میڈ ان پاکستان ٹورنامنٹ کا انتظار
پی ایس ایل شارجہ کا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ پانچوں ٹیمیں دوبارہ دبئی پہنچ گئی ہیں۔
ISLAMABAD:
پی ایس ایل شارجہ کا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ پانچوں ٹیمیں دوبارہ دبئی پہنچ گئی ہیں۔ پیر کو ریسٹ ڈے کے بعد آج صرف ایک میچ ہو رہا ہے جس میں لاہور قلندر اور کوئٹہ گلیڈیئیٹرز آمنے سامنے ہوں گے۔ پول میچز میں کوئٹہ کا یہ آخری میچ ہے جب کہ لاہور قلندر کا اسلام آباد یونائٹڈ کے ساتھ ایک میچ باقی ہو گا۔ ٹورنامنٹ کی سب سے مہنگی ٹیم کراچی کنگز کے لیے پلے آف مرحلے تک رسائی مشکل نظر آرہی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں شعیب ملک کو سب سے اچھا کپتان سمجھا جاتا ہے۔
ان کی قیادت میں سیالکوٹ اسٹالینز کی ٹیم ہمیشہ شاندار تنائج دیتی رہی ہے۔ پی ایس ایل کے افتتاحی میچ میں کراچی کنگز کی کامیابی سے لگتا تھا کہ یہ ٹیم ٹاپ تھری ٹیموں میں ضرور ہو گی مگر اس کے بعد اس ٹیم کی پرفارمنس نے شائقین کو انتہائی مایوس کیا۔ کراچی کنگز کی کارکردگی سے مجھے آئی پی ایل کی مہنگی ترین ٹیم ممبئی انڈینز کی ابتدائی دو ٹورنامنٹ میں ہونے والی حالت زار یاد آ رہی ہے۔ پہلے ٹورنامنٹ کا اختتام ہوا تو ممبئی انڈینز پانچویں نمبر پر تھی ۔
2009ء میں آئی پی ایل کے دوسرے ایڈیشن میں ممبئی انڈینز 8ٹیموں میں سے 7ویں نمبر پر رہی تھی۔ 6سال بعد 2013ء میں ممبئی انڈینز نے آئی پی ایل کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ جب کہ انڈین فلم انڈسٹری کے سپر اسٹار شاہ رخ خان کی ٹیم کی حالت بھی پتلی رہی۔ پہلے ایڈیشن میں کلکتہ نائٹ رائڈرز چھٹے،2009ء میں کے کے آر 8ٹیموں میں آخری نمبر پر رہی تھی۔ تیسرے ایڈیشن میں بھی شاہ رخ خان کی ٹیم چھٹے نمبر پر تھی جب کہ اس کا عروج چوتھے ٹورنامنٹ میں ہوا جب یہ فاتح رہی۔ 2014ء میں بھی ٹورنامنٹ کی فاتح یہی ٹیم تھی۔ آئی پی ایل کا پہلا ایڈیشن نسبتاً سستی ٹیم راجستھان رائلزنے جیتا تھا۔ یہ ٹیم بعد میں معطل کر دی گئی۔
پی ایس ایل کی طرف واپس آئیں تو اب تک کی صورتحال آئی پی ایل کے پہلے ٹورنامنٹ جیسی ہی ہے۔ کراچی کنگز اور لاہور قلندر سے بہت توقعات تھیں لیکن اس مرحلے تک یہ دونوں ٹیمیں پوائنٹس ٹیبل پر سب سے نیچے ہیں۔ لاہور قلندر کے دو اور کراچی کنگز کا صرف ایک میچ باقی ہے۔ اسلام آباد یونائٹڈ کے 6پوائنٹس ہیں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پلے آف مرحلے تک پہنچنے کے لیے اس کے چانسز زیادہ ہیں۔ اب تک پشاور زلمی پہلے نمبر پر ہے۔
پشاور کی پرفارمنس زیادہ حیران کن اس لیے نہیں ہے کہ شاہد خان آفریدی اس کے کپتان ہیں۔ سب سے زیادہ حیران کر دینے والی پرفارمنس کوئٹہ گلیڈیئیٹرز کی رہی ہے۔ سرفراز احمد کی کپتانی میں اس ٹیم نے کیا عمدہ پرفارمنس دی ہے۔ ٹورنامنٹ شروع ہوا تو اس ٹیم کو کسی کھاتے میں نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ بڑے ناموں والی بڑی ٹیموں کا بڑا چرچا تھا۔
کرکٹ کا یہی حسن ہے۔ کاغذوں میں سب سے کمزور نظر آنے والی ٹیم ٹاپ پر جا پہنچی ہے اور بڑے بڑے ناموں والی ٹیمیں خوار ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ٹورنامنٹ جاری ہے' 23فروری کو فائنل میں پہنچنے والی ٹیمیں کونسی ہوں گی، ابھی یہ پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ اب تک کی پرفارمنس البتہ سامنے رکھی جائے تو پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈیئیٹرزمیں سے کسی ایک کو ضرور فائنل میں ہونا چاہیے۔ لیکن یاد رکھیئے گا یہ کرکٹ ہے، یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
ہار جیت کھیل کا حصہ ہے اور اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کیا جائے تو اسے چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اتوار کی رات وہاب ریاض اور احمد شہزاد کے درمیاں جو کچھ ہوا وہ انتہائی قابل افسوس ہے۔ دونوں پلیئر پاکستان کی نمایندگی کرتے ہیں۔ کھیل میں ایسے مرحلے بھی آتے ہیں جب کھلاڑی جذباتی ہو جاتے ہیں۔ فاسٹ بولر کا جذبات میں آنا عین فطری ہے لیکن قابو سے باہر ہو جانا قابل قبول نہیں۔ وہاب اور احمد کو ڈیرن سیمی سے سبق سیکھنا چاہیے۔
کراچی کنگز کے خلاف میچ کے دوران ڈیرن سیمی نے محمد عامر کو چھکا مارا ، اس کے بعد وہ مسلسل تین گیندوں پر بیٹ ہوئے اور غصے سے گھورنے یا کچھ غلط سلط کہنے کے بجائے محمد عامر کو داد دی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ احمد شہزاد نے چھکا مارا تھا تو وہاب ریاض انھیں داد دیتے اور جب وہ آؤٹ ہوئے تو وہاب ریاض کے لیے تالی بجاتے اور میدان سے چلے جاتے۔ امید ہے کہ اس طرح کا ناخوشگوار واقعہ دوبارہ پیش نہیں آئے گا۔
پی ایس ایل کا سفر کامیابی سے جاری ہے۔ شارجہ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ آئے کہ انھوں نے اس میں رنگ بھر دیا۔ دبئی میں افتتاحی تقریب کے بعد شائقین کی زیادہ بڑی تعداد میچوں میں نظر نہیں آئی۔ امید ہے کہ اب صورتحال بہتر ہو گی۔ نجم سیٹھی نے وزیر اعظم نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو فائنل دیکھنے کے لیے دبئی آنے کی دعوت دی ہے۔ نواز شریف کرکٹ کھیلنے کے شوقین رہے ہیں اور عمران خان قومی ٹیم کے کپتان۔ دونوں کو ضرور دبئی جانا چاہیے اور فائنل میں شریک ہو کر دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ پی ایس ایل ہمارا یعنی پاکستان کا ٹورنامنٹ ہے۔
دہشتگردی کے ستائے پاکستانیوں کے پاس خوش ہونے کے مواقع بہت کم ہیں۔ کبھی کبھار کوئی اچھی خبر آتی ہے تو کسی کھیل کے میدان سے ہی ایسا ہوتا ہے۔ ورنہ ہماری حالت یہ ہے کہ بسنت منانے تک پر پابندی لگ چکی ہے۔ آپریشن ضرب عضب سے دہشتگردی کی کارروائیوں میں کمی ضرور آئی ہے لیکن ابھی معاشرے میں شدت پسندی اس حدت تک کم نہیں ہوئی کہ ہم فخر سے کہہ سکیں یہ معاشرہ کافی بہتر ہو چکا ہے۔ ہمارے عمومی رویوں میں بھی شدت پسندی غالب آ چکی ہے۔
گذشتہ کالم میں ایک غلطی ہو گئی تو اس کی تصحیح کے لیے ایک قاری نے جوابی میل بھجوائی اس میں لکھا ہے '' تم نے آئی پی ایل کی 8ٹیموں کو 6لکھا، اس پر تمہیں شرم آنی چاہیے''۔ میں شکر گزار ہوں کہ ان صاحب نے میری تصحیح کی مگر ان کے الفاظ نے مجھے بتایا کہ شدت پسندی ہر جگہ اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔
پی ایس ایل سے ہم دنیا کو بتانے میں کامیاب رہے ہیں کہ ہم شدت پسند قوم نہیں ہیں۔ کچھ لوگ ہمارا یہ دعویٰ مان جائیں گے اور کچھ اس پر یقین نہیں کریں گے۔ پی ایس ایل کا آیندہ ایڈیشن پاکستان میں ہو گیا تو پھر کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ ہم شدت پسند نہیں ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یو اے ای میں ہونے والا یہ ٹورنامنٹ میڈ بائے پاکستان ٹورنامنٹ ہے' یہ جب پاکستان میں کھیلا جائے گا تو ہم کہہ سکیں گے یہ میڈ ان پاکستان ٹورنامنٹ ہے۔