ایک آل پارٹیزکانفرنس خواتین وبچوں کے لیے بھی
3 نومبر 2015 کو سونیا بی بی مرگئی۔ مرتے وقت اس کی عمر 20 سال تھی
3 نومبر 2015 کو سونیا بی بی مرگئی۔ مرتے وقت اس کی عمر 20 سال تھی۔پچھلے ہی مہینے سونیا کو جھلسی ہوئی حالت میں اسپتال لایا گیا تھا، جب لطیف احمد نامی ایک شخص نے رشتے سے انکار پر اسے زندہ جلادیا تھا۔ ہ
وسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو ایسی خبریں ابھی بھی دکھی کرجاتی ہوں مگر ہمارے ہاں یہ ایک عام سی بات ہے عورتوں کو زندہ جلا دینا وغیرہ۔ اور جیسے کہ ان پر تیزاب پھینکنا۔ مثلاً 5 دسمبر 2014 کو مظفرگڑھ کے علاقے قریشی چوک میں جمعے کے مبارک دن پانچ بچوں کی ایک ماں کو ایک مقامی وڈیرے گھرانے سے تعلق رکھنے والے پانچ ''مردوں'' نے تیزاب پھینک کر جھلسا دیا۔ غریب کھیت مزدور عورت نے ناجائز تعلقات قائم کرنے سے انکارکرکے ان ''مردوں'' کی غیرت کو للکارا تھا چنانچہ انھوں نے اپنی اس کھلی بے عزتی کا بدلہ لے لیا۔
مظفرگڑھ پنجاب کے ان چار اضلاع میں شامل ہے، جہاں تیزاب پھینکنے کے جرائم سب سے زیادہ کیے جاتے ہیں۔ حالیہ سالوں میں تیزاب پھینکنے کے جرم کے خلاف قانون سخت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، مثلاً سیکشن 335-A کے ذریعے اسے ناقابل ضمانت سنگین جرم کی حیثیت دی گئی تاہم تیزاب پھینکنے کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آتا ہے اور صرف تیزاب پھینکنا اور زندہ جلانا ہی کیا۔عورتوں سے زیادتی کے جرائم بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
عورتوں کے لیے ایک مثالی غیر محفوظ معاشرہ بناکر ہی ہم اس قابل ہوئے کہ 2014 میں ورلڈ اکنامک فورم (WEF) کی Annual Global Gender Gap Report کے مطابق دنیا بھر میں Gender Equality یعنی صنفی مساوات کے لحاظ سے دوسرے بدترین ملک کے یکتا درجے پر فائز ہوسکے۔
اور صرف خواتین ہی کیا بچوں کے خلاف جرائم بھی مسلسل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ ذرا ذرا سی بچیوں کی پامال لاشیں پانی کے ٹینکوں اورکوڑے کے ڈھیروں پہ پڑی ملتی ہیں اور زیادتی کے بعد قتل کی گئی، ان بچیوں کے قاتلوں کو پولیس مبینہ طور پر تحفظ دینے میں سرگرداں پائی جاتی ہے۔ خواتین اور بچوں سے زیادتی کرنیوالوں انھیں جلانے اور تیزاب میں نہلانے والوں اور قاتلوں اور ان کے عموماً بااثر خاندانوں کواکثر پولیس کی گرم جوش حمایت حاصل ہوتی ہے کہ وہ ان خواتین و بچوں اور ان کے گھر والوں کو خوفزدہ کرکے اس قانونی کارروائی سے بچ سکیں جو ویسے ہی انتہائی سست، کمزوراورجرائم دوست ہوتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم ایک غیر معمولی وبائی صورت اختیارکرتے جارہے ہیں۔اس غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمیں غیر معمولی ہی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ خوش قسمتی سے خدا نے ہمیں دوسری ان گنت نعمتوں کے ساتھ ساتھ انتہائی نیک، انسان دوست اورہمدرد حکمرانوں، سیاستدانوں اور مذہبی سیاستدانوں کی انمول دولت سے مالا مال کیا ہے، چنانچہ ہم ان تمام اقسام کے جملہ سیاستدانوں سے درخواست کرسکتے ہیں کہ وہ خواتین اور بچوں کے خلاف پھلتے پھولتے جرائم کے یقینی سدباب کے لیے ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقادکریں۔
مجوزہ APC میں خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم سے موثرطور پر نمٹنے کے لیے اس پراسس کے تینوں مرحلوں یعنی پولیس کارروائی، مقدمے کی کارروائی اور سزاؤں کے بنیادی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کے آئیڈیاز پر اتفاق کرکے انھیں قانون ساز اسمبلیوں سے فوری طور پر منظور کراکے عمل درآمدکرانا چاہیے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان تینوں مراحل پر مبنی ہمارا نظام عورتوں اور بچوں کے خلاف جرائم کرنے والوں اور ان کے مددگاروں کے لیے انتہائی خوفزدہ کردینے والا ہونا چاہیے۔ پہلے مرحلے یعنی پولیس کارروائی کے لیے کچھ نئے آئیڈیاز ایسے ہوسکتے ہیں۔
(1)۔عورتوں اور بچوں سے گھناؤنے جرائم، قتل کرنے، کاری کرنے، زیادتی کرنے،آگ لگانے اور تیزاب پھینکنے کے مرتکب افراد اگر دس دن کے اندر گرفتار نہ کیے جاسکیں تو متعلقہ پولیس افسر کا رزق حرام کے لیے انتہائی غیر پرکشش اور بے رونق علاقے کو تبادلہ۔ (2)۔بے گناہ افراد کو پکڑنے یا متاثرہ خواتین و بچوں یا ان کے لواحقین پر مجرموں کی مدد کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے پر متعلقہ پولیس عملے کی نوکری سے فوری و مستقل برطرفی۔ معطلی کا روایتی ڈرامہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے علاوہ کچھ نہیں۔(3)۔مجرموں کے خلاف کمزور مقدمہ بنانے کی رپورٹس کی صورت میں کیس کی فوری طور پر FIA کو منتقلی جسے متعلقہ تھانے کے خلاف تفتیش اور قانونی کارروائی کا بھی پورا اختیار ہو۔ (4)۔متاثرہ خواتین اور بچوں، ان کے گھر والوں اور گواہوں کے لیے مجرموں کو سزا ملنے تک 24 گھنٹے پولیس کا تحفظ جس میں ناکامی کی صورت میں متعلقہ تھانے کے متعلقہ عملے کی نوکری سے فوری و مستقل برطرفی۔
مقدمے کے مراحل کے لیے مندرجہ ذیل آئیڈیاز لازمی نظر آتے ہیں۔ (1)۔عورتوں اور بچوں کے خلاف گھناؤنے جرائم کے مقدمات کے لیے اسپیڈی ٹرائل کورٹس کا قیام جہاں تیس دن کے اندر اندر مقدمے کا فیصلہ لازمی ہو۔ (2)۔ان کورٹس کے فیصلے کے خلاف متعلقہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں صرف ایک ایک اپیل کا حق ہو جس کا فیصلہ دس دن کے اندر ہونا لازمی ہو۔
(3)۔عورتوں اور بچوں کے قتل کے مقدمات میں دیت کا قانون اس وقت تک معطل کردیا جائے جب تک ملک میں ایک حقیقی اسلامی فلاحی معاشرہ قائم نہیں ہوجاتا جہاں قانون ہر ایک کے لیے یکساں اور انصاف ہر ایک کے لیے ارزاں ہو، جہاں کا حکومتی نظام مظلوموں اور گواہوں کو ہر طاقتور کے ظلم و اثر سے مکمل تحفظ فراہم کرتا ہو جہاں دیت کا قانون ریمنڈ ڈیوس، شاہ رخ جتوئی اور مصطفی کانجو جیسے بااثر قاتلوں کے تحفظ کے لیے استعمال نہ کیا جاسکتا ہو۔
تاریخ انسانی کے سب سے بہترین حکمران اور خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کے دور میں قحط کے دنوں میں چوری پہ ہاتھ کاٹنے کی سزا معطل کردی گئی۔ پاکستان میں یکساں قانون اور ارزاں انصاف کے شدید قحط کے پیش نظر کم ازکم عورتوں اور بچوں کے قتل کے مقدمات میں دیت کا قانون معطل کردیا جائے۔ (4)۔متاثرہ خواتین و بچوں یا ان کے لواحقین کی طرف سے عدالت میں سرکاری وکیل کی طرف سے مقدمے کی کمزور پیروی کی شکایت پر حکومتی خرچے پر دوسرے وکیل کو مقدمے کی منتقلی۔
(5)۔زیادتی کے مقدمات میں DNA کو بنیادی قانونی ثبوت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ جب لاؤڈ اسپیکر اور ٹی وی حرام سے حلال کے دائرے میں آسکتے ہیں تو DNA میچنگ ٹیکنالوجی کو بھی زیادتی کے مقدمات میں بنیادی ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔(6)۔نیز یہ کہ چار صالح افراد کی گواہی کو زنابالجبر کے بجائے زنا بالرضا کے کیسز کے لیے رکھا جائے۔
سزا برائے سزا کے بجائے ہمیں جرم کے خلاف موثر خوف پیدا کرنے والی سزاؤں کے نظام کی ضرورت ہے۔ (1)۔عورتوں اور بچوں کے قاتلوں کے لیے سزائے موت اور جائیداد کی ضبطی کے ساتھ ان کے ساتھیوں کے لیے بھی ناقابل تخفیف عمر قید اور جائیداد کی ضبطی کی سزا۔ (2)۔عورتوں اور بچوں سے زیادتی کے جرم کو ریاست کے خلاف دہشت گردی کی سنگین حیثیت دی جائے اور اسی کے مطابق سزائیں دی جائیں۔ (3)۔تیزاب پھینکنے والوں کے لیے آئیڈیل سزا ان پر تیزاب پھینکنا ہوگی۔ یہ سزا مردوں پر تیزاب پھینکنے والوں پر بھی لاگو ہو۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ہمارے تمام انتہائی نیک، انسان دوست اور ہمدرد سیاستدان اور مذہبی سیاستدان عورتوں اور بچوں کے تحفظ کے لیے APC بلاکر اس میں ان اقدامات پر اتفاق رائے پیدا کرکے متحد ہوکر مطلوبہ قانون سازی کو یقینی بناتے ہیں کہ نہیں۔ نہیں کی صورت میں جمہوریت کے بدخواہوں اور ہمارے نیک و خدا ترس سیاستدانوں کی خوشحالی سے جلنے والے حاسدوں کو کہیں یہ کہنے کا موقعہ نہ میسر آجائے کہ ہمارے حکمران اور تمام اقسام کے سیاستدان کرپشن اور ظلم کے اسٹیٹس کو نظام کو بچانے کے لیے تو سیسہ پلائی دیوار بن کر ایک ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں مگر اس قوم کی مظلوم عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات پر متفق نہیں ہوسکتے۔
کچھ شر پسند عناصر یہ بے سروپا پروپیگنڈا بھی کرسکتے ہیں کہ کرپشن، کمیشن، پلاٹ، پرمٹ وغیرہ ہی وہ مرغوب عناصر ہیں کہ جو ہماری جملہ بابرکت سیاسی ہستیوں کو حرکت پذیر ہونے پر مائل کرتے ہیں نہ کہ اس قوم کی عورتوں اور بچوں کی حفاظت جیسے معاملات۔ امید ہے کہ ہمارے سیاستدان بدخواہوں اور حاسدوں کو غلط ثابت کریں گے۔ امید پہ دنیا قائم ہے۔