خلائے بسیط پر قدم دھرنے والے دنیا کے پہلے خلاباز کی آپ بیتی

ایک غریب کسان کے بیٹے کا ناقابل فراموش قصّہ، محنت کے بل بوتے پر اسے خلا میں پہنچنے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل ہوا


سید عاصم محمود February 21, 2016
ایک غریب کسان کے بیٹے کا ناقابل فراموش قصّہ، محنت کے بل بوتے پر اسے خلا میں پہنچنے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل ہوا۔ فوٹو: فائل

KARACHI: سوویت یونین(روس) کا میجر یوری گاگرین پہلا انسان ہے جو ''وستوک اول'' میں بیٹھ کر خلا میں پہنچا اور زمین کے گرد چکر لگایا۔ یہ واقعہ 12 اپریل 1961ء کو پیش آیا۔یوں خلا میں پہلے پہنچنے کے مقابلے میں روسیوں نے امریکا کو شکست دے ڈالی۔ وہ 9 مارچ 1934ء کو پیدا ہوا اور 17 مارچ 1968ء کو ایک حادثے میں چل بسا۔ اس مختصر سی زندگی میں بھی وہ امر ہوگیا۔فوجی ہونے کے باوجود امن کے اِس شیدائی کا ''ٹریڈ مارک''دل موہ لینے والی مسکراہٹ تھی۔ گاگرین کی تاریخ ساز پرواز اور حیات سے درج ذیل خصوصی مضمون اس کی سوانحی تحریروں سے مرتب کیا گیا ہے۔

٭٭

میرے والد، الیکسی آئیون وچ گاگرین غریب کسان کے بیٹے تھے۔ وہ صرف دوسری جماعت تک تعلیم حاصل کرسکے تھے مگر ان کا ذہن بڑا متجسس اور کھوجی تھا۔ اس لیے ''اپنی تعلیم آپ'' کے اعتبار سے وہ خاصے دانا و بینا تھے۔ ہمارے گاؤں، کلوشینو میں ہر کوئی انہیں ''ہر فن مولا'' کے لقب سے یاد کرتا۔ یہی خصوصیت ان کی وجہ شہرت بھی تھی۔

وہ تمام چھوٹے بڑے کام کرلیتے جو ایک کاشت کار کو کرنا پڑتے ہیں۔ لیکن وہ بڑھئی اور مستری بھی عمدہ تھے۔ ایسا اچھا فرنیچر بناتے کہ لوگ دنگ رہ جاتے۔ مجھے یاد ہے، لکڑی کا پیلا پیلا برادہ ان کے ہاتھوں اور چہرے سے یوں چمٹا رہتا جیسے اصل مسام وہی ذرات ہوں۔ آج بھی دکان کا منظر حافظے میں جاگ جائے، تو ایک ایک لکڑی کی خوشبو میرے وجود میں بیدار ہوجاتی ہے... میپل کی میٹھی میٹھی مہک، بلوط کا کسیلا پن اور انناس کی دل میں اتر جانے والی خوشبو۔

میرے نانا، تموفی متویف پیٹروگریڈ کے ایک کارخانے میں فورمین تھے۔ والدہ بتایا کرتی تھیں کہ وہ بڑے مضبوط ہاڈ کے آدمی تھے اور سخت محنتی۔ کبھی خالی نہ بیٹھتے۔ ایسے ہنرمند تھے کہ فولادی کیل کو ہتھوڑے سے کوٹ کوٹ کر پھول بنا دیتے۔ میں نے اپنے نانا کو نہیں دیکھا کیونکہ وہ میری پیدائش سے قبل ہی فوت ہوگئے۔ لیکن گھرمیں ان کا تذکرہ اتنی اپنائیت سے ہوتا جیسے وہ زندہ ہوں۔ چناں چہ نانا کی شخصیت کا سایہ ہمیشہ میرے ساتھ رہا۔



میری والدہ، اینا تموفینا بھی تعلیم یافتہ نہیں تھیں مگر ان کی بھی متجسس طبیعت نے بغیر پڑھے انہیں بہت کچھ سکھا بتادیا۔ ہم بچے ان سے کوئی سوال پوچھتے تو وہ اعتماد سے جواب دیتیں۔ ہم چار بہن بھائی تھے۔ میں تیسرے نمبر پر تھا۔

...٭...

ایک اتوار کی بات ہے، والد خلاف توقع دکان سے جلد گھر چلے آئے۔ میں نے انہیں اتنا پریشان اور متفکر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ گھر میں آتے ہی ان کی زبان سے صرف ایک لفظ نکلا: ''جنگ!''

یہ سن کر والدہ بھی پریشان ہوگئیں۔ انہوں نے چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپا اور ان کی آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں۔ ہر طرف مایوسی کا اندھیرا چھاگیا۔ افق پر بادل منڈلانے لگے۔ گاؤں میں ہر وقت زندگی گنگنایا کرتی تھی، اب اسے بھی چپ لگ گئی۔ ہمارا کھیلنا بھی خود بخود بند ہوگیا۔

اگلے دن گاؤں والے ایک بڑے میدان میں جمع ہوئے۔جو نوجوان تھے، وہ ایک طرف ہوگئے۔ پھر وہ لوگ بھی ان کی صف میں جاشامل ہوئے جنہیں گاڑی چلانا، مرہم پٹی کرنا وغیرہ آتا تھا۔ وہ سب لوگ ایک ٹرک میں بیٹھ گئے۔ ٹرک چلا، تو سب نے ہاتھ ہلا کر انہیں الوداع کہا۔ وہ وطن کی حفاظت کرنے کے لیے محاذ جنگ پر جارہے تھے۔

...٭...

دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو ہم نزدیکی قصبے، گزتسک چلے گئے۔ وہیں میں ایک سکول میں داخل ہوا۔ ایک روز میرے ذہن میں یہ عجیب سوال پیدا ہوا کہ میں بڑے ہوکر کیا بنوں گا؟ میں خوب پڑھنا چاہتا تھا مگر جانتا تھا کہ میرے غریب والدین میں اتنی سکت نہیں کہ مجھے اعلیٰ تعلیم دلواسکیں۔

ہماری حالت شروع ہی سے ناگفتہ بہ تھی۔ جو آمدن ہوتی، وہ چھ نفوس کا پیٹ بھرنے پر خرچ ہوجاتی۔ میں نے سوچا کہ پہلے میں کوئی ہنر سیکھوں گا۔ ہنر سیکھ کر کسی کارخانے میں ملازمت کرلوں گا۔ اور ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رہے گی۔ میرے چچا ماسکو رہتے تھے۔ انہوں نے میرے والد کوکہا کہ مجھے ماسکو بھجوادیں تاکہ یہ کچھ بن سکے۔

لیکن میرے والدین نے انکار کردیا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے اور میری جدائی برداشت نہ کرپاتے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ سولہ سالہ لڑکا چھوٹا سا بچہ ہے۔ حالانکہ جب وہ میری عمر کے تھے، تو شبانہ روز محنت کرتے تھے۔ آخر کار وہ مان گئے اور مجھے چچا کے پاس ماسکو بھجوا دیا گیا۔

...٭...

ماسکو میں مجھے ایک سٹیل مل میں بہ حیثیت اپرنٹس ملازمت مل گئی۔ مجھے فاؤنڈری مین کا کام سیکھنا تھا۔ شام کومیں ایک سکول میں جاتا جہاں مزدوروں کے بچے پڑھتے تھے۔ سکول والوں نے ہی مجھے زندگی کی پہلی وردی دی... ایک ٹوپی جس کی ترچھی نوک پر سکول کا نشان بنا تھا۔ صاف ستھری قمیص، پتلون، جوتے، کوٹ اور پیٹی جس کا بکسوا خوب دمکتا تھا۔

میں نے وردی پہنی، تو میرے جسم پر موزوں بیٹھی۔ دل میں ترنگ آئی، تو وردی میں اپنی تصویر کھنچوالی۔ میری جیب خالی ہوگئی۔ مگر جب پرنٹ ملے تو وہ اتنے خوبصورت تھے کہ میں خوشی سے جھوم اٹھا۔ مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ میں ہوں۔ میں نے ایک ایک پرنٹ اپنے گھر والوں اور دوستوں کو بھجوایا اور سب کو ایک ہی جملہ لکھا!''دیکھو میں تو صاحب بن گیا۔''

...٭...

مجھے آج تک یاد ہے کہ جب میں نے ٹالسٹائی کا ناول ''جنگ اور امن'' پڑھا، تو جوش کے مارے میری عجیب کیفیت ہوگئی۔ اس ناول میں مجھے جنگ کے مناظر بہت اچھے لگے۔ پھر ٹالسٹائی کا انداز بیان بھی دلکش ہے۔ خاص طور پر نپولین کے حملوں سے مادر وطن کو بچانے والے جان بازوں کی سرفروشی دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس ناول کا ایک ایک افسر میرے دل پر نقش ہوگیا۔

میں نے اسی زمانے میں وکٹر ہیوگو کا ناول ''لیس مزریبلز'' اور چارلس ڈکنز کے ناول بھی ذوق و شوق سے پڑھے۔ میں بہت پڑھتا تھا اور عمدہ کتب کا مطالعہ کرتا۔ مجھے جولیس ورن، آرتھر کانن ڈائل اور ایچ جی ویلز کی تحریریں بھی پسند آئیں۔

ایک روز میں سکول کے پرنسپل کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے درخواست کی کہ مجھے سارا ٹوف میں واقع ٹیکنیکل سکول میں بھجوا دیا جائے۔ انہوں نے کمال شفقت سے درخواست نہ صرف قبول کی بلکہ مجھے جانے کا ٹکٹ بھی خرید دیا۔ یہ ریل کا میرا پہلا سفرتھا۔ ریل جب دریائے وولگا کے اوپر سے گزری، تو قدرتی نظارے دیکھ کر لطف آگیا۔

سارا ٹوف ٹیکنیکل سکول میں، میں ٹریکٹروں کی دیکھ بھال اور مرمت کا ہنر سیکھنے لگا۔ مجھے بچپن سے ہوائی جہاز چلانے کا بہت شوق تھا۔ چناں چہ ایک مقامی فلائنگ کلب میں بھی داخلہ لے لیا۔ وہاں میں ہفتہ اتوار کو ہوائی جہاز چلانا سیکھنے لگا۔

...٭...

میں سارا دن گدھوں کی طرح کام کرتا۔ تھک ہار کر رات کو بستر پر لیٹتا تو فوراً ہی نیند آجاتی۔ تھکن کا یہ عالم تھا کہ میں نے کبھی خواب نہیں دیکھا۔ میں جلدازجلد پرواز کی تربیت مکمل کرنا چاہتا تھا۔ میں اکثر سوچا کرتا کہ فرض کرو، تن تنہا جہاز چلانے کا موقع آیا اور پہلے دن ہی گڑبڑ ہوگئی، تو کیا ہوگا؟ یہ سوچ کر میں گھبرا اٹھتا اور پھر خود کو دلاسا دیتا کہ گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں!

آخر وہ دن بھی آگیا جب میرے استاد، دمتری مندیف نے ہوائی جہاز کے قریب کھڑے ہوکر کہا ''آج میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ تم تنہا جاؤ اور ایک چکر کاٹ کر واپس چلے آؤ۔''

یہ سن کر میں خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ میں نے رن وے پر جہاز کو ہولے ہولے دوڑایا پھر پورا تھروٹل کھول دیا۔ جہاز آہستہ آہستہ بلند ہوا۔ میں یہ سوچ کر خوشی سے جھوم اٹھا کہ اسے اکیلا اُڑا رہا ہوں۔ اس مسّرت کو صرف وہی پائلٹ محسوس کرسکتا ہے جو پہلی مرتبہ تنہا جہاز چلانے کے تجربے سے گزر جائے۔ جہاز کا ایک ایک حصہ اور پرزہ میرے بدن کا جزو بن گیا۔ اس نے میرے ہر اشارے کی اطاعت کی اور میرا حکم بے چوں و چرا تسلیم کیا۔

فلائنگ کلب کے کچھ دوست امتحان پاس کرنے کے بعد محکمہ شہری ہوا بازی میں چلے گئے۔ بعض فصلوں پر سپرے کرنے والے ادارے میں بھرتی ہوگئے۔ لیکن میں لڑاکا طیارے کا پائلٹ بننا چاہتا تھا، اس لیے سوویت فوج سے رجوع کیا۔ میری درخواست قبول ہوئی اور مجھے اورن برگ کے ایئرفورس پائلٹ سکول میں برائے تربیت بھجوا دیا گیا۔

میری فوجی زندگی کا آغاز ایک رنگروٹ کی حیثیت سے ہوا۔ پہلے تو میرے سرپر مشین پھیری گئی اور پھر نئی وردی ملی۔ خاکی قمیص، نیلی پتلون، بھاری کوٹ اور وزنی جوتے۔ سکول میں رنگروٹ ''نیلا کیڈٹ'' کہلاتے تھے۔ اب میری خوشی نے کچھ تکبر کا رنگ اختیار کرلیا۔ میری کامیابی سے والدین اور بھائی بہن سبھی خوش تھے۔ اب میں سویت فوج کا حصہ تھا۔

ملٹری سکول میں زندگی پُر لطف گزری۔ جب بہت سے ایسے صحت مند نوجوانوں کے ساتھ شب و روز بسر ہوں جو ایک ہی مقصد رکھتے ہوں، تو زندگی بہت حسین ہو جاتی ہے۔

...٭...

مجھے اس کی ہر بات اچھی لگتی تھی۔ اس کی معصومیت، بوٹا سا قد، صاف ستھری شخصیت، چمکدار اور شوخ نیلی آنکھیں، لمبے اور سیدھے بالوں میں مانگ کی لکیر اور خصوصاً اس کی ننھی سی ناک جو جذبات کے اتار چڑھاؤ میں نوکدار بن کر زیادہ دلفریب ہوجاتی۔

ویلنتینا تھی آئیونا قصبے کے نرسنگ سکول میں زیر تعلیم تھی۔ ایک تقریب میں ہم دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی۔ اس نے تب ہلکے نیلے رنگ کا لباس پہن رکھا تھا اور بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ وہ شرمیلی اور باحجاب معلوم ہوئی۔ میں نے اسے رقص کی دعوت دی تو اس نے کچھ پیش و پیش کے بعد قبول کرلی۔ یوں ہمارے عشق کا آغاز ہوا۔

ویلنتینا مجھ سے بس ایک سال چھوٹی ہے۔ وہ اورن برگ ہی کی رہائشی اور کبھی قصبے سے باہر نہیں گئی تھی۔ اس کا باپ ایک ہسپتال میں خانساماں (بٹلر) تھا۔ ماں گھریلو خاتون تھی۔ اس کا کنبہ خاصا بڑا تھا، والدین، تین بھائی اور تین بہنیں۔ وہ سب سے چھوٹی اور اسی لیے گھر بھر کی چہیتی تھی۔ پہلی ملاقات کے بعد میں اس کے گھر آنے جانے لگا۔ سب مجھ سے مل کر کر خوش ہوئے۔ ان کا رویّہ دوستانہ تھا۔

ویلنتینا اور مجھ میں خاصی عادات مشترک تھیں۔ وہ کتاب کی عاشق تھی اور میں بھی! اسے ایکٹنگ کا شوق تھا اور مجھے بھی! میں تھیٹر شوق سے دیکھتا تھا اور وہ بھی۔ غرض میں اس کا دیوانہ ہوگیا۔ جس دن چھٹی ہوتی، تو دوڑ کر اس کے گھر پہنچ جاتا۔ ویلنتینا سمیت سبھی گھر والے میرا انتظار کررہے ہوتے۔ یوں محسوس ہوتا جیسے میں گھر کا ایک فرد ہوں۔ اس دن طرح طرح کے لذیذ کھانے پکے ہوتے۔ ہم سب قہقہوں کی بوچھاڑ میں مل کر کھانا کھاتے۔ ان دنوں نجانے کیا بات تھی کہ بھوک بھی خوب لگتی۔

میری سالگرہ کا دن آیا، تو ویلنتینا نے مجھے اپنی دو تصاویر بطور تحفہ دیں۔ ایک فوٹو پر اس نے میری تحریر کی نقل کرتے ہوئے یہ جملے لکھے :''یاد رکھو، خوشی کہیں آسمان سے نہیں آتی، ہمیں وہ خود حاصل کرنا پڑتی ہے۔ قسمت کے آگے سر نہ جھکاؤ، قسمت کوئی معنی نہیں رکھتی، اصل چیز تم خود ہو اور یاد رکھو، انتظار کرنا بھی ایک لطیف فن ہے۔ انتظار کی لذت سب سے اعلیٰ اور نیفس ہے۔ ویلنتینا، 9 مارچ 1957ء۔اس نے درست لکھا تھا، ہم دونوں نے اپنی اپنی خوشی خود ہی حاصل کرلی۔

...٭...

اکتوبر 1957ء میں سوویت یونین کا پہلا مصنوعی سیارہ، سپوتنک اول خلا میں چھوڑا گیا جس نے پوری دنیا کو حیران کر ڈالا۔ میرا دوست، یوری ورگونو دوڑا دوڑا میرے پاس آیا اور چیخ کر بولا ''سپوتنک! ہم نے خلا میں سپوتنک بھیج دیا۔''

میرے رگ و پے میں خوشی دوڑ گئی۔ اب خلائے بسیط کی لامحدود وسعت انسان کی دسترس میں آگئی تھی۔ میرے دل میں تمنا پیدا ہوئی کہ کاش میں بہ حیثیت پائلٹ یہ مصنوعی سیارہ چلا رہا ہوتا۔ اب مکمل پائلٹ بننے کی میری خواہش سوا ہوگئی۔ آخر 7 نومبر 1957ء کو میری گریجویشن مکمل ہوئی اور میں سوویت فضائیہ کا پائلٹ آفیسر بن گیا۔



اسی دن قدرت نے میری دوسری بڑی خواہش بھی پوری کردی یعنی اپنی من موہنی سے شادی! میں نے سہ پہر کو دوست ساتھ لیے اور اپنے سسرال کے فلیٹ پہنچ گیا جو خاصا بڑا تھا۔ وہاں نوبیاہتا جوڑے کی خاطر ایک کمرا سجایا گیا تھا۔ ویلنتینا سفید براق لباس میں دلہن بنی بیٹھی تھی۔ میں نے اپنا کوٹ اتارا تو نیچے سے میری وردی نکل آئی۔ وہ پیار بھری نگاہوں سے مجھے تکنے لگی۔اس نے پہلے کبھی مجھے وردی میں ملبوس نہیں دیکھا تھا۔ آخر بیاہ ہوگیا۔ ہم دونوں بہت خوش تھے اور اپنی خوشیوں میں سے ایک ایک ٹکرا دوسروں کو دینے کے متمنی بھی!

...٭...

میری تمنا تھی کہ بیٹی جنم لے۔ ویلنتینا بیٹا چاہتی تھی۔ جب ہم ہونے والے بچے کی خاطر کپڑے خریدنے گئے، تو ہمارے مابین یہ بحث چل پڑی کہ ننھے لباس لڑکے کے ہوں یا لڑکی کے؟ آخر طے پایا کہ ہم اپنی اپنی پسند کے کپڑے خرید لیں۔ چناں چہ میں نے لڑکیوں کے لباس خریدے اور بیگم نے لڑکوں والے۔

جس دن بچہ ہونے والا تھا، میں چھاؤنی میں اپنے دفتر بیٹھا سخت بے چین تھا۔ بار بار کلینک فون کرکے پوچھتا کہ ننھا دنیا میں آگیا؟ کلینک والے تنگ آگئے۔ وہ فوراً میری آواز پہچان لیتے اور کہتے ''ارے بھائی، فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہوجائے گا۔'' ٹیلی فون پر بیٹھی لڑکیاں تو تنگ ہونے پر مجھ سے خفا ہوگئیں۔

بالآخر میرے سوال پر ایک سوال ہوا''آپ کیا بیٹے کا انتظار کررہے ہیں؟''

''نہیں، بیٹی کا۔'' میں نے جلدی سے کہا۔

''تو مبارک ہو، بیٹی ہوئی ہے۔ مٹھائی کھلاؤ۔ ساڑھے سات پونڈ کی ہے۔''

میں فوراً کلینک پہنچنا چاہتا تھا مگر اتفاق سے دفتر کی گاڑی کچھ عرصہ پہلے کسی کام سے چلی گئی۔ چناں چہ میں شام کو ہی کلینک پہنچ سکا۔ ڈاکٹروں نے مجھے بچی کو دیکھنے کی اجازت نہ دی۔ تاہم انہوں نے وہ خط ویلنتینا تک پہنچا دیا جو میں نے تازہ تازہ محبت کے وفور میں وہیں بیٹھ کر لکھا تھا۔

بچہ جنم لیتے ہی گھر کے ماحول میں محبت کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں۔ جو انسان باپ بننے کے مرحلے سے گزراہو وہی ان لازوال خوشیوں کو محسوس کرسکتا ہے جو ننھے بچے کو گرم پانی میں نہلانے، پھر اسے کپڑوں میں لپیٹے اپنے ہاتھوں میں اٹھائے گرم جگہ لے جانے اور اس کی چیخوں کے ساتھ گنگانے سے حاصل ہوتی ہے۔ میرا معمول بن گیا کہ جب بھی دفتر سے واپس آتا تو سارا وقت بچی کے ساتھ گزارتا یا گھریلو کام کاج میں بیوی کا ہاتھ بٹاتا۔ کسی شاعر نے درست کہا:

گھر میں بچے ہوں

دن کو ہنسانے والے

رات کو رلانے والے

...٭...

بیٹی کی ولادت کے چارماہ بعد ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ میں اپنا مگ طیارہ دیوانہ وار اڑا رہا تھا کہ اچانک برفانی طوفان نے مجھے گھیر لیا۔ ہوائی اڈے سے فلائٹ ڈائریکٹر کا حکم سنائی دیا ''فوراً واپس چلے آؤ'' اس کی آواز میں خوف تھا۔

رن وے پر برف باری شروع ہوگئی تھی۔ ادھر پٹرول بھی کم رہ گیا تھا۔ مگر اس موقع پر پٹرول سے زیادہ دماغ سلامت ر ہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کٹھن وقت میں آدمی حوصلہ نہ ہارے تو وہ بڑی سے بڑی مشکل کا بھی مقابلہ کرلیتا ہے۔ میں فلائٹ ڈائریکٹر کی ہدایات پر عمل کرنے لگا۔ وہ مجھ سے زیادہ تجربے کار تھا۔

آلات نے بتایا کہ طیارہ ہوائی اڈے پر پہنچ گیا ہے مگر مجھے رن وے نظر نہ آیا۔ آخر چند چکر لگانے کے بعد فلائٹ ڈائریکٹر کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے میں بخیر و خوبی زمین پر اتر گیا۔ جب اس سے ملاقات ہوئی، تو ڈائریکٹر نے میرا کندھا تھپتھپایا اور کہا ''خوش قسمتی صرف بہادر پر مسکراتی ہے۔'' اپنی تعریف سن کر مجھے بڑا حوصلہ ملا اور میں اس کے الفاظ کبھی نہیں بھول سکا۔

...٭...

جنوری 1959ء سے سوویت حکومت خلائی جہاز کے ذریعے انسان کو خلا میں بھجوانے کی تیاریاں کرنے لگی۔ جب خلا بازوں کی اسامیاں نکلیں، تو میں نے بھی درخواست دے دی۔ خلا باز بننا میرا ایک بڑا خواب تھا۔ مجھے بھی سیکڑوں پائلٹوں کے ساتھ طلب کرلیا گیا۔

ہم سب میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوئے۔ ہم فوجی طبی معائنوں کے عادی ہوتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کومذاقاً کہا کرتے تھے ''کوئی خطرناک چیز نہیں نکلے گی۔'' مگر اس بورڈ کا امتحان تو بہت سخت نکلا۔ میری آنکھوں کا سات بار مختلف مواقع پر معائنہ ہوا اور میں تھک سا گیا۔ خاص طور پر میری پتلی نشانہ بنی۔ ڈاکٹر صاحب گویا درزی کے اس مقولے پر عمل کرتے نظر آئے: ''ناپو سات مرتبہ، کاٹو ایک مرتبہ۔'' اس نے میری آنکھوں میں کوئی نقص تلاش کرنے کی بہت کوششیں کیں مگر اسے کامیابی نہ مل سکی۔

ایک امتحان یہ بھی ہوا کہ ہر امیدوار میں غیر معمولی اور انتہائی نامساعد حالات میں کام کرنے کی صلاحیت کس حد تک ہے۔ اس امتحان میں ریاضی اور الجبرا کے معمے بھی حل کرائے گئے۔ دوران امتحان اچانک لاؤڈ اسپیکر سے باآواز بلند گانے گونجنے لگے۔ مدعا ہمیں مشکل میں ڈالنا تھا تاکہ ہم شور میں اپنی قوت ارتکاز پوری طرح بروئے کار لاسکیں۔

اس امتحان کے بعد امتحانوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ کان، ناک، دانت، اعصاب، دماغ، دل، معدہ... غرض ہر عضو جسم کے ڈاکٹر نے ہمارا طبی معائنہ کیا اور ہمارے بدن کو ٹھونک بجا کر دیکھا۔ ہر ڈاکٹر ہمارے ساتھ ایسی درشتی سے پیش آیا جیسے معالج نہیں سرکاری وکیل ہو۔

ڈاکٹروں نے سر سے لے کر تلوے تک ہمارے ایک ایک مسام، ایک ایک قطرہ خون کا بھی تجزیہ کیا۔ مختلف مشینوں میں ہمیں توڑ مروڑ کر پرکھا گیا۔ تمام امتحانوں کا مرکز ہمارا دل تھا۔ ہماری زندگی، وجود، طاقت، کمزوریوں، خامیوں غرض پوری سوانح حیات کا مطالعہ ہمارے دل کی جانچ پرکھ سے ہوا اوروہ کوئی بات چھپا بھی نہیں سکتا۔

...٭...

جب انسان تنہا ہو، تو خود بخود ماضی، حال، مستقبل کے بارے میں سوچتا اور اپنی زندگی کا تجزیہ کرتا ہے۔ تنہائی گویا نظرثانی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ میں بھی تنہائی میں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچا کرتا کہ فرض کرو، میں خلا باز بن گیا، توخلا میں جاکر کیا کروں گا؟

میں بچپن سے تخیل پسند رہا ہوں اوراب سوچوں میں گم رہنا معمول بن گیا۔ میں تصور میں محسوس کرنے لگتا کہ خلا کی پہنائیوں میں اپنا جہاز اڑا رہا ہوں۔ آنکھیں میچ لیتا اور اندازہ لگاتاکہ اندھیرے میں مجھے کیونکر نظر آئے گا؟ اور نیچے سمندروں اور براعظموں کا نقشہ کیا ہوگا۔ دن کے پیچھے رات اور رات کے پیچھے دن کیسا دکھائی دے گا۔ تاروں کی جگمگاہٹ کا کیا عالم ہوگا۔میں پھر خود کو لندن، پیرس اور نیوپارک کے اوپر سے گزرتا پاتا۔ اپنا قصبہ بھی نظر آتا۔ غرض خیالات کا سلسلہ تھمنے میں نہ آتا۔ ایک دن ویلنتینا نے مجھے اس حالت میں دیکھا، تو پوچھا ''ارے کیوں کھوئے کھوئے رہنے لگے ہو۔ کہاں جانے کا ارادہ ہے؟''

میں نے ازاراہ مذاق کہا ''میں خلا میں جارہا ہوں۔ میرا سامان باندھ دینا۔''

''میں نے ہر چیز باندھ دی ہے'' وہ سنجیدگی سے بولی۔ تب منکشف ہوا کہ وہ بھی جانتی ہے کہ میں خلا باز منتخب ہوسکتا ہوں۔ حالانکہ سوچتا تھا، جب تقرر نامہ ہاتھ آیا تب روانگی سے چند دن قبل اسے یہ خبر دوں گا تاکہ ویلنتیناکو صدمہ نہ پہنچے۔ میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا ''پہلی انسان برادر خلائی پرواز سر پر کھڑی ہے۔ جلد ہی یہ تاریخ ساز واقعہ رونما ہونے والا ہے۔ ممکن ہے، اسے انجام دینے والا خوش نصیب میں ہوں۔''

'' آخر تم ہی کیوں؟ تمہارکوئی دوست کیوں نہیں؟'' وہ متوحش انداز میں بولی۔

میں نے بیگم کو سمجھانے کی پوری کوشش کی کہ میرا انتخاب ہوسکتا ہے۔ جذبات و احساسات سے عیاں تھا کہ وہ خوفزدہ ہے اور خوش بھی! ہم اس رات دیر تک جاگتے باتیں کرتے اور مستقبل کے منصوبے بناتے رہے۔

...٭...

آخر و ستوک خلائی جہاز چلانے کے لیے میرا ہی انتخاب ہوگیا۔ میں نے وستوک کو دیکھا، تو مجھے احساس ہوا کہ اسے تیار کرنے میں زرکثیر خرچ ہوا ہے۔ اس کی تیاری پر شبانہ روز محنت ہوئی تھی۔اور میں دنیا کا واحد شخص تھا جو اس پر سواری کرے گا۔ انفرادیت کا یہ احساس مجھے خوشی سے سرشار کردیتا ہے۔

خلائی جہاز کی پرواز کے سمّے میں اپنی نشست پر بیٹھا قومی ترانے سن رہا تھا۔ پرواز شروع ہونے میں ساٹھ منٹ باقی تھے۔ وقت کی رفتار کو سیکنڈوں، منٹوں اور گھنٹوں میں ناپنا ممکن ہے مگر خیال کی رفتار ناپی نہیں جاسکتی۔ انسان کا خیال تو چشم زدن میں لامحدود سفر طے کرلیتا ہے۔

اس وقت مجھے وہ دن یاد آیا جب میں روسی بچوں کی رضا کار تنظیم ''پائنیر'' (pioneer) کے اجلاس میں شریک ہوا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ پائنیر کا مطلب ہے مہم جو،کھوجی،ثابت قدم۔ مجھے یہ لفظ بہت اچھا لگا جس کے اچھے معنی تھے۔ دل چاہا، کاش میرے گلے میں تنظیم کا سرخ رومال بندھا ہوتا۔ جب ہم بڑے ہوجائیں، تو سارے اچھے اچھے لفظ اور معنی سے ناتا توڑ لیتے ہیں، افسوس!

مجھے سیٹی کی آواز آئی اور پھر زوردار شور بلند ہوا۔ دیوقامت راکٹ زمین کی جڑوں سے رشتہ توڑ کر آسمان کی سمت اٹھنے لگا۔ راکٹ کے طاقتور انجنوں سے مستقبل کے گیت تخلیق ہورہے تھے۔ ماضی میں انسان نے جتنے بھی نغمے گائے تھے، یہ ان سے کہیں زیادہ اثر انگیز اور پُرکشش تھے۔

...٭...

وستوک آخر خلا میں داخل ہوگیا۔ تب مجھے بے وزنی کے تجربے سے گزرنا پڑا... وہ عجیب و غریب حالت جس کا مطالعہ بچپن میں بعض ناولوں میں کیا تھا۔ پہلے تو مجھے الجھن ہوئی کہ میں کیوں اڑتا پھرتا ہوں۔ پھر عادی ہوگیا اور دل جمعی سے اپنا کام کرنے لگا۔

ایک بار مجھے اپنی والدہ کا خیال آیا۔ جب میں چھوٹا تھا، تو اکثر وہ مجھے بوسہ دیا کرتی تھیں۔ بوسے کی آواز میرے رگ و پے میں سرایت کرگئی۔ کیا اب وہ سوچ رہی ہوں گی کہ ان کا بیٹا کہاں اور کس حالت میں ہے؟ ویلنتینا نے انہیں میری پرواز کے متعلق بتادیا ہوگا؟

مقررہ مدت کے بعد وستوک زمین کی طرف پرواز کرنے لگا۔ خلا میں رہتے ہوئے چھوٹی موٹی پریشانیوں سے واسطہ پڑا مگر میں پریشان نہیں ہوا اور اپنا حوصلہ جوان رکھا۔ جب وستوک زمین سے ڈھائی کلو میٹر (آٹھ ہزار فٹ) اوپر تھا، تو میں نے پیرا شوٹ کی مدد سے چھلانگ لگادی۔

میں ایک کھیت میں اترا۔ وہاں کچھ دیہاتی کھڑے تھے۔ انہوں نے نارنجی سوٹ اور ہیلمٹ میں ملبوس اجنبی کو آسمان سے اترتے دیکھا، تو اسے خلائی مخلوق سمجھے اور خوفزدہ ہوگئے۔ میں نے روسی زبان میں انہیں کہا ''گھبراؤ نہیں، میں دوست ہوں، دشمن نہیں۔''

اب سبھی دہقان میرے گرد اکٹھے ہوگئے۔ یہ پہلے لوگ تھے جن سے میں زمین پر اترنے کے بعد ملا۔ ہم ایک دوسرے سے یوں والہانہ پیار سے ملنے لگے جیسے مدتوں کے بچھڑے دوست ہوں۔

٭٭

میجر یوری گاگرین ایک شاندار طلسماتی دن گزار کر ایک دیہی مکان میں گہری نیند سوگیا۔ وہ تھکا ہوا تھا، اس لیے اپنے کارنامے کی وقعت کا اندازہ نہیں لگاسکا۔ اسے علم نہ تھا کہ اس کی والدہ ماسکو پہنچ چکیں۔اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس کی پیاری محبوبہ، چہیتی بیوی ویلنتینا غیر معمولی تفکر کے باعث روتی رہی تھی۔وہ بھی ماسکو پہنچ گئی تھی۔ اب لوگوں کی مبارک بادیاں وصول کرتے ہوئے اس کے چہرے پر تبسم کھل رہا تھا۔ وہ بے پناہ خوش تھی کہ اس کا شوہر واپس زمین پر پہنچ چکا تھا... ویلنتینا کی کل کائنات اس کا شوہر ہی تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں