امنڈتے ہوئے نئے خطرات
2006 میں ہونے والے میثاق جمہوریت میں اس ادارے کو ختم کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا تھا
KARACHI:
قومی احتساب بیورو (NAB)کے بارے میں وزیر اعظم کے بیان کے بعد شروع ہونے والے مباحثے نے وفاق اور پنجاب کے وزرا کی غیر ذمے دارانہ بیان بازیوں کے بعد سنگین شکل اختیار کر لی ہے۔ دراصل وزیر اعظم نے بہاولپور میں جلسے کے دوران جس انداز میں NAB کو تنقید کا نشانہ بنایا، اس نے گورننس کے حوالے سے بعض نئے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ میاں صاحبان کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ پارلیمان سے اغماض برتے ہوئے، شہنشاہوں کے انداز میں فیصلے کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ صرف ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے، بلکہ سیاسی عمل کے تسلسل کے متاثر ہونے کے خدشات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔
ماہرین آئین و قانون کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم جلسہ عام کے بجائے اس مسئلے کو پارلیمان میں اٹھاتے تو اصلاح احوال کے لیے خاصی وسیع گنجائش پیدا ہوسکتی تھی کیونکہ ریاستی اداروں میں تطہیر و تنظیم نو وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔ اس لیے احتساب کمیشن کے قیام میں انھیں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، مگر انھوں نے مذکورہ تقریر کرکے معاملات کو الجھا دیا ہے۔
اس کے علاوہ ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کی رو سے NABکے سربراہ کا تقرر تو قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلافات کی باہمی مشاورت سے کیا جاتا ہے، لیکن اسے قبل از وقت عہدے سے ہٹانے کا وزیراعظم کو اختیار حاصل نہیں ہے۔ چیئرمین کے بارے میں کسی قسم کے سنگین الزامات سامنے آنے کی صورت میں وزیراعظم صرف اس کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کرسکتے ہیں، جواس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی مجاز اتھارٹی ہے ۔
لہٰذا اب اگر وہNABسے بالادست کوئی کمیشن قائم کرنا چاہیں گے، تو قانون سازی کے باوجود اس اقدام کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا جانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ نتیجتاً اغلب گمان بھی یہی ہے کہ عدالت عظمیٰ NABکے پر کترنے کے اس عمل کو کالعدم قرار دیدے جس کے نتیجے میں وزیر اعظم سمیت ان کی جماعت کو پریشانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آسکے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کے بیان کے بعد جو وزرا نے لنگوٹ کس کر میدان میں اترے تھے، اب آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہورہے ہیں اور اپنے سابقہ بیان کی مختلف تاویلات پیش کررہے ہیں۔
پچھلے اظہاریے میں ہم لکھ چکے ہیں کہ احتساب کا ادارہ اپنے قیام (1999) کے وقت سے احتساب کے بجائے سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ میاں نوازشریف کی دوسری حکومت نے سیف الرحمان کی سربراہی میں یہ ادارہ دراصل پیپلزپارٹی کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے قائم کیا تھا۔ لہٰذا اس وقت سے اس کی تشکیل، تنظیم اور طریقہ کار میں کئی خامیاں،اسقام اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے مخصوص سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر اس کی تشکیل نو کی اور اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔
انھوں نے مسلم لیگ(ن) کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے علاوہ2002ء کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں توڑ پھوڑ کے لیے بھی استعمال کیا۔ اس لیے یہ طے ہے کہ اس ادارے کی تنظیم نو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مگر اس وقت جب کہ یہ معاملہ متنازع بن چکا ہے، کوئی مثبت اقدام بھی منفی نتائج کا حامل ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اس وقتNAB کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جمہوریت اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ عوام سیاسی رہنماؤں کو چور سمجھتے ہوئے جمہوریت مخالف کسی بھی اقدام کے خلاف مزاحمت نہیں کریں گے۔
2006 میں ہونے والے میثاق جمہوریت میں اس ادارے کو ختم کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا تھا، لیکن نہ جانے کن مصلحتوں کے تحت میاں نواز شریف نے اسے دوبارہ فعال کردیا۔ ابتدا میں جب اس کا نشانہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بنیں، تو مسلم لیگی رہنماؤں نے بغلیں بجائیں، لیکن جیسے ہی NAB نے پنجاب کا رخ کیا اور وزیراعظم کے بعض چہیتے ا س کی زد میں آنا شروع ہوئے، تو مسلم لیگ(ن) کے اندرونی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ وزیر اعظم نے بہاولپور کے جلسے میں اس ادارے کو ہدف تنقید بنا ڈالا۔ اس بیان نے ان کی حکومت کی Credibilityکو متاثر کردیا ہے۔
ان صفحات پر بارہا یہ نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان کا اصل اور سب سے بڑا مسئلہ گورننس بحران کا ہے۔ جس کی وجہ سے دیگر مسائل پیدا ہوکر پیچیدہ ہورہے ہیں۔ملک کے سیاہ وسپید پر ایک مخصوس اشرافیہ قابض ہے، جواسٹبلشمنٹ کے ایک مختصر سے ٹولے اور سیاستدانوں کے ایک موقع پرست گروہ پر مشتمل ہے۔اس طبقے نے منصوبہ سازی اور طاقت کے تمام مرکز کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ یہ طبقہ اتنا چالاک اور عیار ہے کہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو اپنے زر خرید و ہمنوا صحافیوں کے ذریعے کامیابیوں کے طور پر مشتہر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
گزشتہ پیر کو سابق سینیٹر طارق کھوسہ نے اپنے مضمونPower of the establishment میں انتہائی جرأت کے ساتھ اس بارے میں بعض چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حکمران اشرافیہ کوتاہ بین ہے ، کیونکہ ریاست و سیاست پر اپنی بالادستی کے لیے ہر جائز و ناجائز اقدام کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ ساتھ ہی عوام کو درپیش مسائل کا حل پیش کرنے میں دانستہ پس وپیش اور تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ عوام کو اپنے سحر میں گرفتار رکھ کر مطیع وفرمانبرداربنائے رکھا جائے ۔
اس حقیقت سے ملک کا ہر شہری واقف ہے کہ وطن عزیز کا سب سے اہم مسئلہ مذہبی انتہاپسندی ہے، جس نے دہشت گردی کے مظہر کو جنم دیا ہے۔ اس سے جڑا ہوا مسئلہ دہشت گردی کی فنانسنگ ہے چونکہ مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں حکمران اشرافیہ کے متضاد نقطہ ہائے نظر(Perception) پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خراب حکمرانی اور ریاستی اداروں میں حد سے بڑھی ہوئی کرپشن اور بدعنوانی کے باعث مختلف سنگین جرائم کی سرپرستی کا باعث بنی ہوئی ہے۔
یہ جرائم دہشت گردی کی فنانسنگ کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ جن میں اغوا برائے تاوان، بینک ڈکیتیاں وغیرہ شامل ہیں۔ کرپشن کی وجہ سے انتظامی اداروں کے ذمے داروں کی آنکھوں پر موقع پرستی کی دبیز تہہ جم چکی ہے۔ جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے یہ رپورٹس آرہی ہیں کہ NADRA کے عملے کے کچھ ارکان نے رشوت لے کر ہزاروں کی تعداد میں جرائم پیشہ غیر ملکی باشندوں بالخصوص افغان شہریوں کو قومی شناختی کارڈزجاری کیے ہیں۔
اسی طرح بڑے جرائم کے ساتھ چھوٹے جرائم پیشہ گروہوں کو بھی کھل کر کارروائیاں کرنے کے لیے کھلا میدان مل گیا ہے، جو اسٹریٹ کرائم کے ذریعے لوٹ مار میں مصروف ہیں چونکہ جرائم پیشہ گروہوں کو سیاسی اشرافیہ اور اسٹبلشمنٹ کے بعض حلقوں کی سرپرستی حاصل ہے، اس لیے پولیس سمیت انتظامی اداروں کے اہلکار اور افسران بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں چنانچہ آئے دن یہ خبریں اخبارات اور برقی ذرایع ابلاغ کی زینت بنی رہتی ہیں کہ فلاں تھانیدار یا پولیس افسر اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیوں میں ملوث ہونے پرگرفتار کرلیا گیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ریاستی انتظامی ادارے کس حد تک فرسودگی اور بدعنوانیوں کا شکار ہوچکے ہیں جو ملک و معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلنے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
ہر ذی ہوش پاکستانی کے علم میں ہے کہ پاکستان گزشتہ تیس برس سے بالعموم اور دس برس سے بالخصوص ایک ایسی چومکھی لڑائی میں گھر چکا ہے، جس کے مستقبل قریب میں منطقی انجام تک پہنچنے کے آثار نظر نہیں آرہے۔ اس پوری صورتحال کا براہ راست نشانہ کراچی سے خیبر تک بے بس و لاچار عوام ہیں، جو بجلی اور گیس کے طویل ناغوں، بے روزگاری، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور امن وامان کی ابتر صورتحال کے عذاب میں گھرے ہوئے ہیں۔
محسوس یہ ہورہا ہے کہ پاکستان جس راستے پر چل رہا ہے یا اسے چلنے پر مجبورکیا جا رہاہے، اس کے پس پشت کئی دیدہ اور نادیدہ عوامل ہیں جنھیںسیاسی جماعتوں میں پائے جانے والے عدم اعتماد اور سیاسی بصیرت کے فقدان نے مزید پیچیدہ اور سنگین بنادیا ہے۔ بیشتر سیاسی رہنماء ایسے ہیں، جو ملک کے معروضی حالات، عالمی سوچ میں آنے والی تبدیلیوں اور خطے کی تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کو سمجھنے کا ویژن نہیں رکھتے۔ وہ محض سطحی سوچ کی بنیاد پر مسلسل کنفیوژن پھیلا رہے ہیں جب کہ کچھ سیاسی رہنما بعض نادیدہ قوتوں کے آلہ کار بن کر جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔
انھیں اس سے غرض نہیں کہ اس وقت ملک کہاں کھڑاہے؟ آنے والے دنوں میں اس کی پوزیشن کیا ہونے جارہی ہے اور اس کے قومی سلامتی اور ملک کی بقاء کی مجموعی صورتحال پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ؟ایسی صورتحال میںسوچنے کی بات یہ ہے کہ نئے تنازعات کھڑے کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔