بوسنیا سے شام تک
ان کا نام تیسما ایلیزوڈک ہے۔ آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں رہتی ہیں، ان کا تعلق بوسنیا سے ہے
ان کا نام تیسما ایلیزوڈک ہے۔ آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں رہتی ہیں، ان کا تعلق بوسنیا سے ہے، یہ ان مہاجرین میں شامل ہیں جو 90 کے عشرے میں جنگی تشدد سے بچتی بچاتی فساد زدہ علاقے سے دور چلی گئی۔ لیکن ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ان کے دل میں اپنے دیس میں ہونے والے مظالم آج بھی چٹکیاں لیتے ہیں، ان کا تعلق ایک نیوز ایجنسی سے ہے، انگریزی سے کچھ شدبد ہے، زندگی کی پچاس سے زائد بہاریں دیکھ چکی ہیں، مسلمان ہیں لیکن عام یورپی مسلمانوں کی طرح مغربی طرز کے کپڑے زیب تن کرتی ہیں۔
ہمارا تعلق بس اتنا ہی ہے جسے درد کا رشتہ کہا جاسکتا ہے۔ تیسما کے دل میں درد بہت ہے۔ ان کا بس چلے تو وہ دنیا کے ایک ایک شخص کو بتائیں کہ وہاں انسانوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے گئے۔ یہ ظلم چھپا ہوا نہیں ہے، سب جانتے ہیں کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی وہاں کیمپوں میں کیا کیا ظلم و ستم ہوئے، کیسے کیسے جواں اور خوبرو بھوک اور قحط سے اپنا وجود کھو بیٹھے، ہڈیوں کے پنجر، حسرت زدہ نظروں سے آج بھی ہم سب کی جانب دیکھ رہے ہیں، یہ نسل کشی اسی دنیا کی زمین پر کی گئی۔ زمین کو انسانوں کے وجود سے خالی کرانے کے لیے جو ترکیب سوجھی، کردی گئی۔
ایک ساتھ کئی سو نفوس کو قبروں میں دفن کردیا گیا۔ کیمپوں میں پٹرولنگ کے دوران مارنا اور تشدد کرنا عام بات تھی اور اسی طرح ٹارچر سے کئی لوگ مرجاتے۔ 1992-95 تک بوسنیا سلگتا رہا۔ سرب جنھیں آرمی کی مدد حاصل تھی انھوں نے اپنی عملداری اپنا علاقہ بچانے کے لیے پورے علاقے کو میدان جنگ بنادیا، جس کا بدترین نشانہ مسلمان بنے۔ ٹرانزیشنل جسٹس کے انٹرنیشنل سینٹر کے مطابق یوگو سلاویہ کی لڑائی کے درمیان ایک لاکھ چالیس ہزار لوگ اپنی جانوں سے گئے، ان اعداد و شمار میں شبہ پایا جاتا ہے، کچھ کے مطابق یہ تعداد اصل تعداد کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔
میرے دل میں تیسما کے لیے بہت عزت ہے۔ وہ آج بھی ان تمام لوگوں کو جو اپنی شناخت کی وجہ سے، اپنے ملک کی خاطر بدترین تشدد کے باعث اپنی جانوں سے گئے، مصروف عمل ہیں۔ یہ ایک قدرتی بات ہے خوف اور اذیت کے لمحے اتنی آسانی سے بھولنے والے نہیں ہوتے ، یہ دنیا کو احساس دلاتے ہیں کہ غیر قانونی طور پر دوسروں کی سرزمین پر قابض ہونا، ان کی املاک اور وسائل کو اپنا قرار دینا، لوگوں کی لاشوں کے انبار لگانا انسانی فعل نہیں ہے، اس سے سوائے کچھ وقت کے لیے ذہنی تسکین کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ کہیں بھی تباہی پھیلانے والے خود پرسکون نہیں رہتے، اس کا خمیازہ ان کی نسلوں کو بھرنا پڑتا ہے۔
تیسما ایلیزوڈک اور ان کے رشتے دار آج بھی اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں، ان میں سے کسی کا جوان بیٹا، کسی کا جوان بھائی، کسی کا باپ اور کسی کا قریبی عزیز ان کیمپوں میں اذیت کا نشانہ بنا۔ وہ آج بھی ان کی یاد میں اپنی محبتوں کے خاموش پھول چڑھاتے ہیں۔ ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی کے مطابق صرف منجاکا کیمپ میں تین ہزار سات سو سینتیس کے قریب قیدی تھے۔ گیارہ اگست 1992 کو شروع ہونے والی یہ نسل کشی کتنے خاندانوں کو نگل گئی۔
29 فروری 1991 میں ہونے والا ریفرنڈم بوسنیا ہرزیگووینا کے لیے ایک سیاہ تاریخ رقم کرگیا، اس ریفرنڈم کے نتائج کو بوسنیا کی سرب قیادت نے مسترد کردیا۔ گو وہ 32 فیصد اور مسلمان 44 فیصد آباد تھے لیکن سربوں نے اپنی الگ مملکت کا اعلان کردیا۔ اسے کیوں تسلیم کیا گیا، اس کے کیا مقاصد تھے، کیا وجوہات تھیں، لیکن جس مقصد کے تحت انسانوں کے وجود کو گاجر مولی کی طرح کیمپوں میں کچرے کی مانند بھرا گیا، اس پر دنیا میں کیا کچھ ہوا یا نہیں لیکن بے رحمی اور بے دردی کی کہانیوں سے صفحات بھر گئے۔ بیس ہزار سے زائد خواتین کی عصمت دری کی گئی جس میں مسلمان خواتین زیادہ شامل تھیں۔
بھوک، قحط، افلاس اور تشدد کے جس امتزاج نے انسانیت کی دھجیاں بکھیریں اس کے بیس برس بعد اسی طرح ایک اور باب کھل گیا اور اس بار ہیڈ لائن شام کے رنگ سے چمک رہی ہے۔ ہر بار اور زبردستی جبر کا نتیجہ ایک ہی طرح کا نکلتا ہے کبھی جلدی کبھی بدیر لیکن اس نتیجے تک پہنچنے تک کے درمیانی عرصے میں انسان آزمائشی ادوار سے گزرتا ہے، اس ٹرائل میں کون کامیاب رہتا ہے کون ناکام، شاید یہ سب اسی لیے ہوتا ہے لیکن انسان اپنے آپ کو بڑا زورآور، عقل مند اور سیاسی چالوں کا ماہر سمجھتا ہے۔
6 اپریل 1992 سے لے کر 1995 تک کا عرصہ یوگو سلاویہ کے لیے امتحان بنا رہا۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے بھی اس میں شامل ملزمان کے لیے مقدمات کے فیصلے منظر عام پر آتے رہے۔ لوگ روتے رہے، پھول چڑھتے رہے لیکن ایک کے بعد دوسرا پھر تیسرا۔ شاید رہتی دنیا تک یہ سلسلے چلتے رہیں گے، اس سے پہلے روس کی افغانستان پر بربریت کی داستان ایسی رقم ہوئی تھی جس کے اثرات آج بھی دنیا پر قائم ہیں۔ ان تمام حالات میں نقصان صرف انسانوں کا ہوتا ہے، انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر یہ نقصان بڑھتے رہتے ہیں۔
شام میں ہونے والی جنگی صورتحال سے کس کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان پہنچ رہا ہے لیکن اذیت تکلیف اور بھوک و افلاس کے جس عذاب سے جو انسان گزر رہے ہیں وہ کسی بھی رنگ یا نسل کے ہوں لیکن وہ ان کے بندے ہیں کہ جن کی ساری دنیا ہے جو غاصبوں کو بھی کھلا پلا رہے ہیں اور ظالموں کو بھی۔ پھر تعصب اور ان کی اور مذہبی جنونیت کے اس دور میں یہ کیسی چیٹنگ۔
شام کے ایک سات آٹھ برس کا وہ غذا سے محروم بچہ مسکراتے ہوئے ہم سب کو بتا رہا ہے کہ اسے ایک ہفتے سے کھانا نہیں ملا جس کی پسلیاں اس کے وجود سے جھانکتی ہم سے سوال کر رہی ہیں کہ میرا کیا قصور۔ مدایا وہ شہر ہے جہاں چالیس ہزار سے زائد نفوس بستے ہیں جہاں اکتوبر سے غذا نہیں پہنچی، یہ درختوں کے پتے ابال کر کھانے پر مجبور ہیں۔ کیا ہم کمپیوٹر کے دور میں رہتے ہیں ہمیں اجتماعی طور پر کچھ کرنا ہے یا بس انفرادی طور پر ہائے بے چارے کرتے رہ جانا ہے؟