ہوشیار خبردار
پاکستان میں اب تک چار فوجی اور کئی جمہوری حکومتیں قائم ہو چکی ہیں
پاکستان میں اب تک چار فوجی اور کئی جمہوری حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ بھلا بتاؤ کس حکومت نے اپنے ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کو ترجیح دی؟ واقعتاً ایک کے سوا تمام ہی حکومتیں امریکی آشیر باد سے چلتی رہیں اور اپنے ملکی مفاد کے بجائے اسی کے مفاد میں کام کرتی رہیں لیکن اگر وہ ایسا نہ کرتیں تو ان کا چلنا بھی محال تھا۔
تاہم ایک بھٹو بھی تو تھا جس نے ملکی مفاد کے آگے کبھی ذاتی مفاد کو آڑے نہیں آنے دیا۔ جب بھٹو نے ایٹم بم بنانے کا بہ بانگ دہل اعلان کیا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ملک کو بچانے کے لیے ایٹم بم بنا کر رہیں گے اور یہ صرف زبانی بات نہ تھی، باقاعدہ ایٹم بم بنانے کے کام کا آغاز بھی کر دیا گیا۔
امریکی حکومت کو یہ بھلا کیسے گوارا ہو سکتا تھا کہ کوئی اسلامی ملک ایٹمی طاقت بن جائے، چنانچہ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی دی کہ ایٹم بن بنانے کا خیال دل سے نکال دو ورنہ نشان عبرت بنا دیے جاؤ گے، مگر بھٹو کہاں رکنے والا تھا اسے ملک کی بقا اپنی زندگی سے کہیں زیادہ عزیز تھی اور پھر بالآخر اسے اس جرم کی پاداش میں تاریخ کا حصہ بنا دیا گیا، مگر کیا بھٹو مر گیا نہیں وہ زندہ رہا اس لیے کہ اس کا ملک زندہ ہے اور تا قیامت زندہ رہے گا۔ تاہم ملک کے خلاف سازشیں اب بھی ہو رہی ہیں جن کا قلع قمع کرنے میں موجودہ حکومت اور ہماری قابل فخر فوج پیش پیش ہے۔
چند دن قبل ہی صدر اوباما نے ہمیں متنبہ کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری کارکردگی ان کے معیارکے مطابق نہیں ہے یہ تو چند ماہ بعد رخصت ہونے والے امریکی صدر کی جانب سے ہماری قربانیوں کا جواب ہے مگر آگے کیا ہو گا؟ نئے امریکی صدارتی الیکشن کے تو ساری ہی امیدوار پاکستان اور مسلم دشمنی سے لبریز ہیں۔
ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمانوں کے خلاف بیانات تو سب کے ہی سامنے ہیں۔ انھوں نے تو امریکا میں آباد تمام مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا واشگاف اعلان کر رکھا ہے۔ ادھر دیگر امیدوار بھی ایسے ہی نظریات کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ خود ہیلری کلنٹن پاکستان اور مسلم دشمنی کا رجحان رکھتی ہیں۔
ان کے بارے میں وکی لیکس کے بانی جولین اسانچ نے اپنی ویب سائٹ پر انکشاف کیا ہے کہ انھوں نے ہیلری کلنٹن کے بحیثیت امریکی وزیر خارجہ ہزاروں مراسلے پڑھے ہیں جن سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہیلری کلنٹن جنگجو فطرت کی حامل خاتون ہیں وہ اگر امریکا کی صدر منتخب ہو گئیں تو کئی مسلم ممالک تباہ و برباد ہو جائیں گے۔
دنیا میں دہشتگردی کے فروغ، ہزاروں بے گناہ شہریوں کے قتل اور مشرق وسطیٰ میں خواتین کو صدیوں پیچھے دھکیلنے کی ذمے دار صرف اور صرف ہیلری کلنٹن ہیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہیلری کلنٹن بطور امریکی صدر امریکا کو ایک کبھی نہ ختم ہونے والی احمقانہ جنگ میں بھی جھونک سکتی ہیں وہ فیصلہ سازی کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ ان ہی کے غلط فیصلوں کی وجہ سے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو بڑھاوا ملا ہے۔
انھوں نے ہی لیبیا کو عراق بنا دیا ہے پھر انھوں نے بڑی ڈھٹائی سے ہزاروں لوگوں کے سامنے لیبیا کی تباہی کی ذمے داری قبول کی ہے۔ جولین اسانچ کے انکشافات یقینا آنکھیں کھولنے والے ہیں مگر وہ ہیلری کے ہاتھوں شام کی تباہی اور وہاں کے عوام کی بربادی کو بھول گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج مشرق وسطیٰ میں جو تباہی پھیلی ہوئی ہے وہ تمام ہیلری کلنٹن کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے بطور وزیر خارجہ خاص طور پر مسلمان ملکوں کو نشانہ بنا کر سابق امریکی صدور سینئر اور جونیئر بش کی یاد تازہ کر دی تھی۔
افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے بجائے ان کے دور میں اس میں کئی گنا اضافہ ہوا جس کی وجہ ان کی بھارت نواز پالیسی تھی۔ وہ بھارت کو زبردستی افغانستان میں اہم رول دلانے کی خواہاں تھیں۔ جب کہ بھارت افغان جنگ کی آگ کو بجھانے کے بجائے اسے زیادہ سے زیادہ بھڑکانے کا خواہاں ہے کیونکہ وہ افغانستان کو غیر معینہ مدت تک جنگ زدہ رکھ کر پاکستان کے امن کو دائمی طور پر تباہ کرنے کا پلان رکھتا ہے۔
افغانستان کے تعمیر نو پروگراموں میں انھوں نے ہی بھارت کو بڑھ چڑھ کر حصہ دلایا تھا اور یہی نہیں بلکہ ''را'' کے ایجنٹوں کو ان کے ہی دور میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف اپنا نیٹ ورک قائم کرنے کا موقع فراہم ہوا تھا۔ بلوچستان میں دہشت گردی میں اضافہ بھی ان کے ہی دور میں ہوا۔ پاکستانی سرحد کے قریب افغانستان میں ''را'' کو نام نہاد قونصل خانے قائم رکھنے کی اجازت دینا ہیلری کلنٹن کی بھارت نوازی کا کھلا ثبوت ہے۔ ان کی ہی کرم نوازی سے بھارت نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں اپنے دہشت گردوں کے ذریعے دہشت گردی کراتا رہا جب کہ ہیلری کلنٹن الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے کے مصداق برانگیختہ ہو کر پاکستان کو ڈومور کا ڈکٹیشن دیتی رہیں۔
ممبئی حملے کے سلسلے میں بھی ان ہی نے اس وقت کی پاکستانی حکومت کو اس کی ذمے داری قبول کرنے پر مجبور کیا تھا جب کہ اس حملے میں پاکستان کا کوئی کردار نہ تھا۔ اب یہ بات ڈیوڈ ہیڈلے کے امریکی عدالت میں دیے گئے بیانات سے واضح ہو چکی ہے کہ یہ سارا ڈرامہ بھارتی حکومت نے رچایا تھا، اس کے سارے کردار بھارتی تھے، ڈیوڈ ہیڈلے اس سازش میں ایک اجرتی دہشت گردی کے طور پر شریک تھا، ڈیوڈ ہیڈلے کے بھارتی اجرتی دہشت گرد ہونے کا ثبوت اب ان کے امریکی عدالت میں بھارت کے حق میں دیے گئے بیانات سے صاف طور پر کھل کر دنیا کے سامنے آ رہا ہے۔
اس نے مقتولہ عشرت جہاں کو بھی لشکر طیبہ کا رکن بتا کر بی جے پی کے اہم رہنما امت شاہ پر ان کے قتل کے لگے الزام کو بھی زائل کر دیا ہے۔ بے چاری عشرت جہاں ان کے شوہر اور خاندان کے دیگر دو افراد کو 15 جون 2004ء کو گجرات میں دہشت گرد قرار دے کر قتل کر دیا گیا تھا، بھارتی تحقیقاتی ادارہ سی بی آئی نے سپریم کورٹ کے حکم پر اس کیس کی انکوائری کر کے عشرت جہاں اور دیگر مقتولین کو کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے وابستگی کو پروپیگنڈہ اور انھیں جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا قرار دیا تھا۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ڈیوڈ ہیڈلے کے عشرت جہاں کو لشکر طیبہ کا رکن قرار دینے کو مضحکہ خیز قرار دینے کے ساتھ عشرت جہاں کو بہار کی بے قصور بیٹی کہہ کر ان کے خاندان کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب کہ بی جے پی کے رہنماؤں نے نتیش کمار کی طرف سے عشرت جہاں کو بہار کی بیٹی قرار دینے پر سخت تنقید کی ہے۔
ڈیوڈ ہیڈلے سے بھارتی حکومت کے اپنی پسند کے بیانات دلوانے پر سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی سخت نوٹس لیا ہے۔ ادھر بھارت میں عشرت جہاں کے خاندان نے ڈیوڈ ہیڈلے کے بیانات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے اور امت شاہ پر عشرت جہاں کے قتل کا دوبارہ مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے جس پر بی جے پی کے غنڈوں نے انھیں ہراساں کرنا شروع کر دیا ہے ۔ بھارتی فلمی اداکار عامر خان نے درست ہی کہا ہے کہ اب بھارت رہنے کی جگہ نہیں رہا یہاں سے کسی دوسرے ملک میں آباد ہو جانا ہی عقل مندی ہو گی۔
پاکستان میں اگر ہندوؤں یا عیسائیوں کو ذرا سی بھی تکلیف پہنچتی ہے تو عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان کے خلاف واویلا مچانے لگتی ہیں اس وقت امریکا اور برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے ان کے گھروں کو ہی نہیں مساجد کو بھی نذر آتش کیا جا رہا ہے مگر کوئی حقوق انسانی کی تنظیم اس ظلم و بربریت کے خلاف آواز بلند نہیں کر رہی۔ دراصل اب مغربی ممالک میں رواداری اور برداشت کی روایت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
امریکا میں تو وہاں کے سیاست دان تک مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہیں اب اگر امریکی الیکشن میں ٹرمپ یا ہیلری کلنٹن میں سے کوئی بھی فتح حاصل کرتا ہے تو یہ مسلمانوں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہو گا۔
ایسے ماحول میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنے مسلکی اور گروہی اختلافات کو بھلا کر مستقبل کی منصوبہ بندی کریں انھیں اب سوچنا ہو گا کہ جب کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس اور روسی آرتھوڈوکس چرچ کے رہنما کیرل اپنے ایک ہزار سال پرانے مسلکی اختلافات کو بھلا کر ایک ہو سکتے ہیں تو پھر مسلمان ٹکڑوں میں بٹ کر خود کو کیوں دشمنوں کے لیے تر نوالہ بنا رہے ہیں اب شیعہ سنی اختلافات کا وقت نہیں رہا ہمیں صرف اور صرف مسلمان بننا ہو گا اور اسی طرح ہم اب دنیا میں زندہ رہنے اور ترقی کرنے کے مواقعے حاصل کر سکتے ہیں۔