وزیراعظم نواز شریف کے تازہ فیصلے
راجہ پرویز اشرف کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران پی آئی او کے فرائض انجام دینا اتنا آسان نہیں تھا
جناب محمد نواز شریف نے پچھلے چند ایام میں نہایت اہم اقدامات کیے ہیں۔ ان کے دُور رَس اثرات مرتب ہوں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ ان کے نتائج بھی، انشاء اللہ، مثبت ہی برآمد ہوں گے۔ ہم باری باری ان کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جمعہ کی شام یہ خبر سامنے آئی کہ وزیراعظم صاحب نے اچھی شہرت کے حامل سینئر سرکاری افسر سید محمد عمران گردیزی صاحب کو وفاقی سیکریٹری اطلاعات مقرر کر دیا ہے۔ اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں کئی دنوں سے اس خبر کا انتظار کیا جا رہا تھا۔
عمران گردیزی صاحب کے وفاقی سیکریٹری اطلاعات تعینات کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جناب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے میرٹ کا ترازو تھامے رکھا ہے، حقدار کو حق پہنچ گیا ہے اور یہ بھی کہ گردیزی صاحب کو بیک وقت وزیراعظم پاکستان کا بھی اعتماد حاصل ہے اور وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات جناب پرویز رشید کا بھی۔ ویسے دیکھا جائے تو نئے وفاقی سیکریٹری اطلاعات پرائم منسٹر ہاؤس کے لیے اجنبی ہیں نہ پرائم منسٹر سیکریٹریٹ کے لیے۔ وہ کئی برس ایک سابق وزیراعظم کے پریس سیکریٹری بھی رہے ہیں اور وزارتِ اطلاعات ہی میں پرنسپل انفارمیشن آفیسر کے فرائض بھی تندہی، دیانتداری اور کمٹمنٹ سے ادا کر چکے ہیں۔
راجہ پرویز اشرف کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران پی آئی او کے فرائض انجام دینا اتنا آسان نہیں تھا لیکن گردیزی صاحب اپنی معاملہ فہمی، وسیع تجربے اور دانشمندی کی بنیاد پر اس مشکل مقام و امتحان سے بھی کامیابی کے ساتھ گزر گئے۔ ان کی طرف کوئی انگشت نمائی بھی نہ ہو سکی اور نہ ہی اس کرسی سے اٹھ جانے کے بعد ان کے بارے میں کسی طرف سے اعتراضات اٹھائے گئے۔ ہر شخص انھیں ہمیشہ خندہ رُو اور تعاون پر مائل پاتا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عمران گردیزی صاحب نے سفارتکاری دنیا کی باریکیاں بھی کامیابی سے نبھائی ہیں۔
انفارمیشن سروس آف پاکستان کے سینئر ترین افسر ہونے کے ناتے سے وہ بیرونی ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں اور مشنوں میں اعلیٰ اور حساس ذمے داریاں بھی ادا کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ واشنگٹن کے پاکستانی سفارتخانے میں پریس منسٹر کے عہدے پر فائز رہے اور نیویارک میں بھی۔ مجھے امریکا کے ان دونوں ممتاز شہروں میں بھی ان سے ملنے کے مواقع میسر آئے۔ وہاں پاکستانی کمیونٹی سے ان کا رویہ ہمیشہ دوستانہ اور تعاونی رہا۔ کبھی نخوت اختیار کی نہ خود کو بیوروکریٹک تکبر کا شکار ہونے دیا۔
پرنسپل انفارمیشن آفیسر (پی آئی او) کے متعینہ فرائض بھی انھوں نے خوب نبھائے۔ پھر جب عمران گردیزی صاحب کو ریڈیو پاکستان کا ڈائریکٹر جنرل بنا دیا گیا تو یہاں بھی انھوں نے نئے انداز سے گُل بوٹے کھلائے۔ اپنی نرم طبیعت سے کسی کو ناراض کیا نہ کسی کا حق غصب ہونے دیا۔ مجھے اِنہی دنوں راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور کے ریڈیو پاکستان کے کئی افسران اور دیگر ملازمین سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ کم لوگوں کو ڈائریکٹر جنرل گردیزی سے شاکی پایا۔
ریڈیو پاکستان کا سربراہ ہونا بھی ایک منفرد اعزاز ہے کہ ان سے، برسہا برس قبل، کبھی اس عہدے پر پطرس بخاری کے بھائی زیڈ اے بخاری فائز رہے ہیں، جن کے نام کی بازگشت تو آج تک بی بی سی میں سنائی دے رہی ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو ان کی خودنوشت ''سرگزشت'' کی ورق گردانی کر لے۔ بہرحال، جناب سید عمران گردیزی نے ریڈیو پاکستان کا سربراہ بنتے ہی اس اہم ترین سرکاری نشریاتی ادارے میں جوہری تبدیلیاں کیں۔ کرنٹ افیئرز کے بالکل ہی نئے پروگراموں کی بنیادیں رکھیں جن میں شرکت کنندگان اور میزبان کو، مناسب ترین حدود میں رہتے ہوئے، سرکار کی پالیسیوں کا ناقدانہ جائزہ لینے کی آزادی دی گئی ہے۔
حالات حاضرہ کے نئے انداز اور نئے اسلوب سے پیش کیے گئے ان پروگراموں کے نتائج یہ برآمد ہوئے کہ ریڈیو پاکستان کی اعتباریت اور کریڈیبلٹی میں اضافہ بھی ہوا اور اس کا سماعتی دائرہ بھی وسعت اختیار کر گیا۔ آج کل کے طرارے بھرتے میڈیا میں یہ مقام بھی حاصل کرنا کارِ دشوار ہے۔ ان کی ہدایات کے تحت ریڈیو پاکستان میں، دن میں کئی بار، نئے اسلامی پروگرام بھی نشر کیے جانے لگے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے سید عمران گردیزی ایسے جہاندیدہ و اہل افسر کو سیکریٹری اطلاعات متعین کر کے ایک مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ وزارت اطلاعات میں جناب راؤ تحسین علی خان کا بطور پرنسپل انفارمیشن آفیسر تعینات کیا جانا اور محمد سلیم بیگ صاحب کو ''ڈیمپ'' کا شعبہ تفویض کرنا جناب وزیراعظم کے دیگر اچھے فیصلوں میں شامل ہیں۔ یہ تینوں سرکاری افسرانِ کرام صرف اسلام آباد ہی میں نہیں بلکہ پورے ملک کی صحافتی برادری میں عزت و محبت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
وہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے سینئر اور ذمے دار افراد سے براہ راست رابطہ بھی رکھتے ہیں اور تقریباً سبھی کو چہروں اور اسمائے گرامی سے جانتے پہچانتے ہیں۔ یہی سنجیدہ اور تجربہ کار لوگ وزیراعظم اور وزیراطلاعات کی میڈیا ٹیم کہلاتے ہیں۔ اور ان کے یہی کریڈنشلز ہونے چاہئیں۔ میڈیا کے کچھ معاملات محترمہ مریم نواز شریف، جو اسلام آباد کے اسکولوں اور محکمہ صحت کی بگڑی ہوئی صحت درست کرنے اور سنوارنے کی بھی کوششیں کر رہی ہیں، نے بھی سنبھال رکھے ہیں لیکن اصل ذمے داری تو انھی تینوں سرکاری معزز افسران کی ہے۔
سید عمران گردیزی صاحب کو بروقت اور میرٹ کے مطابق سیکریٹری انفارمیشن مقرر کرنا ہی نواز شریف کا تازہ اور اکلوتا مستحسن فیصلہ نہیں ہے بلکہ چند روز قبل وزیراعظم نے جرأت کے ساتھ جو فیصلہ کُن بیانات دیے ہیں، ان کی بھی تحسین کی جانی چاہیے۔ مثلاً: ملک کے منتخب چیف ایگزیکٹو کا یہ کہنا کہ ''نیب'' لوگوں کی عزتیں اچھالنا بند کرے، وگرنہ کارروائی کریں گے۔ وزیراعظم نے اس سے دو روز قبل یہ بھی کہا تھا: ''ہم معاشرے سے غیرت کے نام پر قتل کا بدنما داغ مٹانا چاہتے ہیں۔''
سچی بات یہ ہے کہ جناب نواز شریف نے ''نیب'' کے بارے میں جو بیان دیا ہے، اس کی ہر سطح پر تائید کی جانی چاہیے۔ وطنِ عزیز میں بعض اطراف سے اس بیان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ الفاظ دراصل ''نیب'' کا احتسابی ہاتھ ان کی طرف اور ان کے بعض قریبی و معتمد ساتھیوں کی جانب بڑھ رہا ہے، اس لیے حفظِ ماتقدم کے لیے ایسا کہنا پڑ گیا ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن اگر ہم ''نیب'' کی سولہ سالہ تاریخ پر ایک سرسری سی بھی نگاہ دوڑائیں تو بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پوری پاکستانی قوم نے اس ادارے سے جو بلند توقعات وابستہ کی تھیں، شومئی قسمت سے ان کا عشرِ عشیر بھی پورا نہیں کیا جا سکا۔
ان سولہ برسوں میں ''نیب'' کے آٹھ سربراہ مقرر ہوئے ہیں لیکن پورے ملک میں آٹھ بڑے بدعنوانوں کو بھی عبرتناک سزائیں نہیں دی جا سکیں۔ جنرل پرویز مشرف نے تو اس ادارے کو اپنے مخالفین کو مٹانے اور اپنے ڈھب پر لانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ یہ بدقسمت قوم جو کمرشکن ٹیکس ادا کر کے ''نیب'' کے بھاری اخراجات اٹھا رہی ہے، یہ پوچھنے کی جسارت کرتی ہے کہ آج تک کتنے اہم اور کرپٹ لوگوں کو گرفتار کیا؟ کتنے مجرم سزا پا سکے؟ کونسی گرفتار شدہ بدعنوان اہم شخصیات کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں؟ کیا ''نیب'' کی طرف سے پلی بارگیننگ کا تصور اور عملی مثالیں دے کر یہ پیغام نہیں دیا گیا کہ جتنی مرضی ہے لُوٹ مار کر لو لیکن اگر گرفتاری کے بعد لٹیرے غصب شدہ سرکاری دولت کا کچھ حصہ سرکار کے حوالے کر دیں تو انھیں رہائی اور عزت کا پروانہ دے دیا جائے گا؟
ہماری معزز عدالت کے ایک (سابق) جج صاحب توپلی بارگیننگ کو Institutionalized Corruption کہہ چکے ہیں۔ اور یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ ''نیب'' جن لوگوں کو برسوں تک کرپشن کے الزام میں جیلوں میں قید کیے رکھتی ہے اور بعدازاں اگر جرم بھی ثابت نہیں ہوتا تو اس کا ذمے دار کسے گردانا جائے؟ اس دوران معاشرے اور خاندان میں ملزم کی جو رسوائی ہوئی، اس کی قیمت کون ادا کرے گا؟ اس پس منظر میں جناب نواز شریف کے ''نیب'' کے بارے میں بیان کو بے جا اور دھمکی آمیز نہیں کہا جا سکتا۔ وزیراعظم نے ''غیرت کے نام پر'' پاکستانی خواتین کو قتل کرنے کا سلسلہ مستقل بنیادوں پر روکنے کا جو عزم ظاہر کیا ہے، اس سلسلے میں بھی پاکستان کے تمام طبقات اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو جناب نواز شریف کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ مدتوں سے جاری یہ نہایت شرمناک، خونی، بہیمانہ اور غیر اسلامی سلسلہ اب رُک جانا چاہیے۔ خدا کرے نواز شریف اپنے عزم میں کامیاب و کامران ہوں۔