کیاسرکاری ملازم ہوناجرم ہے
سی ایس ایس یاکوئی بھی مقابلے کاامتحان آسان کام نہیں ہے۔
سی ایس ایس یاکوئی بھی مقابلے کاامتحان آسان کام نہیں ہے۔ بھرپورتیاری اورپھرایک صبرآزما چھلنی سے گزرنا سخت محنت طلب کاوش ہے۔صرف محنت کالفظ استعمال کرنا مناسب نہیں،دراصل یہ ایک ریاضت ہے۔ مجھے صرف سی ایس ایس کے امتحان کاتجربہ ہے۔مگرصوبائی سطح پربھی میرٹ پربہترنوکری حاصل کرناجوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔
ذہین ترین لڑکے اورلڑکیاں بغیرکسی سفارش کے پاکستان ایڈمنسٹریٹیوسروس سے لے کرپولیس، فارن آفس، کسٹمزاور دیگر وفاقی ملازمتیں حاصل کرتے ہیں۔بغیرکسی سفارش کالفظ اس لیے اہم ہے کہ آج تک فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں کوئی ایسی بے ضابطگی دیکھنے کونہیں ملی جس سے نتیجہ اخذ کیا جاسکے کہ وہاں پیسہ،سفارش یادباؤکے ذریعے کسی حقدارکواس کے جائزحق سے محروم کردیاگیاہے۔
اس بات کی دلیل ایک اور طریقے سے بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ہمارے ملک کے اہم ترین لوگوں کی اولاد اکثر مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل نہیں کرپاتی۔وہ اپنے کسی عزیز،رشتہ دارکوکسی بھی سطح پردباؤ یا سفارش سے کہیں اور ملازمت دلواسکتے ہیں مگرمقابلے کے امتحان میں کامیاب نہیں کراسکتے۔ میری گزارشات ان نوجوان بچوں اوربچیوں کے لیے ہیں جو شفاف طریقے سے مقابلے کے امتحان میں اپنا لوہامنوا کر عملی میدان میں آتے ہیں۔ میں نے سندھ میں کام نہیں کیا۔
وہاں صوبائی پبلک سروس کمیشن کے کیاحالات ہیں،اس کے متعلق کوئی خاص علم نہیںرکھتا۔میراتجربہ زیادہ ترپنجاب ہی کا ہے اورتھوڑا سا انتظامی تجربہ بلوچستان کابھی ۔خیبرپختونخواہ کے متعلق میری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ میرا دوسرا تجربہ لاہور ایڈمنسٹریٹیوسٹاف کالج میں کام کرنے کا ہے ۔
یہاں تین سالہ بیش قیمت وقت گزارا ہے جہاں چارسوکے قریب ہرگروپ، ادارے اورحکومت کے افسران کو پرکھنے کا ایک نادرموقع ملا تھا۔ان کی علمی،فکری اورذہنی ساخت کوجانچنے کاعملی تجربہ بھی رہا ہے۔مقابلے کے امتحان اورسٹاف کالج لاہورکے تجزیہ کو ملا کر بلاخوف تردیدکہہ سکتاہوں کہ ہمارے ملک میں انتہائی ذہین، فعال اورسمجھدارافسروں کی قطعاًکوئی کمی نہیں ہے۔
اسی زاویہ کوآگے بڑھاتے ہوئے عرض کروںگاکہ سرکاری سطح پربیس سے پچیس غیرممالک میں زیرتربیت افسران کے ساتھ جانے کانادرموقعہ میسرآیا ہے۔وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ پاکستان کی بیوروکریسی کسی بھی لحاظ سے کسی بھی ملک سے ادنیٰ نہیں۔ترقی پذیرممالک کاذکر تو چھوڑ دیجیے۔ فرانس، اٹلی، یوکے اورامریکا کی سطح کے ملکوں کے سرکاری شعبہ پرگہری عملی نظررکھتاہوں۔ہمارے سرکاری ملازمین صلاحیت میں، ترقی یافتہ ممالک کے سرکاری شعبہ کے برابر ہیں۔اب اس تمام صورتحال کے مشکل پہلوکی جانب آتاہوں۔
آپ کے ذہن میں میرے لکھے ہوئے ابتدائی حصہ کے متعلق بے تحاشا منفی سوالات ہوں گے۔ کرپشن، سست روی،سرخ فیتہ اورجانبداری وہ سنگین الزامات ہیں جو سرکاری مشینری پرہروقت بلکہ ہرلمحہ لگائے جاتے ہیں۔ ان میں کافی حدتک صداقت بھی ہے مگریہ پوراسچ نہیں ہے اور یہ پوراجھوٹ بھی نہیں ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ آدھے سچ کوثابت کرنا مشکل اورکٹھن ہے۔
پچھلے چھ دہائیوں کے اخبارات جریدے اور رسائل جمع کیجیے۔ان کا بغورمطالعہ فرمائیے،آپ کوایک حیرت انگیز تسلسل نظرآئیگا۔کسی بھی دورِ حکومت میں سرکاری ملازم کو ملامت کرنے کا رجحان یکساں ہے۔ ان کی کارکردگی کوکمتر ثابت کرنا،تذلیل کرنا،ہرخرابی کاذمے دارٹھہرانا،ہردورکاوتیرہ رہا ہے۔
قطعاً نہیں عرض کررہا کہ بیوروکریسی کی کارکردگی مثالی ہے یاان میں ایسے ارسطو موجودہیں جن کی ذات سے علم کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ مگر میرا سوال سادہ ساہے کہ ملک کانظام چلانے والے افسروں اور ملازمین میں سے کتنے فیصدلوگ خراب ہیں اورکتنے فیصد بہتر کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ تناسب کسی کے پاس موجودنہیں ہے۔کسی محقق نے اس پرکام نہیں کیا۔کسی شخص نے گہرے پانیوں میں جانے کی کوشش نہیں کی۔
محتاط طریقے سے عرض کروںگا۔جن تمام برائیوں کو بیوروکریسی کوادنیٰ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیاجاتاہے، وہ اس شعبہ میں پندرہ سے بیس فیصدلوگوں سے زیادہ افراد میں موجود نہیں۔ یہ وہ خاموش اکثریت ہے جس کی کوئی آوازنہیں ہے۔کوئی ان کی بہتر کارکردگی کاذکرنہیں کرتا۔ ہمارے ملک کے کسی دانشور،لکھاری نے ان کی تعریف نہیں کی۔اس کے برعکس چندلکھاریوں نے پانچ چھ افسروں کی ذاتی بنیادپرایک فہرست سی ترتیب دے دی ہے،جس کے متعلق وہ رطب اللسان رہتے ہیں۔مگران سے بہتراوراچھاکام کرنے والوں کاکوئی ذکرنہیں کرتے۔ صاحبان!تنزلی ہرشعبہ میں ہے۔
ہماراملک بدقسمتی سے اکثرقدرتی آفات سے نبردآزما رہتاہے۔مگراسسٹنٹ کمشنر،ڈپٹی کمشنر اورکمشنرکو تعیناتی میں اکثراوقات اس قدرتی آفت سے لڑنا پڑتا ہے۔ دوبارہ عرض کروںگاکہ میراتجربہ پنجاب تک محدود ہے۔ انسانوں کومحفوظ جگہ پرمنتقل کرنا،عارضی قیام کابندوبست کرنا، صحت کے انتظامات کرنا،چھوٹے چھوٹے میڈیکل یونٹ قائم کرنا، بنیادی طعام کابندوبست کرنا،حتیٰ کہ جانوروں کے چارے کاانتظام کرنا،یعنی سب کچھ مہیاکرنااَشدضروری ہوتا ہے بلکہ لازم۔مگراکثراوقات ،قدرتی آفات کامقابلہ کرنے کے لیے مالی وسائل بروقت دستیاب نہیں ہوتے۔
پولیس پرتبرا بھیجنا ایک معمول ہے۔سینئرترین سطح سے لے کرسپاہی تک ہرملازم کونہ صرف تنقیدکانشانہ بنایاجاتاہے بلکہ اسے ہرلمحے تضحیک آمیزطعنوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ان میں سے اکثریت کی کارکردگی ہرگز ہرگزمثالی نہیں ہے۔ان میں ہزارخرابیاں موجود ہیں۔ مگر کیا ہم کبھی ان محنتی پولیس والوں کاذکرکرتے ہیں جواپنی جان پر کھیل کرجرائم کو ناممکن بنادیتے ہیں۔
مجرموں سے لڑتے لڑتے اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے کسمپرسی کی حالت کوبھی خاطرمیں نہیں لاتے۔ہزاروں مثالیں ہیں جن میں ان لوگوں نے بروقت کام کرکے اعلیٰ درجہ سے فرائض کوانجام دیا ہے۔ مگر نہیں،ہم گناہ سمجھتے ہیں،کہ ان لوگوں کے اچھے کاموں کی جھوٹے مونہہ ہی تعریف کردیں۔ان کی خرابیوں کاذکر کرنا بالکل درست ہے۔ اگروہ کوئی بہترکام کررہے ہیں،تواس کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہے۔
تنگی کالم کی وجہ سے میں کس کس چیز کا ذکر کروں۔ کسی محکمہ کودیکھ لیں۔ان میں اچھے لوگوں کی کوئی کمی نہیں۔ مگران کاکوئی والی وارث نہیں۔کوئی ان کے سرپرہاتھ رکھ کریہ کہنے کے لیے تیارنہیں کہ آپ نے اپناکام بہترین طریقے سے سرانجام دیاہے۔سرکاری شعبہ میں میرٹ پرآنے والے بہترین دماغوں کوہم ناکارہ بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہر وقت دشنام ، سازش اورفقرے بازی کانشانہ بنایا جاتا ہے۔
انھیں ہر طرف سے ناکارہ ہونے کاطعنہ دیا جاتا ہے۔ تھوڑے سے عرصے کے بعدیہ لوگ اتنے بددل ہوجاتے ہیں کہ یا توکام کرناچھوڑدیتے ہیں یانوکری کوچھوڑنے کی فکرمیں لگ جاتے ہیں۔یکسوئی سے محروم ہو جاتے ہیں۔اس طرزِ عمل کاخمیازہ انھیں بھی بھگتنا پڑتا ہے اورقوم کو بھی۔کیا ہمیں سنجیدگی سے نہیں سوچناچاہیے کہ اچھے اورمحنتی افسروں کی جائزد لجوئی کریں۔مگریہاں توسرکاری ملازمت کوجرم بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اوربظاہریہ کوشش کامیاب ہے۔