ہمارے شہر زلزے کی فالٹ لائن پر
کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ کونسا ملک ہے، جو مکمل طور پر زلزلے کی فالٹ لائن پر ہے
MADINA:
کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ کونسا ملک ہے، جو مکمل طور پر زلزلے کی فالٹ لائن پر ہے اور اس ملک کا وہ کونسا شہر ہے جو اس فالٹ لائن پر دیگر شہروں سے زیادہ قریب ہے اور شہر کا وہ کونسا حصہ ہے جو فالٹ لائن کا مرکز ہے؟ اور کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس خطرے کے باوجود مذکورہ شہر میں دیگر تمام شہروں کہ بہ نسبت سب سے زیادہ بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں اور مزید تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، نیز اس شہر کا وہ حصہ جو زلزلے کی فالٹ لائن کا عین مرکز ہے، وہاں شہر کے تمام حصوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ بلند و بالا عمارتیں (فلیٹس) موجود ہیں اور ان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے؟
اس ملک اور شہر و علاقے سے جو زلزلے کے اعتبار سے سب سے خطرناک ہے، آپ سب واقف ہیں مگر یہ اور بات ہے کہ آپ کو اس کا نام نہیں پتہ، آیئے ہم آپ کو بتا دیتے ہیں۔ اس ملک کا نام پاکستان ہے، شہر کا نام کراچی اور علاقے کا نام گلستان جوہر ہے۔ اب یہاں کے باسی ناراض نہ ہوں، یہ سب باتیں راقم نے اپنے پاس سے نہیں گھڑیں بلکہ یہ انکشاف سینیٹ میں ایک کمیٹی نے پاکستان انجینیرنگ کونسل کے حوالے سے کیا ہے۔
اگر ہمارا ملک ، شہر اور علاقے زلزلے کی فالٹ لائن پر موجود ہیں تو یقینا اس میں نہ تو نواز شریف اور پاکستان پیپلزپارٹی سندھ حکومت کا کوئی قصور ہے نہ ہی اس سے پچھلی حکومتوں کا کوئی قصور ہے نہ ہے حکومتی اداروں کا قصور ہے، البتہ ان سب کا قصور ہے تو یہ کہ انھوں نے اس مسئلے کے علم ہونے کے باوجود آج تک اس حوالے سے کوئی تیاری نہیں کی نہ ہی ہمارے منتخب نمایندوں نے اس پر آواز بلند کی۔
یہ ایک انتہائی اہم ترین مسئلہ ہے راقم نے اپنے کالموں کے ذریعے متعدد بار اس طر ف توجہ بھی دلائی ہے کہ ہم بلند و بالا عمارتوں کے کلچر کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ کسی بھی حادثاتی صورت میں ہمارے ادارے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لیے کہ ایک تو ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے، جدید سہولیات نہیں ہیں پھر کرپشن کے باعث ہمارے ادارے قطعی غیر فعل ہیں۔
آپ ماضی کے حادثات دیکھ لیں، کہیں کوئی عمارت گری تو امدادی گاڑیایوں کا جائے وقوع تک پہنچنا مشکل ہوگیا جب کہ امدادی اداروں کے پاس جدید آلات بھی نہ تھے کہ وہ انسانی زندگیوں کو بچا سکیں، کراچی شہر میں ایک شخص قریب کوئی دس منٹ تک بالکونی سے لٹکا رہا، لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا، ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ گھروں میں یہ منظر بھی دیکھ رہے تھے مگر افسوس ہم اس نوجوان کی جان بچانے کے لیے کچھ نہ کرسکے، کر بھی کیا سکتے تھے کہ ہمارے اداروں کے بااختیار لوگ تو عوام کا پیسہ اپنی وی آئی پی پروٹوکول اور زندگی پر لگا دیتے ہیں۔
ذرا یاد کیجیے جب مارگلہ ٹاور زمین بوس ہوا تو ہمارے پاس امدادی کارروائی کے لیے کیا جدید آلات تھے؟ بیلچے، گینتی، بلڈوزر اور کرینیں؟ ان کے استعمال سے تو ملبے میں دبے ہوئے لوگوں کے جسم کے مزید ٹکڑے ہوسکتے تھے، چند روز بعد جب غیر ملکی امدادی ٹیمیں پہنچی تو انھوں نے جدید ٹیکنک کا استعمال کرتے ہوئے پہلے ملبے میں دبے ہوئے زندہ لوگوں کی سمت (لوکیشن) معلوم کی اور پھر ٹنل بناتے ہوئے انھیں زندہ نکالنے کی کوشش کی۔
ہمارے ادارے حادثات سے نمٹنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ کراچی شہر میں جب پہلی مرتبہ دو بڑی اسنارکل لائی گئی تو ایک سیاسی رہنما نے اس پر چڑھ کر اپنی سالگرہ کا کئی منزلہ کیک کاٹا۔ آج واٹرکینن کے ذریعے اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ کرنے والوں پر خوب پانی بھی برسایا جاتا ہے ، یہ خیالات تو اچھے اور اچھوتے بھی ہیں لیکن کیا کسی کو ابھی تک یہ خیال نہیں آیا کہ اس شہر میں گنتی کے کتنے فائر ٹینڈر ہیں اور ان میں بھی کتنوں میں پانی دستیاب ہوتا ہے؟ خدا نخواستہ کوئی بڑا حادثہ پیش آگیا تو روایتی ٹینڈر بھی مطلوبہ تعداد میں میسر نہ ہونگے ۔
کراچی کے گلستان جوہر میں بے شمار کئی کئی منزلہ رہائشی پلازہ ہیں جہاں صبح و شام لفٹ کے ذریعے لوگ نیچے اوپر آتے جاتے ہیں۔ ایک صاحب ثروت سرمایہ کار نے بھی اس شہر میں بلند ترین پلازہ بنا ڈالا اور ہم سب خوش ہیں کہ چلیں جی ہم بھی کم از کم عمارتوں کی نقالی میں تو ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ بن نے جارہے ہیں، آیئے ذرا لمحے بھر کو تصور کریں کہ خدانخواستہ اس شہر میں زلزلے کی تھرتھراہٹ ہوئی توکیا ہوگا؟
کیا ایسے میں دس، بیس یا پچاس منزلہ عمارت سے اترنے کے لیے لفٹ استعمال کریں گے؟ یقینا نہیں کیونکہ کوئی بھی عقلمند شخص ایسا نہیں کرے گا، پھر دوسرا راستہ کیا رہ جاتا ہے؟ زینے سے نیچے اترنا؟ اس قدر بڑی تعداد میں لوگ ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے، ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے بھگڈر مچاتے ہوئے نہیں گزریں گے؟ آخر اس قسم کی ایمرجنسی میں نیچے آنے کا کوئی اور بھی طریقہ ہو سکتا ہے؟ یقینا نہیں! تو پھر کیا کیا جائے؟ اس کا کیا حل ہے؟
سیدھی سی بات ہے کہ ہمیں کثیرالمنزلہ عمارتیں بنانا نہیں چاہئیں کیونکہ نہ ہمارا کلچر ایسا ہے کہ ہم اس کے تقاضے پورے کر سکیں نہ ہی ہم کسی حادثے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ تو ہم آگ لگنے کی صورت میں بالکونی میں لٹکے ہوئے کسی شخص کو بچانے کی اور نہ ہی کسی فیکٹری میں لگی آگ سے سیکڑوں لوگوں کی زندگی کو بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست کے مطابق کراچی شہر میں ریڈیو پاکستان والے روڈ پر ایک کثیرالمنزلہ عمارت ہے جو رمپا پلازہ کے نام سے مشہور ہے، یہاں زیادہ تر مختلف امراض کے ڈاکٹر اور اسپیشلسٹ بیٹھتے ہیں، عموما ً یہاں صرف ایک لفٹ کام کرتی ہے جس پر اور پر جانے کے لیے انتہائی رش ہوتا ، بزرگ مریضوں کو بھی قطار میں لگ نا ہوتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بزرگ مریض جیسے تیسے کرکے اوپر کی منزل پر پہنچ تو جاتے ہیں مگر واپسی پر مجبوراً سیڑھیوں سے اترنا پڑتا ہے کیونکہ ہر منز ل پر لفٹ کے بٹن ناکارہ ہیں، لفٹ کے دروازے کو مریض ہاتھ سے پیٹتے ہیں اگر لفٹ میں سوار کسی کو خیال آجائے تو وہ مذکورہ منزل پر روک دیتا ہے ورنہ مریض بیچارہ تھک ہار کر سیڑھیوں سے ہی نیچے آنے پر مجبور ہوتا ہے۔ بھٹو نے اپنے دور میں لیاقت آباد میں عوام کے لیے کئی منزلہ سپر مارکیٹ بنا کردی، یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور یو ں وہ مقصد پورا نہ ہو سکا، جس کے استعمال کے لیے یہ تعمیر کی گئی تھی۔ ایسی بہت سی مثالیں یہاں دی جا سکتی ہیں لیکن کالم کی گنجائش اس کی اجازت نہیں دیتی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے منتخب نمایندے ، ادارے اور حکومت میں شامل منصوبے بنانے والے اس بات پر سنجیدگی سے غور کرلیا کریں کہ جو منصوبے وہ عوام کو دینے جا رہے ہیں کیا وہ ہمارے مزج اور کلچر سے مطابقت بھی رکھتے ہیں؟۔