ویلنٹائن ڈے اور ہمارے منتخب نمایندے
ہماری سیاسی قیادت خصوصاً بلدیاتی سیاسی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ اسے اپنے دائرہ کار کا ادراک نہیں ہے
ویلنٹائن ڈے گزر گیا' ہر برس کی طرح اب بھی اسے منانے یا نہ منانے پر بحث و مباحثے ہوئے لیکن سب سے دلچسپ خبر پشاور سے آئی۔ ضلع کونسل پشاور نے کوئیک ایکشن کرتے ہوئے ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی کی قرارداد منظور کی۔ بات ویلنٹائن ڈے کے جائز یا ناجائز ہونے کی نہیں بلکہ گراس روٹ لیول کے منتخب عوامی نمایندوں کی ترجیحات اور مائنڈ سیٹ کی ہے۔
جیسے دیگ میں سے چاول کے چند دانے چکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ دیگ تیار ہے یا نہیں' ویسے ہی ضلع کونسل پشاور کی قرار داد سے عوامی نمایندوں کی ترجیحات اور مائنڈ سیٹ کا پتہ چل جاتا ہے۔ ضلع کونسل پشاور کے ارکان کو عوام نے اپنے مسائل حل کرنے کے لیے منتخب کیا ہے' ویلنٹائن ڈے کون مناتا ہے اور کون نہیں یا یہ جائز ہے یا ناجائز' یہ ان کا سر درد نہیں ہے۔
تہذیبی اور ثقافتی ایشوز کی نہ انھیں سمجھ بوجھ ہوتی ہے نہ عوام نے انھیں یہ مینڈیٹ دیا ہے کہ وہ تہواروں کے جائز و ناجائز ہونے کا فتویٰ صادر کرتے پھریں۔ آئین و قانون نے بلدیاتی اداروں کے ذمہ یہ کام لگایا ہے کہ شہروں اور دیہات میں بسنے والے عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا جائزہ لیں اور جہاں سڑک، گلی، اسٹریٹ لائٹس وغیرہ نہیں ہیں، ان کا بندوبست کرائیں۔ اگر ان کے پاس فنڈز کی کمی ہے تو پھر صوبائی حکومت کو بتائیں۔
اگر صوبائی حکومت فنڈز نہیں دیتی یا کوئی ادارہ ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ڈال رہا ہے تو اس کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنے عوام کو بھی آگاہ کریں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ پشاور ضلع کونسل کے ارکان اگر سچے دل اور لگن سے کام کریں تو پشاور شہر اور اس کے ارد گرد بسنے والے دیہات ترقی کا بہترین نمونہ بن سکتے ہیں۔ تھوڑے وسائل سے بھی کارنامے سر انجام دیے جا سکتے ہیں' بات صرف ترجیحات اور اپنے علاقے یا شہر سے محبت کرنے کی ہے۔
ہماری سیاسی قیادت خصوصاً بلدیاتی سیاسی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ اسے اپنے دائرہ کار کا ادراک نہیں ہے۔ اگر اداراک ہے تو وہ اس دائرے میں رہنا نہیں چاہتے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے والا چاہتا ہے کہ اسے بلدیاتی اختیارات ملیں، سڑکیں بنانے کے لیے فنڈز بھی اسے ملیں' سیوریج بچھانے اور اس کی صفائی بھی اس کے حکم سے ہو' دیہات میں اسکول بھی اس کی مرضی سے بنیں' وہ سرکاری نوکریوں کا کوٹا بھی مانگتا ہے۔
قانون سازی کے مینڈیٹ کو وہ شاید کمتر سمجھتا ہے۔ اس لیے قانون سازی پر ہمارے ارکان پارلیمنٹ کی توجہ کم ہوتی ہے۔ وہ مسودہ قانون بغیر پڑھے اور بحث کیے دستخط کر دیتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے لیے منتخب ہونے والے کونسلرز اور چیئرمین حضرات چاہتے ہیں کہ انھیں قومی سطح کی پالیسیاں بنانے کا اختیار ہونا چاہیے۔ بلدیاتی نمایندوں کی اکثریت کو اپنے اختیارات یا حدود و قیود کا علم ہی نہیں ہوتا۔
بلدیاتی نمایندے بھی قومی، صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی طرح مراعات مانگتے ہیں' دینی جماعتوں کی قیادت تہذیبی و ثقافتی امور یا تفریحی سرگرمیوں کے جائز و ناجائز ہونے کی باتوں کو سیاست سمجھتی ہے یا پھر تنازع فلسطین اور افغانستان کو پاکستانی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ بنانے پر زور دیتی ہے۔
ان کی توجہ ہر اس تہوار پر پابندی لگوانے پر مرکوز ہوتی ہے جس کی گنجائش مذہب سے نہ نکلتی ہو یا جس کا تعلق زمین سے ہو جیسے بسنت وغیرہ۔ ویلنٹائن ڈے ہو یا نیوایئر نائٹ، ایسے مواقعے پر مختلف شخصیات مخالفانہ بیان جاری کرنا ضروری سمجھتی ہیں اور بعض تنظیموں کے لٹھ بردار تقریبات اجاڑنے کی دھمکیاںدیتے ہیں۔ کسی تہوار یا میلے پر کوئی ادیب، دانشور یا تہذیب و ثقافت کا ماہر کوئی تنقید کرے یا رائے دے تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اس کا مضمون یا شعبہ ہی تمدن اورفنون لطیفہ سے متعلق ہے۔
ویلنٹائن ڈے کی مخالفت بھی ہو سکتی ہے اور اس کی حمایت میں بھی بولا یا لکھا جا سکتا ہے لیکن یہ کام انھیں کرنا چاہیے جنھیں تہذیب و ثقافت کی نزاکتوں اور ان کی تاریخ کا شعور ہو' یہ سیاسی جماعتوں یا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمایندوں کاکام نہیں ہے۔ سیاست دان کو حکومتی اقدامات پر بات کرنی چاہیے، عوام سے ہونے والی زیادتی یا ناانصافی پر آواز بلند کرنی چاہیے ۔
قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کو جائزہ لینا چاہیے کہ ایسے کون سے قوانین بنائے جا سکتے ہیں یا ہٹائے جا سکتے ہیں جن سے عوام کو سہولت یا فائدہ ملے گا۔ بلدیاتی نمایندوں کو اپنے علاقے کے مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ آئین و قانون نے ان کا یہی مینڈیٹ مقرر کیا ہے۔ بلدیاتی اداروں میں ضلع کونسل انتہائی اہم ادارہ ہوتا ہے، یہ دیہی علاقوں کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے بنایا گیا ہے۔
ہمارے دیہات ہر قسم کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اسٹریٹ لائٹس کا تو تصور بھی نہیں ہے۔ میونسپلٹی اسکولوں کا معیار گرا ہوا ہے۔ اگر ضلع کونسل کے ارکان اور چیئرمینوں کو اپنے علاقوں کے مسائل کا ادراک ہو اور وہ اپنے عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہوں تو تھوڑے مالی وسائل میں بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔
میرا پس منظر چونکہ دیہی ہے اس لیے مجھے دیہاتی مسائل کا خاصی حد تک علم ہے۔ اکثر گاؤں مرکزی شاہراہ سے دو سے پانچ چھ کلومیٹر دور ہوتے ہیں۔ یہ رابطہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔ پنجاب میں تو بہت کم دیہات ایسے ہوں گے جن کی رابطہ سڑکیں درست حالت میں ہوں۔ دیہات کی اکثریت ایسی ہے جہاں گلیاں اور رابطہ سڑکیں کچی ہیں' ان کی چوڑائی بہت کم ہوتی ہے لیکن گاؤں سے منتخب ہونے والے کونسلرز اور چیئرمین اس جانب توجہ نہیں دیتے۔ دیہات سے منتخب ہونے والے بلدیاتی اداروں کے نمایندوں کی ساری توجہ کا مرکز تھانہ یا پٹواری ہوتے ہیں۔
ان کے دل میں یہ خواہش نہیں ہوتی کہ ان کا گاؤں' قصبہ یا شہر جدید سہولتوں سے آراستہ ہونا چاہیے' یورپ کے دیہات میں ہر وہ سہولت موجود ہوتی ہے جو بڑے شہروں میں ہے' بہترین اسکول' اعلیٰ معیار کی رابطہ سڑکیں' جدید اسپتال یا ڈسپنسری جس کے پاس ایمبولینس اور آپریشن تھیٹر کی سہولت بھی ہوتی ہے' کمیونٹی سینٹر جہاں تفریحی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں' یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ ان علاقوں کے میونسپل ممبران کو اپنے گاؤں سے محبت ہے' اپنے لوگوں سے پیار ہے' اس لیے وہ اسے خوبصورت اور صاف ستھرا رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
اس کے برعکس ہمارا منتخب نمایندہ اپنی اور اپنے خاندان کی مراعات کو اولیت دیتا ہے' وہ ان کاموں میں ٹانگ اڑاتا ہے جو اس کے کرنے کے نہیں ہیں' مجھے بہت سے ایم این ایز اور ایم پی ایز سے ملنے کا اتفاق ہوا لیکن حرام ہے کسی نے ماحولیات پر بات کی ہو' یا اس جانب توجہ دی ہو کہ ہمارے نظام فوجداری میں بہت سے ایسے قوانین ہیں جو طاقتور مجرموں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔
انھیں تبدیل کرنے کے لیے قانون سازی کریں' سب اپنے اختیارات اور مراعات کی بات کریں گے' کوئی کہتا ہے کہ اسے بلٹ پروف گاڑی نہیں ملی اور کوئی کہتا ہے کہ ان کی تنخواہیں اور مراعات کم ہیں۔ یونین کونسلزکے چیئرمینوں اور کونسلرز کی تو بات ہی کیا کرنی' وہ بیچارے بھی ہر کسی سے یہی پوچھتے ہیں کہ ان کا اعزازیہ کتنا ہو گا' یہ ساری کتھا بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے یا کسی اور تہوار کو منانے یا نہ منانے کا اختیار عوام کو ہونا چاہیے۔
جب عوام کو یہ اختیار ہے کہ وہ اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے ارکان کا انتخاب کریں تو تہواروں کے منانے یا نہ منانے کا اختیار انھیں کیوں حاصل نہیں' کسی ڈسٹرکٹ کونسل کے ارکان کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے' جن عوام کے ووٹوں کی خیرات سے وہ منتخب ہوئے' ان کے حق اختیارات پر پابندی لگانے کی سفارش کرنا' ووٹرز کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔