معصوم لوگ اور کڑا احتساب

سب سے بڑی بدقسمتی اور المیہ یہ ہے کہ ہم من حیث القوم ایک ایسے معاشرے اور سماج میں تبدیل ہوچکے ہیں


MJ Gohar February 25, 2016

قومی زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ ایسا معتبر اور قابل اعتماد ہو جہاں جھوٹ، فریب کاری، دھوکا دہی، بدعنوانی، ملمع کاری، دو عملی، کرپشن، تعصب ودیگر معاشرتی و سماجی قباحتیں، کمزوریاں، خامیاں اور نقائص موجود نہ ہوں۔

سب سے بڑی بدقسمتی اور المیہ یہ ہے کہ ہم من حیث القوم ایک ایسے معاشرے اور سماج میں تبدیل ہوچکے ہیں جہاں اپنے گریبانوں میں جھانکنے اور اپنی اصلاح کی روایت ہی نہیں، ہمیں اپنی آنکھوں کے شہتیر اور مختلف النوع آرائشوں سے آلودہ اپنے دامن نظر ہی نہیں آتے بلکہ دوسروں کی آنکھوں کے بال اور دامن کے داغ سات پردوں کے پیچھے بھی نظر آجاتے ہیں۔

جب تک ہمارے عیب چھپے رہتے ہیں، ہم کشاں کشاں دوسروں کے جرائم طشت ازبام کرنے میں مگن رہتے ہیں اور جب ہماری باری آتی ہے تو ہم آہ و فغاں شروع کردیتے ہیں کہ ہم تو معصوم اور بے گناہ ہیں، ہمارے ساتھ ظلم ہورہا ہے، ہمیں ناحق رسوا کیا جارہا ہے۔ ہمارے اجتماعی رویے ہرگز ایک مہذب اور با شعور قوم کی پہچان قرار نہیں دیے جاسکتے۔ نیچے سے لے کر اوپر تک ایک ہی طرح کی صورت حال ہے جو نہایت افسوس ناک ہے۔

اس کی ایک تازہ مثال وزیراعظم میاں نواز شریف کی احتساب کے قومی ادارے نیب پر اظہار برہمی اور شدید تنقید سے دی جاسکتی ہے۔ انھوں نے بہاولپور میں بلدیاتی نمایندوں و لیگی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نیب حکام سرکاری افسران کو ڈراتے دھمکاتے ہیں، نیب والے معصوم لوگوں کے گھروں اور دفتروں میں گھس جاتے ہیں۔ تصدیق کے بغیر معصوم لوگوں کو تنگ کرنا ناقابل برداشت ہے۔

افسروں کو ڈرانا اور ان کی عزتیں اچھالنا ٹھیک نہیں، نیب اپنے دائرے میں رہے ورنہ کارروائی کریںگے۔ وزیراعظم نے جوش خطابت میں بالواسطہ طور پر یہ بھی کہہ دیا کہ حکومتیں عوام کے ووٹوں سے بنتی اور توڑتا کوئی اور ہے۔ یہاں کوئی اور سے جس ادارے کی جانب اشارہ کیا ہے نکتہ داں اسے خوب سمجھتے ہیں۔

وزیراعظم کی جانب سے نیب پر برہمی، کارروائی کرنے کی دھمکی اور حکومت توڑنے والوں کو یہ تنبیہ کہ اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے کے بیان پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں مختلف زاویوں سے بحث کی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سندھ کے بعد اب اگلے مرحلے میں پنجاب میں بدعنوانی و کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی تیزی سے تیاری ہے ۔

سرکاری افسران نے وزیراعظم سے ملاقات کرکے اپنی معصومیت و بے گناہی کی دہائی دی ہے اور فریادیں کی ہیں اور چوں کہ کارروائی کی زد میں بعض حکومتی شخصیات اور سیاست دان جن کا تعلق مسلم لیگ ن سی ہے گرفت میں آسکتے ہیں اس لیے وزیراعظم نے پیش بندی کے طور پر جارحانہ رویہ اپنایا ہے۔ یہاں مبصرین و تجزیہ نگار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب سندھ میں سرکاری دفاتر میں چھاپے مارے جا رہے تھے اور سابق صدر آصف علی زرداری اور بلال بھٹو سے لے کر وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ تک سب وفاقی حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروارہے تھے تو وزیراعظم اور وفاقی وزرا نے گہری خاموشی اختیار کر رکھی تھی اور صوبائی حکومت کی شکایتوں کے ازالے کی بجائے وفاق کا ہر نمایندہ احتساب کے حوالے سے سندھ میں کارروائیوں کو درست اقدام قرار دے رہا تھا۔

لیکن آج جب ہاتھ پنجاب کی طرف بڑھنے لگا ہے تو حکمران پیچ و تاب کھا رہے ہیں، جو سراسر دو عملی رویہ ہے۔ مسلم لیگ ن کا اب اپوزیشن سے احتساب قوانین میں ترمیم اور ایک آزاد کمیشن کے قیام میں مشاورت، معاونت اور تعاون کی اپیلیں کرنا کیا اس بات کی علامت نہیں کہ سندھ میں وفاقی اداروں کی کارروائیوں پر پیپلزپارٹی کی شکایات میں وزن ہے؟ اور اگر وفاقی حکومت بروقت اقدام کرتی تو سندھ اور وفاقی میں فاصلے پیدا نہ ہوتے لیکن ن لیگ کی سیاست کی پہچان یہ ہے کہ جب تک اس کے مفادات پر براہ راست زد نہ پڑے وہ دوسروں پر ضرب لگاتی رہتی ہے۔

آججب اپنی حکومت خطرے میں نظر آرہی ہے تو اپوزیشن کو گلے لگایا جا رہا ہے، لیکن ہوم ورک تیز کردیا گیا ہے اور اگلے 10سے 15 دنوں میں اہم مقدمات فائل ہونے والے ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں بھی نیب نے جو فہرست جمع کروائی ہے اس میں اپوزیشن اور حکومت کے اہم لوگوں کے نام شامل ہیں۔ کارروائی میں تیزی آنے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

اگر قوانین میں سقم کمزوریاں موجود ہیں تو ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے جس پر باہمی مشاورت سے بہت پہلے کام کرلیا جانا چاہیے تھا۔ شفاف، منصفانہ، بے لاگ اور بلا تفریق سب کا کڑا احتساب ہونا چاہیے اور کسی فرد یا ادارے کو مقدس گائے کا درجہ دے کر استثنیٰ نہیں ملنا چاہیے۔

کرپشن و بدعنوانی معاشرے کا ناسور ہے اور پاکستان میں یہ ناسور اس قدر جڑیں گہری کرچکا ہے کہ اس کا کلی خاتمہ تقریباً نا ممکن ہے، لیکن ہمارے ہاں انتقامی کارروائیاں کرنا ایک ناپسندیدہ روایت بنتی جا رہی ہے، جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک برسر اقتدار ہر حکمران نے احتساب کا نعرہ لگایا اور مخالف سیاسی قوتوں کو بطور خاص انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ احتساب کے اداروں نے کبھی کسی مقدس گائے کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا۔

یہی وجہ ہے کہ بڑی مچھلیاں کسی احتساب کے خوف کے بغیر ''مال مفت دل بے رحم'' کے مصداق قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف رہیں، ان کی معصومیت پہ کوئی سوال نہیں اٹھاسکتا کیوں کہ ان کی بے گناہی انصاف کے ہر ایوان میں ثابت ہوجاتی ہے مجھے کہنے دیجیے کہموجودہ حکومت اور آنے والی کوئی بھی حکومت ایسے معصوم لوگوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کڑا بلا تفریق اور شفاف احتساب کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں