مرغے کی اذان مقتول کوا اور صاحب کا کتا

صاحب تمہیں ہڈی ڈالتے ہیں تو تم بھونکتے ہو، لیکن جب تمہارے صاحب نہیں رہیں گے تب تم ایک بازاری اور آوارہ کتے بن جاؤ گے۔


آصف راٹھور February 16, 2016
تم جتنا بھونک سکتے ہو، بھونک لو لیکن مجھے کاٹنا مت کیونکہ ’’صاحب‘‘ نے تمہیں صرف بھونکے کے لئے رکھا ہوا ہے۔ فوٹو:فائل

ہمارے مرغے اذان دے دے کر تھک چکے ہیں، مگر کوئی بھی مرغے کی اذان پر صبح سویرے جاگنے کے لئے تیار نہیں بلکہ جو مرغا صبح سویرے اذان دے اسے اس وجہ سے ذبح کردیا جاتا ہے کہ اس نے رات کے آخری پہر میں بے وقت اذان دی ہے جو کہ ایک کہاوت کے مطابق خاندان کے لئے نحوست کی علامت ہوتی ہے۔ بھلے مرغے بیچارے نے اذان وقت پر ہی کیوں نہ دی ہو، دراصل وجہ یہ ہے کہ ہم سہل پسند لوگ ہیں صبح مسجد سے جب اصلوٰۃ خیر من النوم کی صدا بلند ہوتی ہے تو اس وقت ہماری نوم شروع ہوتی ہے۔ ایسے میں کیا صبح خیزی اور کیا خیر؟

جبکہ پرندے صبح خیزی میں انسانوں پر سبقت لے جاتے ہیں۔ ہم اب کوؤں کی کائیں کائیں پر جاگتے ہیں۔ پرانے زمانے میں مہمان اللہ کی رحمت تصور ہوتا تھا اور گھر کی منڈیر پر کائیں کائیں کرتے کوے کے متعلق یہ کہاوت مشہور تھی کہ یہ مہمان کی آمد کی خبر سنا رہا ہے۔موجودہ جدید اور نقلی خلوص سے بھرپور زمانے میں مہمان زحمت تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا کوے بیچارے کو کسی گھر کے سامنے جائے پناہ نہیں ملتی اور اگر کسی گھر کے سامنے کوا کائیں کائیں کرتا پایا جائے تو پہلے پہل اس کو موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر زندہ بچ گیا تو گھر کے افراد کام کا بہانہ بنا کر گھر اور محلے سے دور نکل جاتے ہیں۔

حکومت اور این جی اوز سے میری درخواست ہے کہ حکومتی سرپرستی میں ریاست کے ہر گھر کے سامنے ایک عدد درخت اور ایک کوے کا بندوبست کیا جائے، تاکہ یہ نکمی اور سُست قوم کوئے کی کائیں کائیں سن کر کسی کام کے بہانے گھر سے نکلے اور صبح خیزی میں پرندوں پر سبقت نہ بھی لے سکے تو کم از کم ان کے ساتھ تو رہے۔ ایک دوست کے گھر کے باہر کوے کی لاش ایک رسی کے ساتھ بندھی الٹی لٹکتے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ لوگ مہمان سے کس قدر خوف کا شکار ہیں۔ مہمان کی آمد کی خبر دینے پر پہلے تو بیچارے کوے کو قتل کیا اور آئندہ دوسرے کوے ایسی جسارت نہ کریں ان پر انسانی ہیبت بٹھانے کے لئے بیچارے مقتول کوے کی لاش کو رسی سے باندھ کر درخت کے ساتھ الٹا لٹکا دیا۔

دوست کے گھر چائے پی کر اور درخت کے نیچے کھڑے ہوکر مقتول کوے کی لٹکتی، ہوا سے جھولتی لاش کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا اور معافی بھی مانگی کہ شاید میری وجہ سے وہ ایک تو قتل ہوا، دوسرا دیگر کوؤں کے لئے نشان عبرت بھی بنا۔ اپنے دوست کو موجودہ دور کا ہٹلر، چنگیز خان اور تیمور لنگ قرار دے کر آگے بڑھا تو راستے میں ''صاحب'' کے ''کتے'' نے گھیر لیا ''کتوں'' اور سانپوں سے میں بہت ڈرتا ہوں، خاص کر ''صاحب '' کے ''کتوں'' اور ''آستین کے سانپوں'' سے۔

کیوں؟ وہ اس لئے کہ یہ دونوں جب کاٹتے ہیں تو پہلے کے زہر سے انسان سسک سسک کر مرتا ہے جبکہ دوسرے کے زہر سے اگلی سانس ہی نہیں آتی۔ خیر صاحب کے کتے سے جب مڈ بھیڑ ہوئی تو جان بچانی مشکل ہوگئی۔ اب اس کو پتھر بھی نہیں مار سکتا کیونکہ ''صاحب'' کا ''کتا'' تھا، میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ تم جتنا بھونک سکتے ہو، بھونک لو لیکن مجھے کاٹنا مت کیونکہ ''صاحب'' نے تمہیں صرف بھونکے کے لئے رکھا ہوا ہے۔

صاحب تمہیں ہڈی ڈالتے ہیں تو تم بھونکتے ہو لیکن جب تمہارے ''صاحب''، صاحب نہیں رہیں گے تب تم ایک بازاری اور آوارہ کتے بن جاؤ گے۔ ہر کوئی تمہیں پتھر مارے گا، بازاروں میں تمہیں ٹھڈے پڑیں گے۔ تمہاری چیخیں بازار کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سنائی دیں گی، میونسپل کمیٹی والے تمہیں زہر دے کر مارنے کی کوشش کریں گے اور آج تمہارے ساتھ اڑوس پڑوس کے یہ جو 7، 6 کُتے بھونک رہے ہیں یہ تب تمہیں منہ بھی نہیں لگائیں گے۔ یہ تمہاری چیخیں سُن کر راستہ بدل لیں گے تم ایسا کرو کہ ''انسان'' کے بچے بن جاؤ بھلے تم ''کتے'' ہی رہو۔

''کتوں'' کو انسان کی زبان کب سمجھ میں آتی ہے؟ پھر بھی میں صاحب کے کتے سے ذرا فاصلے پر کھڑا اسے یہ سب سمجھا رہا تھا۔ اڑوس پڑوس کے کتے بھی بھونکتے بھونکتے قریب پہنچ چکے تھے۔ اب میری آواز ان کی آواز میں دب گئی تھی، پتھر مارے سوا کوئی راستہ نہیں تھا لیکن مارتا بھی کیسے'' کتا'' جو صاحب کا تھا۔ اسی اثناء میں میری نگاہ دو تین بندروں پر پڑی جو قلابازیاں کھاتے ہوئے ایک درخت سے دوسرے پرجاتے اور دوسرے سے واپس پہلے پر آجاتے۔ پھر پتہ چلا کہ یہ بندر بھی ''صاحب'' کے تھے بلکہ ''بڑے صاحب'' نے شوق سے پالے ہوئے تھے، مگر گھر میں انکی قلا بازیوں سے تنگ آکر صاحب نے انہیں گھر سے باہر کھلا چھوڑ دیا تھا۔

صاحب کا ''کتا'' مسلسل بھونک رہا تھا اور میں اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک ایک بندے نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا کہ ''صاحب'' کا یہ ''کتا'' ہمیں بھی بہت پریشان کرتا ہے۔ ہم اس کو پتھر بھی نہیں مارسکتے، بھگا بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ صاحب کا کتا ہے۔ میں نے اس شخص سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے کبھی اس ''کتے'' کو سمجھایا نہیں کہ جب اس کے ''صاحب''، صاحب نہیں رہیں گے تو یہ ایک عام سا بازاری اور آوارہ ''کتا'' ہوجائے گا۔ وہ شخص بولا کہ بابو جی ''کتے'' انسانوں کی زبان نہیں سمجھتے لیکن یہ سب سمجھتا ہے یہ سدھایا ہوا ''کتا'' ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ نسلی ''کتا'' ہے۔

جب نئے صاحب آتے ہیں یہ انکے لئے بھونکتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ موجودہ ''صاحب'' نے اسے کھلا چھوڑا ہوا ہے جبکہ ''پرانے صاحب'' اسے باندھ کر رکھتے تھے، اور یہ اپنے ڈربے سے بھونکتا رہتا تھا۔ پرانے صاحب اس ''کتے'' کو اس لئے باندھ کر رکھتے تھے کہ ایسی نسل کے ''کتے'' بڑے بڑے سردار اور وڈیرے ہی پالتے تھے، کیونکہ ایسے بے لگام کتے اگر کسی کی بوٹیاں نوچ بھی لیں تو سرداروں، وڈیروں کے ڈر سے لوگ سہم کر معاف کردیتے تھے۔ پرانے صاحب چونکہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے اپنی ''حفاظت'' کی خاطر نوابوں کے ''کتے'' کو باندھ کر رکھتے تھے۔ یہ انکشافات سن کر تو میرے پسینے ہی چھٹ گئے، میری جان کو مزید خطرہ ہوتا، اِس سے پہلے ہی بغیر سوچے سمجھے بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔

لیکن بھاگنے کے بعد یہ طے کرلیا تھا کہ ''صاحب'' سے شکایت ضرور کرونگا کہ بھلا یہ کی طریقہ ہوا، کتے کو کون اس طرح کھلا چھوڑتا ہے؟ بس اِس مقصد کے لیے صاحب کا نمبر ڈائل کیا کہ ''صاحب'' کو اپنے پالتو''کُتے'' باندھ کر رکھنے کا مشورہ دوں، مگر ''صاحب'' نے کال وصول نہیں کی، کیوں؟ کیونکہ ''صاحب'' تو بس ''صاحب'' ہی ہوتے ہیں ''کمیوں'' اور ''مزارعوں'' کے فون سننے کا ان کے پاس وقت ہی کب ہوتا ہے۔

''اس آرٹیکل کی نوک پلک سنوارتے وقت جب میری چھوٹی بہن نے دوست کے گھر کے سامنے کوے کی لٹکتی اور جھولتی لاش کی داستان پڑھی، پہلے تو اس نے زور دار قہقہہ لگایا پھر معصومیت سے کہنے لگی اگر آپ سردیوں کے بجائے گرمیوں میں چھٹیاں گزارنے گھر آتے تو کوے کی لاش دوست کے گھر کے بجائے ابا کے گھر کے سامنے لٹکتی نظر آتی''۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں