فائنل اتھارٹیعوام ہیں
اصغر خان کیس کے فیصلے نے اس سچّائی پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے کہ عوام ہی ’’فائنل اتھارٹی‘‘ ہیں۔
لاہور:
ایک امریکی چیف جسٹس رابرٹ جیکسن نے کہا تھا کہ ''ہمیں (یعنی سپریم کورٹ اور اس کے ججوں کو) غلطی سے مبرّا اس لیے تسلیم کیا جاتا ہے چونکہ ہم (آئین و قانون کی تعبیر کے حوالے سے) فائنل اتھارٹی ہیں۔
ہم فائنل اتھارٹی اس لیے نہیں ہیں کہ ہم غلطی سے مبّرا ہیں۔'' آپ سابق امریکی چیف جسٹس کے مذکورہ ریمارکس کے تناظر میں پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہر مرحلے پر یہ حقیقت طشتِ از بام نظر آتی ہے کہ عسکری قیادت نے، جس کے بارے میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ فوج کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، جمہوری حکومتوں کی بساط لپیٹ کر برسرِ اقتدار آنے کا جواز دیتے ہوئے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا کہ سیاست، بحالی جمہوریت، احتسابی عمل، سیاست دانوں کے کردار کا تعیّن اور دیگر تمام قومی معاملات کے حوالے سے حتمی فیصلے کرنے میں وہی ''فائنل اتھارٹی'' ہیں۔
مرحوم جنرل ایوب خان نے جب اقتدار ہاتھ میں لیا تو نامور سیاست دانوں کو احتساب کے نام پر بنائے گئے ایبڈو قانون کے ذریعے میدانِ سیاست سے بے دخل کر دیا۔ خود کو فائنل اتھارٹی تسلیم کرانے کے لیے انھوں نے بنیادی جمہوریت کے نام سے ایک نیا سیاسی و آئینی نظام تشکیل دیا لیکن جب ایوب خان کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو ساتھ ہی ان کے بنائے پورے نظام کا ڈھانچہ زمیں بوس ہو گیا۔ جنرل ایوب کے جانشین جنرل یحییٰ خان نے عنانِ حکومت سنبھالی تو وہ بھی ملک کو ایک نیا آئینی نظام دینے کے لیے کوشاں رہے لیکن ان کی پے درپے غلطیوں کے باعث وطنِ عزیز کو سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ برداشت کرنا پڑا۔
باقی ماندہ پاکستان پر جب ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار ملا تو انھوں نے ملک کے عوام میں سقوطِ بنگال سے پھیلی ہوئی مایوسی سے طاقت کو کشید کیا اور لوگوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کر دیا، غریب اور عام آدمی کو شعور اور اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی امنگ پیدا کی، ملک کی ترقی، خوش حالی اور عالمی برادری میں اسے ایک با وقار مقام دلانے اور پاکستان کو عالمِ اسلام کا ایک ناقابلِ تسخیر قلعہ بنانے کے لیے رات دن محنت کی، لیکن 1977 کے عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر پس پردہ قوتوں نے اپنا گیم کھیلا۔ جنرل ضیاء الحق نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر بھٹو کو پسِ زنداں اور پھر تختہ دار تک پہنچا دیا۔
بھٹو اور پی پی پی کے خلاف جنرل ضیاء نے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے کہ کسی طرح پاکستان کے عوام کے دلوں سے بھٹو اور پی پی پی کی محبت کو نفرت میں بدل دیا جائے۔ جنرل ضیاء کامیاب نہ ہوئے اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔ نئے انتخابات ہوئے اور بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو اقتدار میں آ گئیں۔ محض دو سال بعد ہی خود کو ''فائنل اتھارٹی'' سمجھنے والی قوتوں نے نیا سیاسی کھیل شروع کر دیا۔ 1990 کے انتخابات میں پی پی پی کو شکست دینے اور اقتدار کے ایوان سے باہر رکھنے کے لیے کروڑوں غریب عوام کے پیسوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اس کھیل کے تمام پس پردہ کرداروں کے چہروں سے عدالتِ عظمیٰ نے اصغر خان کیس میں نقابیں الٹ دی ہیں۔ ''فائنل اتھارٹی'' کی حقیقت بھی عیاں کر دی اور اس کے آئینی کردار کا تعیّن بھی واضح کر دیا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا ہے کہ ''قانون کے مطابق آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس پاکستان کی سرحدوں کے تحفظ اور وفاقی حکومت کو شہری معاملات میں مانگنے پر معاونت فراہم کرنے کی مجاز ہیں، لیکن اِن اداروں کا سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی توڑ جوڑ اور سیاسی حکومتوں کے قیام میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی وہ کسی سیاسی پارٹی یا سیاسی گروہ یا انفرادی سیاست داں کی ایسی طرف داری یا معاونت کے مجاز ہیں جس کے بل بوتے پر وہ کامیابی حاصل کر سکے۔'' عدالت نے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان مرحوم، آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درّانی کے ''سیاسی کردار'' کے حوالے سے اپنے فیصلے میں بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ''مذکورہ افراد نے 1990 کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں یا سیاسی گروہوں وغیرہ کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتخابات میں کامیابی دلانے کی خاطر معاونت فراہم کی جس کے لیے انھوں نے یونس حبیب سے سرمایہ حاصل کیا۔
ان کے یہ افعال آئین کی واضح خلاف ورزی ہیں۔ ان کا یہ فعل پاکستان، پاکستان کی مسلح افواج اور خفیہ اداروں کے لیے بدنامی کا باعث ہے، لہٰذا باوجود یہ کہ ان میں سے بعض افراد اب ملازمت سے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں، وفاقی حکومت کو ان کے خلاف قانون اور آئین کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے۔'' پیسے لینے والے عناصر کے حوالے سے بھی عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ''اس طرح ان سیاسی رہنمائوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہونی چاہیے، جنھوں نے 1990 کے عام انتخابات میں انتخابی تحریک چلانے کے لیے امداد وصول کی لہٰذا ایف آئی اے کی جانب سے ان تمام افراد کے خلاف فوج داری سطح پر شفاف تفتیش ہونی چاہیے اور اگر خاطر خواہ شواہد مہیا ہوں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق مقدمہ بھی چلایا جائے۔''
عدالتی فیصلے پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ نے سچ اگل دیا، فیصلہ جمہوریت اور پی پی پی کی فتح ہے، پیسے لینے والے قوم سے معافی مانگیں، انھوں نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کریں گے۔ ایف آئی اے سے تحقیقات کرائی جائے گی، لیکن (ن) لیگ کے چوہدری نثار علی خان ایف آئی اے سے تحقیقات پر سراپا احتجاج ہیں۔ ہر چند کہ (ن) لیگ کے رہنما رقم لینے سے انکاری ہیں لیکن یونس حبیب تو برملا کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ہاتھ سے پیسے دیے تھے۔ کون سچّا ہے اور کون جھوٹا، اس کا فیصلہ تو تفتیش کے بعد ہی سامنے آئے گا، تاہم چوہدری نثار کا واویلا ''خواہ مخواہ شور'' والا نظر آتا ہے، حالانکہ وہ پی پی پی پر الزامات لگاتے رہے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلوں کو من و عن تسلیم نہیں کرتی جو توہین عدالت ہے۔
کیا اب چوہدری صاحب ایف آئی اے سے تحقیقات کے عدالتی حکم کو تسلیم نہ کر کے بادی النظر میں توہینِ عدالت کے مرتکب نہیں ہو رہے ہیں؟ بہرحال میاں نواز شریف نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں ایف آئی اے سے تحقیقات پر آمادگی ظاہر کر کے مثبت طرز عمل کا اظہار کیا ہے، وقت آنے پر ساری حقیقت عیاں ہو جائے گی، تاہم اصغر خان کیس کے فیصلے نے اس سچّائی پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے کہ عوام ہی وہ قوت ہیں جنھیں اپنے ووٹوں سے کسی بھی سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے اور حکومت سے بے دخل کرنے کا حق و اختیار حاصل ہے اور وہی ''فائنل اتھارٹی'' ہیں۔