات ہوچکی ہیں لیکن وہاں حکومت سندھ کی کوئی توجہ نہیں۔ایک من گندم اور پانی کی4 بوتلیں تھر کے عوام کو دے دینا ان کے مسائل کا حل نہیں۔

تھرمیں کمیشن بنانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ تھر کے عوام عملی اقدامات چاہتے ہیں ۔صرف تھرمیں ہی کم عمری کی شادیاں نہیں ہوتی ہیں بلکہ سندھ کے دیگر اضلاع میں کم عمری کی شادیاں ہوتی ہیں یہ سندھ کی تہذیب میں شامل ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے تھر کی خواتین کے حوالے سے الفاظ ادا کیے تھے اس پر ان کو معافی مانگنی چاہیے اور اسمبلی میں تھر کی ماؤں اور بہنوں کی تذلیل نہیں ہونی چاہیے ۔ تھر کے مسئلے پر حکومت سندھ فوری آل پارٹیزکانفرنس بلائے ۔وزیراعلیٰ سندھ تھر کے لیے ہنگامی پیکیج کا اعلان کریں ۔تمام آر او پلانٹس کو فنکشنل کیا جائے۔

تھر کے لوگوں کو جعلی دوائیں دی جارہی ہیں جس میں محکمہ صحت کا عملہ ملوث ہے۔سندھ حکومت نوکریوں میں بندربانٹ کررہی ہے ۔تھر کے لیے صرف زبانی دعوے کیے جارہے ہیں عملی کام کہیں نظر نہیں آرہا ہے ۔اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو خدانخواستہ تھر میں آئندہ چند برسوں میں اموات میں اضافہ ہوجائے گا اور صورت حال حکومت کے بس سے باہر ہوجائے گی ۔ پنجاب میں بھی صحرا ہے لیکن وہاں تو یہ مسائل پیدا نہیں ہوتے ۔ اگر حکومت سندھ تھر پیکہج کے لیے اضافی فنڈز کے حوالے سے کوئی قانون سازی کرنا چاہتی ہے تو ہم اس حوالے سے تعاون کریں گے۔ فنکشنل لیگ اس مسئلے پر سیاست نہیں کررہی ہے ، ہم تھر کے عوام کے ساتھ ہیں ۔

سورٹھ تھیبو (رکن سندھ اسمبلی مسلم لیگ ن)

تھر کی ترقی کیلیے ایک جامع اور طویل المدت پالیسی تشکیل دی جائے تھر میں بچوں کی جان بچانے کیلیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ تھر خوبصورت علاقہ ہے اور معدنیات سے مالا مال ہے لیکن موجودہ حکومت تھر کے عوام کی ترقی کیلیے کچھ نہیں کر رہی۔ اگر حکومت کچھ کر رہی ہوتی تو تھر میں قحط سالی ہوتی نہ بچے مرتے۔ آج تھر کی جو تصویر نظرآرہی ہے وہ بہت تکلیف دہ ہے، ہم نے اسمبلی میں بھی تھر کیلیے آواز بلند کی ہے اور کہا ہے کہ تھر کے مسائل کے حل کیلیے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔

پیپلزپارٹی گزشتہ8 سال سے اقتدار میں ہے اگر اس عرصے میں پیپلزپارٹی نے تھر کے عوام کیلیے کچھ کیا ہوتا توآج تھر کی یہ صورتحال نہ ہوتی ۔ حکومت ان وجوہ کو جاننے کیلیے بالکل تیار نہیں ہے کہ تھر کی صورتحال یہاں تک کیسے پہنچی؟۔ناقص پالیسیوں کی وجہ سے صورتحال اس قدر سنگین ہوگئی ہے کہ اب صورتحال حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ہمیں تھر کی صورتحال دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے ہم حکومت کی اصلاح چاہتے ہیں ۔

ارشاد حسین (تھر میں پانی کی فراہمی اور آر او پلانٹ لگانے والی کمپنی پاک اوسس کے نمائندے)

ہم نے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کے دور میں تھر میں 2005 میں آر او پلانٹ کا منصوبہ شروع کیا تھا، 2006 میں وہاں 18 آر او پلانٹس کا افتتاح ہوا اور اب یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ تھر کی آبادی تقریباً 2 ملین ہے اور وہاں 2500 گاؤں یا دیہات ہیں جو مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ وہاں پانی کا معیار صحیح نہ ہونے کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں کی صحت کو شدید خطرات لاحق رہے ہیں، اب وہاں آر او پلانٹس کے فعال ہونے کی وجہ سے صورتحال میں بہتری آرہی ہے۔

وہاں صرف موسم سرما کے 2 ماہ میں ہی بچوں کی اموات کی صورتحال ہونی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ نوزائیدہ بچے کمزور صحت اور طبی سہولتیں بروقت نہ ملنے کی وجہ سے نمونیہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ تھر میں قحط نہیں ہے، اگر قحط ہوتا تو بڑی عمر کے لوگ بھی موت کا شکار ہوتے، بچوں کی اموات کی وجہ غذائی کمی ہے۔ ہم نے آر او پلانٹ کو چلانے والے جنریٹرز کو ڈیزل کے ساتھ ساتھ شمسی توانائی پر بھی منتقل کرنا شروع کردیا ہے ، اس طرح ڈیزل پر آنے والے اخراجات بھی کم ہوں گے۔

صورتحال بتدریج بہتر ہورہی ہے، ابتدا میں آر او پلانٹس چلانے والے لوگوں کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے تکنیکی مسائل رہے ہیں لیکن ہم اب مقامی افراد کی تربیت بھی کررہے ہیں اور اب خرابیاں پہلے سے کم ہیں۔ علاقے میں 40 کروڑ گیلن پانی چل رہا ہے، لوگوں کو قلت آب کا مسئلہ جو پہلے درپیش تھا وہ اب بہتر ہورہا ہے۔ جانوروں کو بھی پینے کیلیے پہلے سے زیادہ صاف پانی مل رہا ہے جس سے ان کی صحت بھی اچھی ہورہی ہے اور اس کا فائدہ عوام کو یہ ہورہا ہے کہ دودھ کی پیداوار بڑھ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کی اموات روکنے کے لیے ویکسی نیشن ضروری ہے جس کے لیے کام ہورہا ہے۔ مٹھی کی آبادی 40 ہزار ہے اور اب وہاں سارا پانی آر اوپلانٹ سے جارہا ہے۔

پونجومل بھیل (رکن سندھ اسمبلی متحدہ قومی موومنٹ)

تھر پاکستان کے قیام کے بعدسے اب تک سب سے محروم علاقہ رہاہے۔ قیام پاکستان سے قبل اس علاقے میں جوصورت حال تھی آج اس سے زیادہ ابترہے،ہجرت کے وقت جب لوگ اس علاقے سے نکل مکانی کرنے پرمجبورہوگئے تھے تب ہمارے آباواجدادنے فیصلہ کیاکہ ہم نہیں جائیں گے جس کاصلہ ہمیں یہ دیاگیاہے کہ تھرمیں قحط سالی ہے۔ وہاں کے لوگوں کوٹھیک طریقے سے غذا میسرنہیں ہے اورایسے میںحکومت وقت کہتی ہے کہ اس علاقے کاذکرپیرس اورواشنگٹن میں ہوتاہے یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔

تھرمیں غذا کی کمی اورپانی کے علاوہ سب سے بڑامسئلہ ڈاکٹرزکی عدم دستیابی اورلیڈی ڈاکٹرز کا اسپتالوں میں نہ ہوناہے۔ تھرمیں200کلومیٹرتک اسپتال نہیں ہیں، لوگ پریشانی میں کون سادرکھٹکٹائیں، ہمیں اس کاجواب دیاجائے ۔تھرکے مقامی لوگوں کو پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت سے بہت امیدیں تھیں مگرجوکام انھیں کرناچاہیے تھاوہ انھوں نے نہیں کیا۔ سندھ حکومت کہتی ہے کہ ہم نے آراوپلانٹ لگائے تو ہمیں حکومت یہ جواب دے کہ اس میں سے کتنے آراوپلانٹ ورکنگ میں ہیں اوراگرٹھیک نہیں ہیں تواس کے اسباب کیاہیں۔

سندھ حکومت کوجن محکموں سے تھرمیں کام لیناچاہیے تھا،وہ غیرفعال ہیںحد تویہ ہے کہ اس علاقے میں کوئی ڈاکٹرکام کرنے کے لیے تیارنہیں۔تھری عوام کی کچھ امیدوں کو جنرل رتائرڈپرویزمشرف کے دورمیں پورا کیاگیا جب تھرکی سڑکیں پکی بنائی گئیں اوروہاں کے عوام کوریلیف ملا مگر پیپلز پارٹی نے فلاحی کام پرتوجہ نہیں دی۔ اس ہی لیے آج سندھ کاحال دیگر صوبوں سے زیادہ بترہوگیاہے اورآج بھی سندھ حکومت اس پرتوجہ دینے پرغورنہیں کررہی ہے۔تھراوراس کے گردونواح کے علاقوںمیں کم ازکم آغاخان کراچی کی طرزکاایک اسپتال تعمیرکیاجائے تاکہ تھر کے باسیوں کے دکھ کم ہوسکیں۔تھرمیں تمام آراوپلانٹ کوفعال کیاجائے اور جو ڈاکٹرز اسپتالوں میں نوکری کرنے کوتیارنہیں ہے ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔ ایم کیوایم اس مسئلے کا فوری حل چاہتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں