ہیریسچ کہہ رہاتھا
ہمارے نظام اور سوسائٹی سے متعدد مثالیں پیش کیں جواس کے نقطہ نظر کے مطابق درست تھیں۔
پینسٹھ سالہ ہیری نیویارک کی ایک لائبریری میں کام کرتا ہے۔ پوری زندگی امریکا کی مختلف درسگاہوں میں لائبریریوں کوبہتربنانے میں گزاری ہے۔ چندبرس پہلے نیویارک کی ایک تقریب میں ہیری سے اچانک ملاقات ہوئی۔ مجلس جنوبی ایشیاء کے متعلق منعقدکی گئی۔ ہیری کی پاکستان اور اس کے حالات پر گہری نظرتھی۔
ہیری بنیادی طور پریہ بیان کررہاتھاکہ پاکستان ایک ایسالاجواب ملک ہے جودس سے پچیس سال میں جنوبی ایشاکاسب سے ترقی یافتہ ملک بننے کی استطاعت رکھتاہے مگر مسلسل تنزلی کاشکار ہے۔ وجوہات میں ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کے لوگ تضاد اور انتشار کاشکار ہیں۔ دائروں میں زندگی گزارتے ہیں اوراس طرح ملک بھی آگے بڑھنے کے بجائے گول دائروں میں سفر کر رہا ہے۔ پاکستان میں قدرت کے اصولوں کے انکار کی طویل تاریخ ہے۔
سوال وجواب میں ہیری سے ڈیڑھ گھنٹے کی طویل نشست جاری رہی۔ہمارے نظام اور سوسائٹی سے متعدد مثالیں پیش کیں جواس کے نقطہ نظر کے مطابق درست تھیں۔ کئی مثالیں ایسی بھی تھیں جن سے اختلاف کیا جا سکتا تھا اور ہوابھی۔مگرا سکی اکثر باتیں بہت فکر انگیز تھیں۔اس کا ایک فقرہ کہ ہم ہراصول اور حقیقت کو متنازع بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورہم ہرموڑ پر غیر عقلی طریقہ سے حالات کودیکھتے ہیں، آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے۔
ہیری کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیکیورٹی نہیں،برآمدات اوردرآمدات کے مابین فرق کا بڑھنا نہیں بلکہ آبادی کا سیلاب ہے جو ترقی کے امکانات کو منہدم کر دیتا ہے۔اس کے بقول دہشت گردی اور آبادی کے بے ہنگم طریقے سے بڑھنے میں ایک کلیدی تعلق ہے۔ہیری کا دوسر انقطہ تھاکہ ملک نے قدرت کے کسی تحفہ کی حفاظت نہیں کی۔ اس نے تفصیل سے بتایاکہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں ہے جہاں قدرتی ذرایع کواس بے دردی سے پامال کیاجارہاہے کہ وہ تقریباًختم ہوچکے ہیں۔
اس کے بقول اگرکسی ملک میں درخت،جنگل،گلیشئراورپانی کابے دریغ استعمال کیا جائے گا تو قدرت خطہ سے صحت اورطویل زندگی کے تحفے واپس لے لیتی ہے۔مذاق کابھیانک جواب "آلودگی"کی صورت میں دیا جاتاہے جو ہمارے ملک کے ہرگاؤں،قصبے اورشہرمیں بدرجہ اتم موجودہے۔ اس نے ایک عجیب بات کی کہ اس ملک میں اکثرمسلمان اپنے دین کے عملی پہلوکولاگوکرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔اس کے نزدیک اسلام دنیاکا سب سے انقلابی اورعملی دین ہے مگر اس کے عملی پہلو کو خطرناک حد تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ دیانت داری، صفائی حسن سلوک،انصاف وہ آفاقی اصول ہیں جو آہستہ آہستہ ناپیدہوتے جارہے ہیں۔
تھوڑا ساغورفرمائیے۔ہم لوگ ہراَمراورواقعہ کومتنازعہ بناچکے ہیں۔ ہرچیزکوایک ایسی عینک سے دیکھتے ہیں جس میں منفی ، غیریقینی اور سازش کے عدسے لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان وجود میں آنے سے لے کر صورتحال کاجائزہ لیجیے، آپ حیران رہ جائیںگے کہ حقیقت میں ہم دلیل اور غیرجذباتی طریقے سے کسی چیزکونہیں پرکھتے۔
ہمارے ملک میں آہستہ آہستہ ایک فروعی بحث کوترویج دی گئی کہ کیا ملک اسلام کے نام پروجودمیں آیا تھا یا مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کاضامن بننا چاہتا تھا۔ بحث آج بھی جاری ہے۔دونوں اطراف سے دلیل اور جذبات کا طوفان برپاکیاجاتاہے کہ لوگوں کے ذہن مقید ہوچکے ہیں۔ میرے نزدیک بحث کافی حدتک علمی نوعیت کی ہے کیونکہ ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ یقینی طور پر مسلمانوں کی حالت بہتربناناتھا۔کیا ممکن نہیں کہ دونوں گروہ تصویر کاایک مخصوص رُخ دیکھ رہے ہوں۔کیادونوں درست نہیں ہوسکتے! کیا یہ بحث ختم نہیں ہوسکتی۔ کیا علماء، تاریخ دانوں، سیاستدانوں اوردانشوروں کاایک ایسافورم نہیں ہونا چاہیے جو اس طرح کی طویل بحثوں کوحل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مگر نہیں، ہم اس عجیب سی بحث کو ہمیشہ جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چند لوگ قائداعظم کو مذہب سے لاتعلق بتاتے ہیں۔کئی لوگ ان کو ہرقیمت پر ''مولانا'' ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔کوئی یہ نہیں کہتا کہ صاحبان، وہ ایک عظیم اورعملی سیاستدان تھے۔اصل حیثیت ان کے افکار اور اصولوں کی تھی،نہ کہ ا ن کی ذات سے وابستہ بشری تقاضوں کی۔مگر نہیں، کوئی بھی بھول کراس عظیم شخص کی باتوں کوعملی حیثیت دینے کے لیے تیارنہیں۔ میراسوال ہے کہ کیا دونوں نقطہ نظر درست نہیں ہوسکتے۔کیا یہ بحث واقعی اہم ہے؟
1965 کی جنگ کی طرف آئیے۔ ہرجگہ پڑھایا یا بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان نے رات کی تاریکی میں مغربی پاکستان پرحملہ کردیا تھااورہماری بہادرافواج نے پیش قدمی روک کر شجاعت کی بے مثال تاریخ رقم کی تھی۔ یہ بالکل سچ ہے مگر یہ صرف آدھاسچ ہے۔کوئی بات نہیں کرتاکہ اس وقت کے مقتدرسیاسی لوگوں نے''آپریشن جبرالٹر''کا آغاز کیا تھا۔
ایوب خان کویقین دلادیاگیا تھاکہ ہندوستان کسی صورت میں بین الاقوامی سرحدکوعبور نہیں کرسکتا۔سچ تمام علمی اوراہم طبقے کو معلوم ہے۔کشمیرمیں اس آپریشن کے شروع کرنے کے بعد جنگ ناگریزتھی مگراس سچ پر کبھی بات نہیں ہوتی۔اس جنگ کا ایک اورپہلوبھی تھا۔ مغربی پاکستان کے دفاع کوپاکستان کا دفاع قرار دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کوخاصی حدتک بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔کیا پاکستان کے مشرقی حصے میں رہنے والوں کی بے بسی کااندازہ لگاسکتے ہیں۔جنھیں معلوم ہوا کہ ملک میں جنگ ہورہی ہے،مگران کے دفاع کاکوئی انتظام نہیں ہے۔
کیا یہ مغربی حصہ سے نفرت اورلاتعلقی کی ایک وجہ نہیں تھی۔ مگر ہم خاموش ہیںکیونکہ سچ انتہائی تلخ ہے۔ ہاں۔ کیا یہ بھی درست نہیںکہ1970ء میں اکثریت نے اقلیت کو چھوڑا تھا۔وہ کیا وجوہات تھیں کہ اس ملک کی اکثریت نے یہ فیصلہ کر لیا تھاکہ وہ مغربی اقلیت کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ہم اپنی کوتاہیاں ماننے کے بجائے چھپانے کے ماہر ہیں۔
میں ایک بات کرنا بھول گیا۔علامہ اقبال ایک عظیم فلسفی اوربے مثال شاعرتھے اورہیں۔ ان کے خطبات کا مجموعہ، فلسفہ کا وہ سبق ہے جسے پڑھنااورسمجھنابہت ضروری ہے۔ مگر نہیں،ہم نے اس عظیم شخص کوبھی نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ یہاں تک گرد اڑائی جاتی ہے کہ فکر اقبال کاہمارے ملک سے بہت کم تعلق ہے۔انھوں نے کبھی پاکستان کالفظ استعمال تک نہیں کیا۔یہ درست ہے کہ انھوں نے"پاکستان"کالفظ استعمال نہیں کیا۔مگرکیااس بات سے انکار کیاجاسکتاہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خطے کے متعلق پرجوش تھے اور ان کے متعلق انھوں نے ہرتعصب سے بالاترہوکردلیل پر بات کی تھی۔مگرنہیں،چندلوگ آج بھی صرف ان کی شخصیت پر بات کرتے ہیں۔ان کے افکار اور نظریات کے عملی پہلو کو کوئی خاطرمیں نہیں لاتا۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔سیاسی موشگافیوں کو چھوڑ دیجیے۔ہیری کے آبادی والے نکتے پرآجائیے۔اپنے خطہ میں ہماری آبادی کابڑھتا ہوا تناسب تمام ممالک سے زیادہ ہے۔کسی کے پاس کوئی مستند اعدا دو شمارنہیں۔کوئی کہتاہے کہ ہم 1.6فیصدکے مطابق بڑھ رہے ہیں۔کوئی دوفیصد لکھتا ہے اور کوئی دو فیصدسے زیادہ ۔ ہمیں قطعاًاندازہ نہیں کہ ملک کی اصل آبادی کس شرح سے نمو پارہی ہے۔ ہمیں اپنی ملک کی اصل آبادی کا بھی پتہ نہیں۔دنیاکے کسی معاشی نکتہ دان سے پوچھ لیجیے ،کیا اتنی بڑی آبادی اوراس بڑھتے ہوئے تناسب کے ساتھ کسی قسم کی معاشی،معاشرتی یاسماجی ترقی ممکن ہے۔
جواب نفی میں ہوگا۔آپ سارادن بڑے بڑے لیڈر حضرات کے پرمغزبیانات سنتے اورپڑھتے ہیں۔کسی نے دلیل سے یہ بات قوم کے سامنے رکھی ہے کہ جناب، اس آبادی کے سیلاب کے سامنے ترقی کابند نہیں باندھا جاسکتا۔ کوئی بامعنی ترقی نہیں ہوسکتی۔یہ آبادی ترقی کے تمام امکانات کوبربادکرچکی ہے۔ کوئی کہتاہے کہ مذہبی حلقے ناراض ہوجائیں گے۔ تمام مسلمان ممالک اپنے اپنے دینی علماء کے ساتھ ملکرانتہائی مہارت سے آبادی پرکنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
بنگلہ دیش اور ملائیشیا اس کی کامیاب مثالیں ہیں۔ ہمارے مذہبی حلقہ دلیل پر بات سننے کے لیے تیارہوسکتے ہیں۔ مگرکیا آج تک کسی لیڈر نے اس دینی حلقے سے آبادی پر بات کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ چند بے روح اجتماعات اورسطحی باتوں سے بات آج تک آگے نہیں بڑھ سکی۔ قدرت کی نوازشات کی پامالی پر غور فرمائیے۔ہمارے جنگلات سکڑ چکے ہیں۔دریاؤں میں پانی کم ہوچکا ہے۔آلودگی سے فضا اور دریااَٹے ہوئے ہیں۔ دنیا ہمیں تنبیہ کررہی ہے کہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
مگرکیا پودے لگانے کی ہنگامی بنیادوں پرکوئی کوشش نظرآتی ہے۔کیادریاؤں کی صفائی کاکوئی عملی خیال آپکی نظرسے گزرا ہے؟کیاآلودگی کی بارش جو اصل میں موت کی بارش ہے، اس کے متعلق ہم سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔اختلاف دراختلاف،الزام درالزام کی اس زہریلی بارش اوربوچھاڑمیں ہم تیزی سے بھیگ رہے ہیں۔ ہمارا وجودسُن ہوچکا ہے۔ مگر کئی دنوں سے ہیری کی باتیں ذہن میں گونج رہی ہیں کہ ہم دائروں میں سفرکرنے والے مسافر ہیں۔ ہم متنازع باتوں کے چشمہ میں غوطے لگا لگاکر ہرمشکل کوسازش کی بنیادپرپرکھتے ہیں۔ حل کرنا توبہت دورکی بات ہے۔ مجھے ہیری کی کئی باتیں اب سچ معلوم ہوتی ہیں!