ہم کہاں جا رہے ہیں
بدقسمتی سے ہم نے پٹھانکوٹ حملے کی ایف آئی آر اپنے ہاں درج کرا کے پھر ایک نئی مصیبت کو دعوت دے دی ہے
ISLAMABAD:
بدقسمتی سے ہم نے پٹھانکوٹ حملے کی ایف آئی آر اپنے ہاں درج کرا کے پھر ایک نئی مصیبت کو دعوت دے دی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پٹھانکوٹ حملے کے سلسلے میں تو خود بھارتی حکومت تذبذب کا شکار ہے، ان کے اپنے میڈیا پر شبہ ظاہرکیا جا چکا ہے کہ یہ کارروائی اندرونی دہشت گردوں کی ہے۔ پٹھانکوٹ حملے پر تو عالمی میڈیا نے بھی کئی سوالات کھڑے کیے تھے اور اسے کسی غیر ملک کی کارروائی تسلیم کرنے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
بی بی سی لندن نے بھی اپنی ویب سائٹ پر اس حملے پر زبردست شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا اس نے لکھا تھا کہ اس واقعے کے بارے میں سوالات بہت ہیں مگر جواب کوئی نہیں ہے۔ پٹھانکوٹ کی پولیس پر بھی انگلیاں اٹھائی گئی تھیں کہ اس بیانات میں بھی تضاد تھا۔ متاثرہ ایئربیس کے قریب ہی بھارت کی پچاس ہزار فوج تعینات ہے، چنانچہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کے ایئربیس کے قریب ہی موجود ہونے کے باوجود یہ حملہ کیوں کر ممکن ہو سکا؟ بھارتی فوج اتنی بڑی تعداد میں بمعہ جدید جنگی سازوسامان کے پاکستانی سرحد سے صرف 35 میل دور موجود ہے۔
بھارتی فوج کا پاکستانی سرحد سے اتنے قریب اتنا بڑا اجتماع یقینا پاکستان کی سلامتی کے لیے کھلا چیلنج ہے۔ اب پٹھانکوٹ کے سلسلے میں گوجرانوالہ میں ایف آئی آر درج کرا کے بھارتی حکومت کو یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ پاکستان اس کی دلجوئی کے لیے ہر وقت تیار ہے لیکن یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ ہماری حکومت محض مذاکراتی عمل کو ممکن بنانے کے لیے بھارت کی دلجوئی کر رہی ہے مگر کیا بھارت مذاکرات کے سلسلے میں پہلے کبھی مخلص تھا اور کیا اب آگے اس سے کوئی اچھی امید رکھی جا سکتی ہے۔ ادھر امریکا کی جانب سے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فروخت کی خبر مودی کو پاگل کر دینے والی ثابت ہوئی ہے۔
انھیں پورا یقین تھا کہ اوباما بھارت کے مفاد کے خلاف نہیں جا سکتے۔ انھوں نے اوباما کی دہلی آمد کے موقعے پر انھیں خود چائے بنا کر پیش کر کے اور میٹھی میٹھی باتیں کر کے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب وہ ان کی مٹھی میں آ چکے ہیں وہ اپنے اس بھرم کے ذریعے بھارتی عوام کو بھی باور کرا چکے تھے کہ وہ اب اوباما کے اتنے قریب پہنچ چکے ہیں کہ وہ ان سے بھارت کے مفاد میں کچھ بھی کرا سکتے ہیں ساتھ ہی پاکستان کے لیے ایسی مشکلات کھڑی کرا سکتے ہیں کہ وہاں کے حکمرانوں کو اپنی اصلیت یاد آ جائے۔ تاہم اب تو ایف 16 طیاروں کی پاکستان کو فروخت کے معاملے نے اس کے بھرم کو چکنا چور کر دیا ہے۔
ایف 16 طیاروں کی پاکستان کو فروخت رکوانے کے لیے انھوں نے لاکھ جتن کیے مگر ناکام رہے۔ آخر طیش میں آ کر امریکی سفیر کو طلب کر لیا۔ لگتا ہے اسے بھی مجبورکیا گیا ہو گا کہ وہ اس ڈیل کو رکوائے مگر بھلا بیچارہ سفیرکیا کر سکتا تھا۔ دراصل ایف 16 طیاروں سے بھارتی حکومت ہی نہیں بلکہ عوام بھی پہلے سے ہی خوف زدہ ہیں جب پہلی دفعہ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکا نے پاکستان کو یہ طیارے فروخت کیے تھے تو پورے بھارت میں خوف و ہراس کی فضا پھیل گئی تھی۔
دراصل یہ طیارے ہیں ہی اتنے خطرناک کہ پوری دنیا میں ان کا چرچا ہے۔ بھارت نے انھیں حاصل کرنے کی بہت کوشش کی تھی مگر وہ ناکام رہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت بھارت روسی جنگی ساز و سامان اور طیاروں کا پکا خریدار تھا چنانچہ امریکا اپنے ان جدید ترین طیاروں کو بھارت کو فروخت کر کے ان کی ٹیکنالوجی کا راز روس تک نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ بھارت نے روس سے سیکڑوں مگ طیارے خریدے تھے جنھیں اب گراؤنڈ کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ وہ اب اپنا وقت پورا کر چکے ہیں مگر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کی مشینری وقت سے پہلے ہی جواب دے چکی ہے۔ اب تک کتنے ہی مگ 21 طیارے گر چکے ہیں جن میں درجنوں پالٹ ہلاک ہو چکے ہیں۔ اب بھارت نے روس کے ٹوٹنے کے بعد دوسرے ممالک سے بھی اسلحہ خریدنا شروع کر دیا ہے۔
اس وقت وہ دنیا میں چین کے بعد اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ ایک کالم میں راقم کے بھارت اور اسرائیل کی اسلحے کی ڈیل سے آگاہ کیا تھا۔ بھارت اسرائیل سے بڑی تعداد میں جدید ترین ہتھیار اور طیارے خرید رہا ہے۔ یہ اسلحہ امریکی اسلحے سے بھی زیادہ موثر اور خطرناک ہے۔ ابھی حال میں اس نے فرانس سے بھی جدید ترین طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ بھارت خود سیکڑوں جنگی طیارے خرید رہا ہے مگر اسے امریکا کی طرف سے صرف آٹھ ایف 16 طیارے پاکستان کو فروخت کرنا برداشت نہیں ہے۔ امریکی حکومت نے بھارت کے اعتراض کو کوئی وقعت نہیں دی۔ اس کے ترجمان نے واضح طور پر بھارتی حکومت کو متنبہ کیا کہ پاکستان کو دیے جانے والے طیارے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی استعداد میں اضافہ کریں گے اس سے امریکی مقاصد پورے ہوں گے۔
اس کے بعد سے ایف 16 طیاروں سے متعلق بھارتی حکومت کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ مودی جی اپنی سوا ارب کی منڈی کو امریکا کی کمزوری سمجھ بیٹھے تھے۔ اوباما سے دوستی کر کے غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے۔ مودی کو معلوم ہونا چاہیے کہ امریکی ہر کام اپنے ملکی مفاد میں کرتے ہیں وہ اپنے ملک کے مفادات کو ہر ملک پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ دراصل بھارت کی دلجوئی بھی محض اپنے ملکی مفادات کے تحت ہی کرتے ہیں مودی جی چونکہ اب تک صوبائی اور علاقائی سیاست سے وابستہ رہے ہیں اور ان کا عالمی سیاست سے تعلق نہیں رہا ہے چنانچہ وہ عالمی سیاست کے راز و نیاز سے بالکل ناواقف ہی کہے جا سکتے ہیں۔
بھارت کے اندرونی حالات دن بہ دن خراب سے خراب تو ہوتے جا رہے ہیں۔ عدم برداشت کا رویہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ دہلی کی جواہر لعل یونیورسٹی میں شہید افضل گورو کی برسی کے موقعے پر کشمیری طلبا کی جانب سے ریلی نکالنے اور کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے لگانے پر بی جے پی کے غنڈوں نے کشمیری طلبا کے علاوہ ریلی میں شریک ہندو طلبا پر بھی تشدد کیا، ساتھ ہی ان پر غداری کا مقدمہ دائر کر دیا۔ یونیورسٹی کی طلبا یونین کے لیڈر کنہیا کمار کو مقدمے میں ملوث کر کے اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اس کی عدالت میں پیشی کے وقت وکلا کی ایک ٹولی نے اس سمیت دیگر طلبا پر زبردست تشدد کیا ہے لگتا ہے بھارت میں نہ صرف سیاست داں بلکہ انصاف کے رکھوالے وکلا بھی عدم برداشت کے حامی بن گئے ہیں۔ جہاں تک کشمیریوں کی آزادی کا معاملہ ہے، اب ان کی حمایت میں بھارت میں آواز بلند ہونے لگی ہے، جیساکہ دہلی کی نہرو یونیورسٹی میں ہوا۔ چنانچہ مودی جی کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے پر فوری توجہ مرکوزکریں ورنہ ایسا نہ ہوکہ آسام اور ناگا لینڈ کی آزادی کے حق میں بھی آوازیں بلند ہونے لگیں۔