ترقی ایسے نہیں ایسے ہوتی ہے

فیس کی عدم ادائیگی پر امتحان نہ دینے کی اجازت کے سبب ایک طالب علم کی موت کسی ریاست کا ضمیر جھنجھوڑنے کیلئے کافی نہیں؟


محمد نعیم February 19, 2016
صرف بجٹ میں اربوں روپے مختص کردینے سے ہم ملکی تعلیمی نظام کو نہیں بدل سکتے۔ یہ نظام تب بدلے گا جب اس کے لئے حکومتی مشینری اپنی دلچسپی اور وسائل فراہم کرے گی۔

بس ایک خبر نے شعبہ تعلیم کو اہمیت دینے کے بلند و بانگ حکومتی دعوؤں کو ریت کی دیوار ثابت کردیا ہے۔ اگر اس کھوج میں لگ جائیں کہ صحت و تعلیم کے لئے منظور ہونے والے اربوں روپے اور پھر اس مد میں ملنے والی بیرونی امداد کے کروڑوں ڈالر کہاں استعمال ہوتے ہیں تو نتائج ہوش ربا ہوں گے۔

اتنا تو پاکستان کے ہر شہری کو معلوم ہے کہ عوام کی بہتری و فلاح و بہود کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ یہ اعداد و شمار کا کھیل تو بس بجٹ کی کرشمہ سازی کے لئے ہوتا ہے۔ خبر یہ ہے کہ ہر طرح سے پسماندگی و محرومی کا شکار پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی ایک طالبہ نے اپنے تعلیمی عمل رکنے کے دکھ میں خودکشی کرلی۔ یہ سانحہ قلعہ سیف اللہ میں پیش آیا جہاں مسلم باغ کی رہائشی سیکنڈ ائیر کی طالبہ ثاقبہ حکیم نے کالج پرنسپل کی جانب سے امتحانی فارم نہ بھیجنے پر اپنی زندگی کا چراغ گل کرلیا۔ ساتھ پرنسپل کے نام خط بھی لکھ دیا کہ اب آپ خوش ہوجائیں۔

ابھی بلوچستان کے حوالے سے ایک رپورٹ نظروں سے گزری۔ یہ 15-2014 کے بجٹ کے حوالے سے رپورٹ تھی۔ اس میں کسی نے شاید یہ غلطی سے لکھ دیا تھا کہ اس بجٹ میں 5 ارب روپے کی خطیر رقم صرف بلوچستان کے سالانہ 5000 طلبہ و طالبات کو ملکی و غیر ملکی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانے کے لئے مختص کردی گئی ہے۔

سوال تو یہ ہے کہ اب اگر حکومتِ بلوچستان کے پاس صرف اس مد میں اربوں روپے ہوتے تو بھلا اس کے تعلیمی اداروں کی یہ حالت کیوں ہوتی؟ یا پھر ہم یہ سمجھیں کہ محکمہ تعلیم کو پیسے ملے ہی نہیں ہوں گے، یا پھر کھا گیا ہوگا کوئی اور پتہ بھی نہیں چلنے دیا ہوگا۔ مسئلہ فیس کی عدم ادائیگی بنا یا ذاتی رنجش کے باعث طالبہ کو یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جس ملک میں ہر 10 میں سے 4 بچے اسکول نہیں جاتے اور جہاں بچیوں کی شرح خواندگی 46 فیصد ہے وہاں اگر کوئی پڑھنا چاہ بھی رہا ہے تو اس کے لئے ایسے حالات کیوں پیدا کئے جا رہے ہیں کہ وہ پڑھنے کے بجائے خود کشی پر مجبور ہوجائے۔ کسی کو اس انجام تک پہنچانے والے کب اپنے انجام کو پہنچیں گے؟ کیا اس واقعہ کے اصل محرکات تک قانون کے ہاتھ پہنچیں گے؟ کیا ایک طالب علم کی موت کسی ریاست کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لئے کافی نہیں؟

نجی تعلیمی اداروں کے نام پر عوام سے لوٹ مار اور دوسری جانب سرکاری تعلیمی اداروں کی بدحالی۔ اس تناظر میں ملک کیا خاک ترقی کرے گا۔ صرف بجٹ میں اربوں روپے مختص کردینے سے ہم ملکی تعلیمی نظام کو نہیں بدل سکتے۔ یہ نظام تب بدلے گا جب اس کے لئے حکومتی مشینری اپنی دلچسپی اور وسائل فراہم کرے گی۔

آخر میں بلوچستان کے نوابوں اور تخت لاہور کے بے تاج بادشاہوں کے لئے ایک بار وہ مثال دوبارہ یہاں پیش کر رہا ہوں، جو بار بار پہلے ہی پیش کی جاچکی ہے۔ یہ مثال پیش کرنے کا مطلب ہرگز نہیں کہ ثاقبہ حکیم یا اس جیسے کسی اور پاکستانی بچے کے لئے کوئی حکمران ایسا کچھ کرنے کی غلطی کر بیٹھے۔ یہ مثال تو بس عظیم کو لوگوں ایک بار پھر سلام پیش کرنے کے لئے یہاں دہرائی جا رہی ہے۔

جاپان کی ہوکائدو ریلوے کمپنی نے تین برس پہلے کامی تیراکی ریلوے سٹیشن کے لیے اپنی سروس غیر منافع بخش ہونے کی بناء پر بند کرنے کا فیصلہ کیا، مگر جب وہاں کی ریاست کو علم ہوا کہ ٹرین بند ہوجانے کے سبب ایک گاوں کی بچی تعلیم سے محروم ہوگئ ہے تو فوری طور پر یہ فیصلہ ملتوی کرکے ٹرین کو صرف ایک بچی کے لیے دوبارہ شروع کردیا گیا۔ اب ایک ٹرین صبح 7 بج کر 5 منٹ پر صرف اس کم سن مسافر کے لئے آتی ہے اور پھر شام 5 بجے اسے واپس لاتی ہے۔ اس بچی کا تعلیمی سال مارچ میں مکمل ہوجائے گا اور 26 مارچ کے بعد کامی تیراکی ریلوے اسٹیشن کے لئے ہوکائدو ریلوے کی ٹرین سروس بھی بند ہوجائے گی۔

جناب نواز شریف صاحب، محترم ثناء اللہ زہری صاحب اور قابل قدر وزیر تعلیم بلوچستان رحیم زیارت وال صاحب محرومیاں دور کرنے، اپنی ترقی اور نئی نسلوں کی کامیابی کے لئے دنیا ایسے جتن بھی کرتی ہے۔ محض نوٹس لینے اور انکوائری رپورٹ طلب کرنے کے احکامات سے نہ کہیں انصاف عام ہوسکتا ہے نہ تعلیم۔

[poll id="965"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں