معاف کرنا سیکھیے
ستائیس برس جیل میں قیدکاٹنے کے بعد جب نیلسن مینڈیلاآزاد دنیا میں واپس آیا تو ہر چیز بدل چکی تھی
ستائیس برس جیل میں قیدکاٹنے کے بعد جب نیلسن مینڈیلاآزاد دنیا میں واپس آیا تو ہر چیز بدل چکی تھی۔ سب سے انقلابی تبدیلی جدوجہدکاکامیاب ہوناتھاجس کی بدولت سفید فام اقلیت کے ظلم اوراقتدارکاسورج غروب ہوچکا تھا۔ جنوبی افریقہ میں سیکڑوں برس کے بعد سیاہ فاموں کو اپنے ملک پرحکومت کرنے کاموقعہ ملاتھا۔شہربدل چکے تھے۔ گھر بدل چکے تھے۔لوگ بدل چکے تھے۔مگرسب سے بڑی بات یہ تھی کہ نیلسن مینڈیلاخودبھی بدل چکاتھا۔
گورے خوف سے کانپ رہے تھے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک روارکھاجائے گا۔ پورا ملک خاموش تھا۔یہ گیارہ فروری 1990ء کادن تھا۔نیلسن مینڈیلا''وکٹرورسٹر''جیل سے آزاد ہورہاتھا ۔ سب کواندازہ تھاکہ وہ ملک کاصدر ہوگا۔ جیلر سوچ رہاتھاکہ اب ملک سے فرارہوجاناچاہیے کیونکہ اس نے تنہائی، جسمانی اذیت اورذہنی تشدد سمیت نیلسن مینڈیلا کو ہر بلاکے سامنے ڈال دیاتھا۔قیدخانے سے نکلتے وقت مینڈیلا واپس مڑا۔جیلرسے ہاتھ ملایا۔اس کے خاندان کی خیریت پوچھی ۔ شکریہ ادا کیا اور باہر آگیا۔ لاکھوں کا ہجوم اس کا منتظر تھا۔وقت نے اختیارات کی تلواراس کے نحیف ہاتھوں میں تھمادی تھی۔اس کے ساتھ ہروہ زیادتی کی گئی جو ممکن تھی مگر مینڈیلا نے زندگی کاسب سے بڑاسبق سیکھ لیا تھا۔
ہرایک کو دل سے معاف کرکے اپنے ملک کو ترقی کی شاہراہ پرگامزن کرنے کاسبق۔پرسی یوتر(Percy Yutar)جنوبی افریقہ کاکامیاب ترین سفید فام وکیل تھا۔وہ دل سے قائل تھاکہ کالوںکوحکومت کرنے کاکوئی حق نہیں۔1963ء میں پرسی نیلسن مینڈیلاکے خلاف حکومت کی طرف سے وکیل مقررہوا تھا۔مشہورمقدمہ جسے رائے وؤنیاٹرائل(Rivonia Trial)کہاجاتاہے ۔ نیلسن مینڈیلاکوعمرقیدکی سزاسنائی گئی۔اسے زنجیریں پہنادی گئیں اور روبن آئس لینڈ (Robben Island)کی اذیت گاہ میں منتقل کردیاگیا۔ فیصلے کے بعد پرسی اپنے ملک کا نجات دہندہ قرار دیاگیا۔ ایک ایسا کامیاب وکیل جس نے دنیاکے خطرناک ترین ملزموں کوان کے منطقی انجام تک پہنچا ڈالا۔
نیلسن مینڈیلا کا صدربننا پرسی کے لیے موت کے پیغام جیسا تھا۔ وہ ملک سے بھاگنے کامنصوبہ بنارہاتھاکہ ایوان صدرسے پیغام آیاکہ صدر اس کے اعزاز میں کھانا دینا چاہتے ہیں۔ پرسی سمجھاکہ یہ ایک مذاق ہے۔ اپنے خاندان کوبتاکرگیاکہ اسے قصرِصدارت میں بلاکرقتل کردیاجائے گا یاجیل بھیج دیاجائے گا۔ مینڈیلا نے دروازے پر اسے خوش آمدیدکہا۔ سادہ سے کھانے کا اہتمام تھا۔کھانے کے بعد مینڈیلا نے پرسی کا شکریہ ادا کیا اور اسے معاف کردیا اور یہ کہاکہ وہ تو محض وکیل کی حیثیت سے اپنے فرائض پورے کررہاتھا۔ پرسی کئی دن دھاڑیں مارمارکرروتارہا۔
کرسٹوبرینڈ(Christo Brand)جیل کا ایک ملازم تھا۔ ایسا دیہاتی جوزیادہ تعلیم یافتہ بھی نہیں تھا تاہم وہ سمجھتا تھا کہ جنوبی افریقہ میں امن صرف اس لیے ہے کہ وہاں انگریز حکومت کررہے ہیں۔ اس کا تبادلہ روبن آئی لینڈکی جیل میں کردیاگیا۔جب ڈیوٹی پرپہنچا توجیلرنے بتایاکہ جیل میں دنیا کے خطرناک ترین مجرم رکھے گئے ہیں۔ اسے حکم دیا گیاکہ جانورنماانسانوں سے کم سے کم رابطہ رکھنا چاہیے اوریہ کسی رعایت کے حقدارنہیں ہیں۔ کرسٹو انتہائی درشت رویہ کا حامل تھا۔ڈیوٹی بی سیکشن میں لگادی گئی۔ یہاں کئی قیدی تھے۔ نیلسن مینڈیلاان میں سے ایک تھا۔جب وہ پہلی باراحاطے میں گیا توصبح کاوقت تھا۔
قانون کے مطابق تمام خطرناک قیدیوں کو ایک گھنٹے کے لیے کھولا گیا۔ مینڈیلاآہستہ آہستہ چلتا ہوا کرسٹو کے پاس آیااورپوچھنے لگاکہ تم نئے افسرہو۔کرسٹونے سختی سے جواب دیا'' دفع ہوجاؤاوراپنے کام سے کام رکھو'' مینڈیلا خاموشی سے اپنی کوٹھڑی کی صفائی میں مصروف ہوگیا۔کئی دن گزر گئے۔ دونوں کے درمیان کوئی مکالمہ نہ ہوا۔ ایک دن مینڈیلادوبارہ اس کے پاس آیا اور کہا کہ جیل کے احاطہ میں چندسبزیاں اورپودے لگانے کی اجازت دی جائے۔ کرسٹو نے پھراسکی بے عزتی کی اورانکارکردیا۔ گھر واپس آکر کرسٹو جیل کے قوانین کامطالعہ کرتارہا۔وہاں سبزیوں کے بیج فراہم نہ کرنے کے متعلق کوئی قانون نہیں تھا۔
کرسٹو نے خبطی بوڑھے کوچند بیج لادیے۔ مینڈیلانے مٹی میں کیاری بنائی اورکھرپہ سے تمام بیج لگادیے۔کرسٹونے محسوس کیاکہ عجیب قیدی ہے۔ یا تومطالعہ کرتارہتا ہے یا پھر کیاریوں میں پودوں کی دیکھ بھال کرتا رہتا ہے۔ بہرحال قوانین کے مطابق خطرناک قیدی سے بہت کم باتیں کرتا تھا۔کوئی ایساذہنی تشددنہیں جوکرسٹو نے منڈیلا پرنہ کیا ہو۔ جب مینڈیل صدر بنا، توکرسٹو کو بلوایا۔اس کے ساتھ ڈھیروں تصاویربنوائیںاور معاف کردیا۔معافی کی بازگشت پوری دنیامیں گونجی۔جنوبی افریقہ کے لوگوں میں صدرکا رویہ دیکھ کرصلح پسندی اور امن کے جذبات ابھرنے لگے۔
جنوبی افریقہ میں سب سے مقبول کھیل رگبی تھا۔ وہاں Spirng Bokنام کی ایک سفیدفام ٹیم تھی۔گہرے سبزرنگ کی بنیان پہنتی تھی۔ اس کے کھلاڑی سیاہ فام ٹیم سے نفرت کرتے تھے۔ رگبی کی اس ٹیم کوسفیدفام بالادستی کا نشان تصور کیا جاتا تھا۔ ٹیم سیاہ جلدوالوں کے لیے نفرت کانشان تھی۔ مینڈیلا کورگبی سے خاصا لگاؤتھا۔آزادی حاصل کرنے کے بعد ساؤتھ افریقہ میں رگبی کاورلڈکپ ہوا۔پوری دنیاسے کھیل کی مایہ نازٹیموں نے حصہ لیا۔سب کاخیال تھاکہ ملک کاصدراس ٹیم کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا۔بلکہ گمان تھاکہ اس ٹیم کو ٹورنامنٹ میں حصہ نہیں لینے دیا جائے گا۔مینڈیل انے سب کے اندازے غلط ثابت کردیے۔ میچ والے دن گہرے سبزرنگ کی شرٹ پہن کراسٹیڈیم میں آگیا۔ تماشائیوں کو سانپ سونگھ گیا۔
مینڈیلانے اسپرنگ بک کے حق میں نعرے لگانے شروع کردیے۔اس کے کپتان فرینکواس (Erancois) کوبلاکرگلے لگالیا۔کہاکہ ٹیم اب جنوبی افریقہ کی ٹیم ہے۔ اسے ہرقیمت پرجیتناہوگاکیونکہ یہ پورے ملک کی عزت کا سوال ہے۔فرینکواس اوراس کی ٹیم اس جذبے سے کھیلی کہ ٹورنامنٹ جیت گئی۔مینڈیلاسبزلباس پہنے میدان میں آیااور اپنے ہاتھوں سے کپتان کوٹرافی دی۔ اس نے دنیا کو پیغام دیا کہ وہ اپنے ملک کونسلی تعصبات سے آگے لے جانا چاہتا ہے اور اپنے دشمنوں کومعاف کرنے کاحوصلہ رکھتاہے۔
اب اپنے ملک پرنظرڈالیے۔کسی شعبہ پرغور کیجیے۔ خواہ وہ سیاسی ہو،سرکاری ہو،سماجی ہو،مذہبی ہویااقتصادی ہو۔ ہرجگہ آپکودرشتی،انتقامی ذہنیت اوربے رحمی کے اوصاف نظر آئیںگے۔سب سے پہلے سرکاری شعبہ سے شروع کروں گا۔ صرف اس لیے کہ میراتعلق اسی شعبہ سے ہے۔بہت سے ایسے افسروں کوجانتاہوں جنہوں نے اپنی پوری زندگی دوسروں کونقصان پہنچانے میں صَرف کردی ہے۔ اپنے سے پہلے موجود افسروں کی کمزوریاں نکال کرانھیں تکلیف پہنچانے کو ثواب سمجھتے ہیں۔عام لوگوں کوہروقت گالیاں دیتے ہیں۔ ان کی بے عزتی کرکے خوش ہوتے ہیں۔
سیاستدانوں کے عام سے سفارشی رقعوںکی فوٹوکاپیاں کراکراپنے جیسی منفی صفات کے مالک افسروں میں تقسیم کرتے ہیں۔بتاتے ہیں کہ آج فلاں اہم آدمی کے کہنے کے باوجودکام نہیں کیا۔ یہ نہیں بتاتے کہ کام میرٹ پرہونے والاتھا یا نہیں۔ میرے پاس درجنوں افسروں کے نام ہیں جنہوں نے پوری زندگی خلقِ خداکے فائدے کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ وہ اذیت پسندی کا ایسا نشان ہیں جنھیں ہمار انظام اپنی کمزوری کی بدولت برداشت کررہاہے۔
آپ سیاست پرنظرڈالیے۔تقریباًہرسیاستدان کی ایک معمولی سی خواہش ہے کہ اس کے مخالفوں کے سر درختوں سے لٹکے ہوں۔ مذہبی حلقوں نے اپنے اپنے مسلکی قلعے تیار کررکھے ہیں۔ہرفرقہ دوسرے کوکھرامسلمان نہیں سمجھتا۔ ایک دوسروں کوواجب القتل قراردیناعام سی بات ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کاروباری طبقہ بھی ایک دوسرے کے خلاف اسی طرح سربکف ہے۔ایک کانقصان دوسرے کا فائدہ ہے۔نجی شعبہ میں اقتصادی دشمنی عروج پرہے۔میں ہر شعبہ سے اَن گنت مثالیں دے سکتاہوں جہاں ایک دوسرے کے لیے صرف اور صرف انتقام اوربربادی کے جذبات ہیں۔
اپنے ملک کو ناکام ریاست بالکل نہیں سمجھتا۔مگراسے ایک مشکل سماج ضرورگردانتاہوں۔ہرشخص کسی نہ کسی اندھے انتقام کی آگ میں جل رہاہے۔اس کے دل میں یہ احساس موجزن رہتاہے کہ اپنے مخالف کوسبق ضرور سکھائے۔ صاحبان! یہاں زخموں پرمرہم رکھنے والے لوگ بہت ہی کم ہیں یاشائد خاموش ہوچکے ہیں۔کسی شعبہ میں نیلسن مینڈیلا جیسا بے لوث انسان نظرنہیں آتا جو اذیت پہنچانے والے کو بھی معاف کرنے کا ظرف رکھتا ہو!