برکھا دَت امن کا خواب کیسے پورا ہوگا
نیلے ساگر پر اٹھلاتی لہریں بھی دونوں طرف ایک سی ہیں اورکسی آوارہ بھنورے کی طرح اِدھر سے اُدھر منڈلاتی پُروا بھی یکساں
نیلے ساگر پر اٹھلاتی لہریں بھی دونوں طرف ایک سی ہیں اورکسی آوارہ بھنورے کی طرح اِدھر سے اُدھر منڈلاتی پُروا بھی یکساں۔۔۔ دھرتی کا رنگ بھی توکچھ الگ نہیں۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ کبھی آکاش سے برستی برکھا بھی کسی زمینی بندش کو خاطر میں نہیں لائی۔۔۔ ہاں مگر فرق ہے تو سرحد کے دونوں طرف کے رکھوالوں اور رہنے سہنے والوں میں۔۔۔
''کراچی ادبی میلے'' کی ایک خوشگوار ڈھلتی ہوئی دوپہر میں پنج ستارہ ہوٹل کے اس گوشے میں ساگر سے لے کر پُروا اوربرکھا سب تھے۔ ہاں، برکھا یہاں برسات کے بجائے ہمارے سب سے بڑے زمینی ساجھے دار بھارت سے آئی ہوئی مشہور صحافی برکھا دَت تھیں۔ حاضرین کے لیے سیکڑوں نشستوں سے آراستہ اس وسیع وعریض کمرے میں اس سے زیادہ لوگ کھڑے ہوئے تھے، حقیقتاً 'تل دھرنے کو جگہ نہ تھی' توجہ کا مرکز منچ پر براجمان برکھا دت اور میزبان ممتازصحافی غازی صلاح الدین تھے۔
سرحدکے دونوں جانب امن کے خواہش مند افراد کی کمی نہیں۔۔۔ جو برملا یہ کہتے ہیں کہ جنگ اورکشیدگی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ دونوں ممالک کو صلح صفائی کے ساتھ اچھے ہمسائے بن کر اپنے معاملات حل کرنا چاہئیں۔۔۔ دونوں ہی اپنے اپنے حکمرانوں سے یہ مانگ کرتے ہیں کہ امن کی راہ اپنائی جائے، اپنی اپنی سرکاروں پرگرجتے برستے بھی ہیں کہ 'اسلحے کی دوڑ ختم کرو، ہم لڑائی نہیں چاہتے' سیاسی عمائدین سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ دونوں جانب کے عوام کو میل جول بڑھانے کا موقع دیا جائے۔
راقم کا شمار بھی کچھ ایسی سوچ رکھنے والوں میں ہوتا ہے، یہی وجہ تھی کہ ادبی میلے میں بطور خاص اس بیٹھک پر توجہ مرکوز رہی اور یہاں پائیدان تک جمے ہوئے لوگوں میں اپنی جیسی تیسی حاضری کو غنیمت محسوس کیا، مگر امن کے خواہش مندوں کو برکھا دَت کی اس نشست نے بے حد مایوس کیا، یوں محسوس ہوا کہ یہاں کوئی بھارتی قلم کار یا صحافی نہیں، بلکہ بی جے پی سرکار کا کوئی نمایندہ مدعو ہے۔۔۔ انھوں نے برملا اپنی فوج سے محبت کا اظہار کیا۔
تاہم یہ بھی کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پاکستان سے امن نہیں چاہتیں۔۔۔ لیکن افسوس کشمیرکے باب میں پھر وہی بھارتی سرکار کی بولی بولیں اورکشمیریوں پر بھارتی مظالم کو ماننے پر تیار نہ ہوئیں،اس پر طرہ انھیں یہاں منائے گئے، یوم یک جہتی کشمیر پرکافی اعتراضات ہوئے، یہی نہیں انھوں نے بھارتی پارلیمان پر حملے سے لے کر پٹھان کوٹ واقعے تک کا تذکرہ کرنا بھی ضروری جانا، ہمارے دیس کے کچھ افراد کی آزادانہ سرگرمیاں انھیں بہت کھَلیں، ایک طرف انھوں نے بالواسطہ طور پر میزبانوں پر امن کے لیے اپنے دیش کے 'بڑے دل' کو جی کھول کر جتلایا، تو دوسری طرف یہ شکایت بھی کی دونوں ممالک کے چینل پاک وہند کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے اعتدال پسندی نہیں اپناتے اوراس موضوع پر لب کشائی کے لیے کچھ برہم شخصیات کو ہی زحمت دی جاتی ہے، لیکن افسوس یہاں تو خود انھوں نے مہمان بن کر بھی پاک بھارت امن کے لیے تلخ بلکہ خاصا منفی کردار ہی ادا کیا،کیوں کہ جب آپ جیسے لوگ بھی سیاسی بولی بولیں گے، تو امن پسندوں کے لیے اپنے موقف کو منوانا اور بھی مشکل ہو جائے گا اور یوں براہ راست انتہاپسندوں کا موقف مضبوط ہوگا۔
70 برس کی مسلسل تلخیوں کو کم کرنے کے لیے پہلی منزل یہ ہونی چاہیے کہ گڑے مردے نہ اکھاڑے جائیں، الزام تراشی سے حتی الامکان گریز کیا جائے۔ سرحد کے دونوں طرف کے باشعور معتدل افراد کا یہی موقف رہا ہے، تب ہی ان شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور آرٹسٹوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اگر پھول نہیں برسائیں گے، تو کم سے کم آتش دشمنی کو ہوا بھی دینے سے گریز کریں گے، چھ فروری کی اُس سہ پہر ہزاروں لوگ اُن سے محبت اور امن کی باتیں سننے کے لیے ہی جمع ہوئے تھے، سب کے من میں یہ خواہش تھی کہ وہ یہاں سے سب کا پیغام امن سرحد کی دوسری جانب کی جنتا تک لے جائیں، مگر ایسا معلوم ہوا کہ ایک باشعور اور معتدل قلمکار اور صحافی نہیں بلکہ بھارتی حکومت کا موقف ہی پہنچانے یہاں آئی ہیں۔
کاش برکھا دَت یہ جانتیں کہ اس ادبی میلے کے شرکا یہاں کے عام لکھنے پڑھنے والے لوگ ہیں۔ حکومت کے ترجمان ہیں، نہ ہی کسی مقتدر ادارے کے ذمے دار، اس لیے یہاں کے عام آدمی سے ہم کلام ہونے کی کوشش کی جائے، اگر وہ بھارتی سرکار کے الزامات سنانے کے لیے آئی تھیں، تو معذرت کے ساتھ ، ایک طویل فہرست اِس طرف والے بھی لے کر بیٹھ سکتے تھے، لیکن یہ دونوں طرف کی سرکار کی سطح کے معاملات ہیں، آپ کیوں بارود کے ڈھیر پر بیٹھ کر دھرتی کو خون میں نہلانے والوں کے ہاتھ مضبوط کرتی ہیں، اگر آپ اپنی سرکار کے الزامات کی بات کرتی ہیں، تو پھر سمجھوتا ایکسپریس کی دہشت گردی کا جواب کون دے گا۔
آپ کو یوم یکجہتی کشمیر پر احتجاجی مظاہروں اور بینروں کی تحریر پر انتہاپسندی کی بو آتی ہے، لیکن کچھ اپنی طرف کی بھی تو خبر لیجیے، آپ کی بی جے پی سرکار کے دامن پر تو خون کے کتنے دھبے ہیں اور یہ ہم نہیں کہتے، بلکہ مغرب تک میں نریندر مودی کی دہشت گردی کا چرچا ہے۔ آپ کو ہمارے ہاں کے سخت گیر موقف رکھنے والوں پر اعتراض ہیں، لیکن ایسا تو کوئی گروہ ہمارے چناؤ میں عوامی حمایت نہیں لے پاتا، آپ کے ہاں تو مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے وزیر اعظم بن جاتے ہیں اور ہم انھیں امن کی خاطر آپ کا ریاستی نمایندہ بھی قبول کر لیتے ہیں، الزام درالزام کا سلسلہ شروع ہوگا، تو پھر یہ سوال بھی ذہن میں آئے گا کہ ہماری ریاست تو انتہا پسندی کے خلاف نبرد آزما ہے۔ ہندوستان میں اب تک شیوسینا، جنتا دَل اور راشٹریہ سوک سنگھ جیسی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا تصور کیا جا سکتا ہے؟
یقیناً اہل شعورکی محفل میں ایسی باتیں زیبا نہیں، اگر عوامی میل ملاپ کے ذریعے امن کی راہ نکالنی ہے، تو پھر سیاست کا چوغہ اتارنا ہوگا۔ اپنے دماغ کو ان تمام سیاسی تعصبات اور منفی خیالات سے نکالنا ہوگا، تاکہ عوامی سطح پر دل مل سکیں اور دونوں طرف کے لوگ اپنے دل کی باتوں کا تبادلہ کرسکیں۔۔۔ دوسرے ملک کے عوام کے سامنے اپنے ریاستی الزامات کو دُہرانا نہایت ہی افسوس ناک امر ہے۔
اس سے اِس بات کو تقویت ملے گی کہ ہندوستان میں مقبولیت کے لیے یہاں ایسی باتیں کرنا ضروری تھا، اگر واقعتاً ایسا ہے، تب بھی ایک شعور رکھنے والے فرد کو اس منفی فکر کو ختم کرنے کے لیے اپنی ذمے داری کو محسوس کرنا چاہیے۔اگر برکھا دَت کو اپنی سرکار کے ہر حرف پر اتنا پختہ یقین بھی ہے، تب بھی، ادبی میلے کی وہ بیٹھک، ان باتوں کا موقع نہ تھی۔ آپ اپنے پاکستانی سامعین سے کیا چاہتی تھیں؟ وہ آپ کی دشنام طرازیوں کا جواب دیں، یا پھر اپنے الزامات کا پلندہ لے کر ماحول میں تناؤ پیدا کر دیں؟ اگر برصغیر کے صحافی، قلم کار اور باشعور سمجھے جانے والے لوگ بھی اُس روش پر چل نکلیں گے، جس پر انتہا پسند پہلے ہی رواں دواں ہے،تو امن کا خواب کیوں کر پورا ہوگا؟