تین ستارے بُجھ گئے

آسمانِ علم و ادب کے یہ تین ستارے ٹوٹ کر فضائے بسیط میں گم ہوئے ہیں تو دل بھی ٹوٹ کر رہ گیا ہے۔


Tanveer Qaisar Shahid February 19, 2016
[email protected]

آسمانِ علم و ادب کے یہ تین ستارے ٹوٹ کر فضائے بسیط میں گم ہوئے ہیں تو دل بھی ٹوٹ کر رہ گیا ہے۔ ہماری روحانی زندگیوں میں لَو دینے والے یہ چراغ بجھے ہیں تو دل کے اندھیرے بھی بڑھ سے گئے ہیں۔ ایک ہی ہفتے کے اندر اندر پاکستان اور بھارت کے ادبی حلقے ویران ہوگئے اور لٹریری بیٹھکوں میں پُھوڑیاں سی بچھ گئی ہیں۔

بھارت میں عظیم شاعر جناب ندا فاضلی اور پاکستان میں بے بدل ادیب و کالم نگار جناب انتظار حسین اور ڈرامہ نگار محترمہ فاطمہ ثریا بجیا کا، آگے پیچھے، رخصت ہوجانا کسی بھی طرح عظیم المیے سے کم نہیں۔ حرف کی دنیا کے یہ معتبر اور مکرم اسمائے گرامی ایسے ایام میں ہم سے جدا ہوئے ہیں جب پاکستان اور بھارت میں ادبی میلوں کی رونقیں پورے عروج پر تھیں۔ بھارت میں مقتدیٰ حسن المعروف ندا فاضلی کو فرشتہ اجل کی طرف سے ندا آئی تو انھوں نے لبیک کہنے میں ایک لمحے کو بھی تاخیر نہ کی۔ وہ شاید اسی آواز پر کان لگائے بیٹھے تھے۔

ندا فاضلی بلند پایہ شاعر ہی نہ تھے، ان کے دم سے بالی وُڈ کی نغماتی دنیا ہی آباد نہ تھی بلکہ وہ ایک مؤثر دانشور بھی تھے۔ ایسے دانشور اور شاعر جو تفرقہ بازی اور سماجی امتیازات کے مخالف رہے۔ جو ہمیشہ دلوں کو جوڑتے اور زخموں کی رفوگری کرتے رہے۔ آپ نے دو درجن سے زائد کتابیں لکھیں۔ بے شمار نثری تخلیقات کے خالق بنے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے پدم شری ایوارڈ حاصل کیا اور ساہتیہ اکیڈمی سے انعام بھی لیکن کبھی فساد پیدا نہ کیا اور نہ ہی مفسدانہ بات زبان سے ادا کی۔

بھارت میں جب تین درجن سے زائد شعرائے کرام اور ادیب حضرات مودی حکومت کے بعض ناپسندیدہ اور ادب مخالف اقدامات کے ردِ عمل میں ادبی ایوارڈز واپس کررہے تھے، مقتدیٰ حسن ندا فاضلی نے اس عمل کا حصہ بننے سے صاف انکار کردیا۔ وہ اپنی نثر اور اپنی نظموں، دوہوں، غزلوں اور گیتوں میں بس ایک ہی پیغام دینے کی کوشش کرتے رہے کہ انسانیت ہر چیز پر مقدم و مکرم ہے۔

سید النسل تھے۔ کشمیر سے اتنی محبت تھی کہ کشمیری علاقے ''فاضل'' کی مناسبت سے ہمیشہ کے لیے ''فاضلی'' بن گئے۔ یہی نام ان کی شناخت اور شہرت بن گیا۔ ''دھرم یُگ'' اور ''بلٹز'' کے معروف کالم نگار رہے لیکن نغمہ نگاری کو زندگی کا عنوان بنائے رکھا۔ اسی میں کمال حاصل کیا۔ وہ شاعری میں مصوری کرتے تھے۔ اب لفظوں کا یہ جادوگر ہم سے جدا ہوچکا ہے۔ ادبی دنیا افسردہ اور دل گیر ہے۔

اس افسردگی کو جناب انتظار حسین کی مرگ نے مزید گھمبیر کردیا ہے۔ انگریزی اور اردو زبان کے یکساں سحر انگیز کالم کار۔ بے مثل ناول نگار۔ منفرد اسلوب کے حامل افسانہ نویس۔ دنیائے تنقید کا بااعتبار نام۔ جنھیں پاکستان اور بھارت میں برابر کی محبت ملتی تھی۔ ان دونوں ہمسایہ ممالک کے ادبی میلوں کی جان۔ بھری ادبی مجالس میں ہمیشہ انتظار حسین کا انتظار کیا جاتا کہ وہ آئیں گے اور دلوں کو گرمائیں گے۔

ایسے خاکہ نگار کہ تحریر بھی رشک کرتی اور وہ بھی جس کی الفاظ میں خاکہ کشی کرتے۔ ایک سماں بندھ جاتا اور گھنٹیاں بجاتے الفاظ کا جھرنا گرنے لگتا۔ ان کے لکھے گئے خاکوں کا مجموعہ ''چراغوں کا دھواں'' اس کی ایک مثال ہے۔ کسی نے مزید لطف اٹھانا ہو تو انگریزی میں لکھے گئے ان کے وہ کالم دوبارہ پڑھے جن میں ممدوح ادبی شخصیات کے بارے میں دریا تو نہیں بہائے بلکہ دریاؤں کو کوزوں میں بند کردیا ہے۔

انھوں نے مغربی ادب کو اپنے اندر جذب تو خوب کیا لیکن اپنے قلم کو مغرب سپردگی کے عالم میں آلودہ نہ ہونے دیا۔ جس تہذیب اور گھرانے کے تربیت یافتہ تھے، وہ انتظار حسین کو بچا لے گئی۔ انھوں نے منٹو، میرا جی اور حسن عسکری کے ادبی محاسن سے جو کچھ کشید کیا تھا، اس جذبِ دروں نے انھیں بھٹکنے نہ دیا اور وہ اپنی نویکلی راہ متعین کرنے میں کامیاب و کامران ٹھہرے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اگر انھوں نے آندرے گائیڈ اور سٹیفن کرین ایسے مغربی ناول نگاروں کی تخلیقات کے تراجم نہ کیے ہوتے تو ان کی تحریر کا حُسن اتنا اُجلا اور نمایاں نہ ہوتا۔ معاشی زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے انتظار حسین کو مسلسل انگریزی اور اردو میں کالم لکھنا پڑتے رہے لیکن حیرت خیز بات یہ ہے کہ یہ صحافتی مشقت ان کی ادبی تحریروں کو منفی انداز میں متاثر نہ کرسکی۔

ہاں یہ ضرور ہوا کہ صحافت کی دنیا سے گہرا تعلق انھیں سیاسی ناول نگاری کی طرف مائل کرنے کا سبب بھی بنا۔ ''آگے سمندر ہے'' اس کی ایک واضح مثال ہے۔ ''نیا گھر'' جنرل ضیاء کے مارشل لائی دَور کا عکسی بیانیہ ہے۔ ان کا ناول ''بستی'' ہمیں 47ء کی ہجرتوں اور 1971ء کے ان افسوسناک ایام کی کہانی سناتا ہے جب حضرت قائداعظم کا عطا کردہ پاکستان دو لخت ہونے جارہا تھا۔ گہری افسردگی لیے ہوئے یہ ناول ہمیں بار بار عبداللہ حسین کے ناول ''اداس نسلیں'' اور ''نادار لوگ'' کی یاد بھی دلاتا چلا جاتا ہے۔

اور کبھی کبھار قرۃ العین حیدر کا ''آگ کا دریا'' بھی اپنی چھب اور جھلک دکھا جاتا ہے۔ ''بستی'' نے تو اتنی شہرت اختیار کی کہ اسے ممتاز فرانسیسی ادیب اور مترجم Frances W. Pritchett نے اسے انگریزی میں ترجمہ کر ڈالا اور یوں ہمارے انتظار حسین کا نام مغرب کی ادبی انگریزی داں دنیا میں بھی گونجنے لگا۔ امریکا کے ممتاز ترین جریدے ''نیویارک ریویو آف بُکس'' نے اپنے ٹائیٹل پر اس کا عکس اور اندرونی صفحات میں طویل ادبی تبصرہ بھی شایع کیا۔

اس تبصرے سے بہت سے مغربی ان سے آشنا ہوئے۔ انھیں فرانسیسی حکومت کیطرف سے بھی ممتاز ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا اور برطانیہ کے مشہورِ عالم لٹریری انعام ''بُکر پرائز'' کی طرف سے بھی ان کا نام شارٹ لِسٹ ہوا۔ وہ پہلے پاکستانی ادیب تھے جو اس فہرست میں شامل کیے گئے۔ یوں ان کا تو مان بڑھا ہی، ہم سب اہلِ پاکستان کا بھی سر فخر سے بلند ہوگیا۔ جناب محمد عمر میمن، جو امریکا میں معروف ادبی جریدے ''جرنل آف ساؤتھ ایشین لٹریچر'' کے مدیر بھی ہیں، نے بھی انتظار حسین کے افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ یوں امریکا کے ادبی حلقوں میں بھی انتظار حسین کی عظمت کا ڈنکا بجنے لگا۔ شاباش دینی چاہیے محمد عمر میمن صاحب کو جنہوں نے انتظار حسین کے مشکل اُتر پردیشی لہجے کو کامیابی سے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔

انتظار حسین صاحب خود بھی اس ترجمے کی خوبصورتی کے معترف تھے۔ ممتاز دانشور، ماہرِ لسانیات اور کئی معرکہ آرا کتابوں کے مصنف جناب خالد احمد نے انتظار حسین صاحب کے اسلوبِ نگارش اور لہجے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار یوں لکھا تھا: ''ان کا لہجہ ڈِبائی (بھارتی صوبے اُتر پردیش میں انتظار حسین صاحب کا آبائی قصبہ) میں گندھا ہوا ہے۔ ان کی مطبوعہ یاد داشتوں میں بار بار کئی الفاظ ایسے ملتے ہیں کہ 47ء کے بعد مرتب کی گئی ہماری لغات میں بھی ان کا وجود نہیں ملتا۔'' جناب انتظار حسین کا اب ہم تا قیامت انتظار کریں گے۔

اور فاطمہ ثریا بجیا کی موت، جو اگرچہ اچانک تھی نہ غیر متوقع، سے تویوں محسوس ہورہا ہے جیسے قدرت نے ہمیں ثریا سے زمین پر دے مارا ہے۔ ایسی مہذب خاتون! ان کی رحلت اور ہمیشہ کی رخصتی نے ڈرامے کی دنیا ویران کر ڈالی ہے۔ اب ایسے ڈرامے کون لکھے گا اور کون فلمائے گا؟ اگرچہ کہنے کو تو ڈرامہ اب بھی لکھا جارہا ہے لیکن یہ تو ڈرامے کے نام پر ڈرامہ کیے جانے کے مترادف ہے۔ وہ شیکسپئر تھیں نہ آغا حشر لیکن لاریب فاطمہ ثریا بجیا نے سنجیدگی اور فہمیدگی سے دنیائے ڈرامہ کو اوجِ ثریا سے ہمکنار ضرور کیا۔ انھوں نے گھُٹن و حبس کو توڑا اور قلب و نظر کو فراخی عطا کی۔ ہمیں ایک نیا رنگ اور آہنگ بخشا۔ یوں کہ ان کا نام ہمارا گھریلو نام بن گیا۔ ہماری خواتین کا پسندیدہ نام۔ ویسے تو حسینہ معین نے بھی مقبولِ عام ڈرامے لکھے ہیں۔

وہ بات مگر کہاں جو فاطمہ ثریا بجیا کے جادو نگار قلم میں تھی۔ خداوندِ قدوس نے ان تینوں (ندا فاضلی، انتظار حسین، فاطمہ ثریا بجیا) کو لمبی عمریں عطا فرمائیں۔ بالترتیب ستتر، بانوے اور پچاسی برس زندہ رہے مگر ان کے چاہنے اور ان کے نام دل میں بسانے والوں کی تو یہ آرزو تھی کہ وہ ہمیشہ آسمانِ ادب پر زندہ و تابندہ رہیں مگر یہ ایسی آرزو ہے جو کبھی پوری نہیں ہوسکتی۔ کبھی نہیں!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں