احتجاجی سیاست ہی اوڑھنا بچھونا

اُنہیں جب جب موقعہ ملتا وہ اِس سے ایک لمحے کی بھی چوک یا غلطی نہ کرتے


Dr Mansoor Norani February 17, 2016
[email protected]

2015ء کے ابتدائی دنوں میں خانصاحب جب طوعاً و کرہاً اپنے 126دنوں پر محیط دھرنے کے خاتمے پر مجبور ہوئے تو سب سے پہلا کام جو اُنہوں کیا، وہ ریحام خان سے شادی رچانے کا تھا۔ دس ماہ تک وہ اِس نئے رشتہ ازدواج سے جڑے رہے لیکن اِس دوران بھی وہ مختلف طریقوں سے اپنی احتجاجی سیاسی طبیعت کی تسکین کا سامان تلاش کرتے رہے۔

اُنہیں جب جب موقعہ ملتا وہ اِس سے ایک لمحے کی بھی چوک یا غلطی نہ کرتے۔ اِسی دوران 2013ء کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے بھی اُن کے مطالبے پر سپریم کورٹ کے اعلیٰ جج صاحبان پر مشتمل ایک جوڈیشری کمیشن بنا دیاگیا اور وہ اُس پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار بھی کرتے رہے۔ یہ اور بات ہے جب فیصلہ اُن کی خواہشات اور توقعات کے برعکس آیا تو وہ اُسے ماننے سے انکار کرتے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ 2015ء کو الیکشن کا سال کہہ کر اپنی خفت بھی مٹاتے رہے۔

یہاں تک کہ وہ خیبر پختون خوا میں ترقیاتی کاموں کی غرض سے فنڈز ریزنگ مہم چلانے کے لیے جب دبئی جاتے ہیں تو وہاں بھی 2015ء کے سال کو الیکشن کا سال کہہ کر اپنی تمام کوششوں پر خود ہی پانی پھیر دیتے ہیں۔ ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام کا تاثر دے کر وہ کس طرح لوگوں کو اِس مجوزہ فنڈز ریزنگ پروگرام میں ہاتھ بٹانے کے لیے راغب کر سکتے تھے۔

نتیجہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک دھیلا بھی وہ اِس مہم میں حاصل نہ کر پائے۔ 2015ء گزر گیا اور نہ نئے عام انتخابات ہوئے اور نہ اُن کا کوئی امکان نظر آیا۔ ہاں البتہ پورے ملک میں بلدیاتی الیکشن ضرور ہوئے جس میں اُنہیں اور اُن کی پارٹی کو خیبر پختون خوا کے سوا ملک کے تینوں صوبوں میں مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں اچھی خاصی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اب ویسے تو 2018ء میں الیکشن کے لیے بظاہر رضامند دکھائی دیتے ہیں لیکن اُنکی دلی تمنا اور خواہش تو یہی ہے کہ میاںصاحب کوئی بڑی غلطی کر بیٹھیں اور جس کے نتیجے میں قبل از وقت الیکشن کی اُمید بر آئے۔

پاکستان ایئر لائنزکی مجوزہ نجکاری کے خلاف ملازمین کی حالیہ احتجاجی مہم کو بھی وہ اِس اُمید پر سہارا دینے کے لیے میدان میں نکل آئے کہ شاید اِس طرح اُن کے دل کے نہاخانوں میں چھپے وزیرِ اعظم بننے کے اُس جذبے اور خواہش کی کوئی تسلی اور تشفی ہو جائے اور وہ وقت سے پہلے اپنی بر گشتہ آرزؤں اور اُمیدوں کو پورا ہوتا دیکھ لیں۔ مگر اِدھر بھی اُن کی حسرتوں اور تمناؤں کا ناگہانی خون ہو گیا اور پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال بھی از خود ہی ختم ہو گئی۔

اِس سے قبل بھی وہ لاہور میں اورنج ٹرین کے معاملے میں ٹانگ لڑانے کا عندیہ دے کر اُس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر چکے تھے لیکن وہاں بھی اُن کی قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور یہ معاملہ بھی شہباز شریف کی ذہانت اور معاملہ فہمی کی بدولت افہام و تفہیم کے ساتھ رفع دفع ہو گیا۔ یہ تو اچھا ہوا اِس بار کراچی میں وہاں کے شہریوں کی جانب سے اُنہیں وہ حوصلہ افزائی اور پذیرائی نہیں ملی ورنہ وہ پی آئی اے کی نجکاری کو بہانہ بنا کر ایک اورتاریخی دھرنے کا اعلان کرنے ہی والے تھے۔ مجبوراً وہ اسٹار گیٹ پر ایک چھوٹے سے مظاہرے کے بعد ہی سے واپس لوٹ گئے۔

پی آئی اے میں نافذ لازمی سروس ایکٹ کو غیر قانونی، غیر جمہوری اور ظالمانہ کہنے والے خان صاحب کو یہی ایکٹ ''کے پی کے'' میں قانون کے بالکل عین مطابق اور جمہوری لگتا ہے۔ احتجاجی سیاست دراصل خان صاحب کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ وہ اِس سے خود کو اُسی طرح الگ نہیں کر سکتے جس طرح وہ جہانگیر ترین اور جناب شیخ رشید سے کبھی علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ دونوں حضرات خود اُن سے مایوس ہو کر کہیں اُنہیں چھوڑ نہ جائیں۔

اُنہیںاحتجاجی سیاست کا سبق اور درس بھی اِنہی دو حضرات نے پڑھایا ہے جن کے خیال میں کامیاب سیاست کا راز ہی احتجاجی سیاست اور جلاؤ گھیراؤ میں ہے۔ پارلیمانی اور قانونی سیاست کے یہ دونوں اشخاص بڑے پر زور مخالف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب اُنہی کے مفید مشوروں پر عمل کرتے ہوئے پارلیمانی سیاست سے ہمیشہ دور دور ہی رہتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ پارلیمنٹ میں آنا شاید وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ویسے تو ہمارے وزیرِ اعظم صاحب بھی پارلیمنٹ میں کم کم ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن اِس کے لیے تو اُنکے پاس اپنی منصبی ذمے داریوں کا معقول بہانہ موجود ہے مگر عمران خان صاحب تو اِس وقت صرف ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر ہیں اُن کے پاس تو مملکت کا کوئی عہدہ بھی نہیں ہے اور نہ وہ اتنے غیر ملکی دورے کرتے ہیں جتنے وزیرِاعظم کی حیثیت میں میاں صاحب کو کرنے پڑتے ہیں، لیکن پھر بھی عوام کی مناسب نمایندگی کا حق ادا کرنے کے لیے خان صاحب کے پاس قومی اسمبلی میں جانے کا وقت ہی نہیں ہے یا پھر وہ دانستہ طوروہاں جانا پسند نہیں فرماتے۔

اُن کی ساری توجہ اخباری بیانوں، پریس کانفرنسوں اور میڈیا ہاؤس میں بیٹھ کر انٹرویوز دینے پر رہتی ہے۔ ابھی کوئی ضمنی الیکشن ہو جائے پھر دیکھیے وہ کس طرح سرگرم ہو کر میدان میں اُتر آتے ہیں۔ پہلے الیکشن کمیشن کے ممبران کو مشکوک بنانا اور پھر اُنہی کی نگرانی میں ہونے والے انتخاب میں بھر پور حصہ لینا اور اگر فیصلہ توقعات کے برعکس آ جائے تو دھاندلی دھاندلی کا شور مچانا۔ یہی اُن کی سیاست کا محور ہے۔

دھاندلی کے اپنے لگائے گئے الزامات کی وہ ہر بار نئی جنس اور نوع دریافت کرتے اور پھر اُسی کو لے کر سال دو سال سیاست کرتے رہتے ہیں تاوقتیکہ پھر کوئی اگلا نیا ضمنی الیکشن قریب نہ آ جائے۔خان صاحب کی نزدیک سڑکوں پر احتجاجی سیاست ہی شاید عوام کی اصل ترجمانی اور خدمت ہے اُن کے خیال میں وہ اُنہیں ایک دن ضرورکامیاب وکامران کرے گی، لیکن حالات و واقعات اور زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں۔ اکتوبر 2011ء میں اچانک مل جانے والی عوامی مقبولیت اور پذیرائی کا گراف رفتہ رفتہ اُن کی ایسی ہی سیاست کی وجہ سے انحطاط پذیری کی جانب مائل ہے اور 2018ء کے الیکشن میں بھی اُن کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے اُن کے چاہنے والے بھی اُن سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔

اُن کے لیے ایک مشکل صورتحال یہ بھی ہے کہ اُن کے مدِ مقابل جو فریق اِس وقت اسلام آباد اور پنجاب میں کارفرما ہے اُس کی کارکردگی اتنی بُری اور مایوس کن بھی نہیں ہے کہ عوام دلبرداشتہ ہو کر خان صاحب سے اُمیدیں وابستہ کر لیں۔ اس کے برعکس2013ء کے انتخابات کے وقت اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کی کارکردگی اتنی ناقص تھی کہ عوام نے اُن سے مایوس ہو کر میاں صاحب ہی کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیا۔ آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔

ملک سے دہشت گردی کا عفریت اپنے انجام کے قریب ہے، کراچی میں بھی کسی حد تک امن قائم ہوا ہے۔ اقتصادی اور معاشی بہتری کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی اور افراطِ زرکو قابو میں رکھا جا رہا ہے۔ پاک چائنا اکنامک کوریڈور کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہے۔ ترقیاتی کاموں کا دور شروع ہے۔

نااُمیدی کے بادل چھٹتے جا رہے ہیں۔ ملک خوشحالی کی جانب گامزن ہے۔ یہ احتجاجی سیاست اور دھاندلی، دھاندلی کا مسلسل شور اُسی وقت مفید اور کارگر ہو سکتا ہے جب عوام معصوم، بھولے اور ناسمجھ ہوں۔ مگر افسوس کہ اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ سیاسی سوجھ بوجھ اورعقل و شعورنے ہمارے لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں لہٰذا اب صرف وہی پارٹی اگلا الیکشن جیت پائے گی جو اپنی قابلیت اور کارکردگی کی بناء پر عوام کو کچھ نہ کچھ ڈلیور کر ے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں