کامیاب اداکارہ سے کامیاب گلوکارہ تک
فلم ’خوش نصیب‘‘ نے کراچی کی فلم انڈسٹری کو پھر سے ایک خوشگوار ماحول میسرکردیا تھا
فلم 'خوش نصیب'' نے کراچی کی فلم انڈسٹری کو پھر سے ایک خوشگوار ماحول میسرکردیا تھا اور ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں چہل پہل شروع ہوگئی تھی۔ اداکار ندیم اور اداکارہ کویتا کی فلمی مصروفیات نے کراچی کی فلم انڈسٹری کوکافی تقویت دی تھی اور سب سے بڑی خوشی کی بات یہ تھی کہ نامور موسیقار نثار بزمی اب کراچی میں مستقل طور پر رہائش اختیار کرچکے تھے۔
اور باقاعدگی کے ساتھ کراچی ٹیلی ویژن کے پروگراموں سے وابستہ ہوتے جا رہے تھے، اسی دوران سینئر پروڈیوسر اور کراچی ٹیلی ویژن کے جی۔ایم قاسم جلالی کے کئی ڈراموں کے تھیم سانگ کی موسیقی اب نثار بزمی صاحب دے رہے تھے کئی ڈراموں کے لیے میرے لکھے ہوئے تھیم سانگ جنھیں نئے گلوکار گوہر حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا، قاسم جلالی کے ڈراموں کا حصہ بن چکے تھے۔ نثار بزمی ٹیلی ویژن کے علاوہ اب اپنے گھر پر موسیقی کی کلاسیں بھی لینے لگے تھے اور ان کے بہت سے شاگرد، صبح، دوپہر اور رات کو موسیقی کی کلاسوں میں حصہ لینے آتے تھے۔
اسی دوران ایک دن میں نثار بزمی کے گھر گیا تو وہ اپنے شاگردوں میں گھرے ہوئے تھے، انھوں نے مجھے کچھ دیر کے بعد ایک خوشخبری دی کہ وہ اب ایک گراموفون کمپنی کے لیے اداکارہ وگلوکارہ مسرت نذیر کے لیے ایک کیسٹ کا معاہدہ کرچکے ہیں اور انھوں نے بطور شاعر میرا نام بھی دے دیا ہے۔
مسرت نذیر کینیڈا سے کراچی آرہی ہے، اس کا ایک پنجابی گانوں کا کیسٹ ہٹ ہوچکا ہے اور اب گراموفون کمپنی اس کا اردو گیتوں و غزل پر مشتمل کیسٹ موسیقار نثار بزمی کے ساتھ تیار کرنا چاہتی ہے اور جلد ہی وہ کیسٹ مارکیٹ کرنا چاہتی ہے۔ مسرت نذیر کے پنجابی گیتوں اور خاص طور پر شادی بیاہ کے گیتوں کی بڑی دھوم رہی ہے۔
مسرت نذیر نے بحیثیت گلوکارہ بھی اپنی آواز کا لوہا منوالیا ہے اس کے گائے ہوئے گیت نہ صرف سارے پاکستان بلکہ ہندوستان، لندن، یورپ اور امریکا میں بھی بڑے مشہور ہیں۔ ایک گیت میرا لونگ گواچا کو تو بڑی شہرت حاصل ہوئی ہے اور اس گیت کو ہندوستان کے کئی موسیقاروں نے بھی استعمال کیا ہے مسرت نذیر کے شادی بیاہ کے گیتوں کو لاہور سے امرتسر تک بڑی پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور لونگ گواچا تو واقعی ایسا گیت ہے جو چاندی اور سونے میں تولنے کے مترادف ہے۔
مسرت نذیر نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز، فلمساز و ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم ''ٹھنڈی سڑک'' سے کیا تھا اور اس کا پہلا ہیرو اداکار کمال تھا، پھر مسرت نذیر اپنی شوخ و شنگ اداکاری کی وجہ سے صف اول کی ہیروئنوں میں شامل ہوتی چلی گئی تھی۔
اس کی ایک ابتدا کی ایکشن فلم ''باغی'' نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی، اس فلم میں اس دور کے ایکشن ہیرو سدھیر کے ساتھ بھرپور اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا پھر مسرت نذیر سوشل فلموں کی طرف متوجہ ہوگئی اور فلم ''زہر عشق'' میں اس نے اپنی خوبصورت اداکاری سے لاکھوں دلوں کو موہ لیا تھا بلکہ اس فلم میں بہترین اداکارہ کا 1952 میں نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔ مسرت نذیر کی جاندار اداکاری سے متاثر ہوکر ہدایت کار مسعود پرویز نے اپنی فلم ''جھومر'' میں کاسٹ کیا تھا اور ''جھومر'' میں مسرت نذیر نے بڑی معیاری اداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے 1959 میں دوسری بار نگار ایوارڈ حاصل کیا، اس طرح بحیثیت اداکارہ مسرت نذیر نے اپنے دور کی بہت سی ہیروئنوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
اب میں مسرت نذیر کی بحیثیت اداکارہ ایک ایسی فلم کا تذکرہ کروں گا جس کے مصنف نامور ترقی پسند رائٹر ریاض شاہد اور ہدایت کار اس دور کے کامیاب ترین گیت کار خلیل قیصر تھے جن کا نام ہی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا اور وہ فلم تھی ''شہید'' جو حب الوطنی کے موضوع پر بنائی گئی تھی۔ اس دور کی سپر ڈپر ہٹ فلم تھی اس فلم میں مسرت نذیر کی اداکاری نے کمال کردیا تھا۔
فلم ''شہید'' کو بیک وقت نو دس نگار ایوارڈز دیے گئے تھے اور فلم کی بہترین اداکارہ کا ایک بار پھر مسرت نذیرکو ہی نگار ایوارڈ دیا گیا تھا۔ یہ دور مسرت نذیر کا بڑا ہی عروج کا دور تھا، اس کی اداکاری کے سامنے اس دورکی بہت سی پرانی اداکارائیں پانی بھرتی نظر آتی تھیں اور پھر فلم انڈسٹری میں ایک خبر نے سب کو حیران کردیا کہ مسرت نذیر عروج کی بلندیوں تک پہنچنے کے بعد اداکاری کو خیرباد کہہ کرکینیڈا کے ایک ڈاکٹر سے شادی کر کے نہ صرف لاہور کی فلم انڈسٹری بلکہ پاکستان چھوڑ کرکینیڈا میں اپنا گھر بسا رہی ہیں۔
ایسا فلم انڈسٹری میں بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی نامور ہیروئن،کامیاب اداکارہ، اپنے سپرہٹ اورکامیابی کے دنوں میں شادی کرکے فلم انڈسٹری سے علیحدہ ہوگئی ہو مگر مسرت نذیر نے ایسا کر کے سب کو چونکا دیا تھا۔ پھر واقعی مسرت نذیر بیرون ملک چلی گئی اور ایک طویل عرصے تک گھریلو زندگی گزارتی رہی۔ مگر کچھ عرصے بعد اچانک ہی مسرت نذیر نے بطور گلوکارہ اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور ٹیلی ویژن کے کئی پروگرام کیے۔ پھر پنجابی کے لوک گیتوں کے ساتھ، شادی بیاہ، مہندی کے گیتوں کے پنجابی گیتوں کی وجہ سے گائیکی کی دنیا میں بھی اس نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ یکے بعد دیگرے کیسٹ آتے رہے اور ہٹ ہوتے رہے ۔
مسرت نذیر جس نے اداکاری کے میدان میں اپنا سکہ جمایا تھا اسی طرح گلوکارہ بن کر بھی مسرت نذیر نے بہت سی پنجابی گلوکاراؤں کی چھٹی کرادی تھی۔ اس نے اداکاری کے بعد گلوکارہ کی حیثیت سے بھی کامیابی کی سند حاصل کرلی تھی۔ اب میں پھر گراموفون کمپنی کے اس کیسٹ کی طرف واپس آتا ہوں جس کی موسیقی نثار بزمی ترتیب دے رہے تھے اور مسرت نذیر کینیڈا سے کراچی آئی ہوئی تھی۔
گراموفون کمپنی کے ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں مسرت نذیر سے بطور ایک شاعر یہ میری پہلی ملاقات تھی، اردو کے گیت و غزلوں کا وہ پہلا کیسٹ تھا جو مسرت نذیر کی آواز میں ریکارڈ کیا جا رہا تھا۔ اور جس کے موسیقار نثار بزمی تھے اور میں نے جو پہلا گیت اس کیسٹ کے لیے لکھا تھا اس کے بول تھے:
میں تنہا رہ کر بھی خوش ہوں
تم میرا کوئی غم نہ کرو
ماضی کو پلٹ کر مت دیکھو
تم دنیا کو برہم نہ کرو
دوسرے دن پھر میں نے مسرت نذیر کے لیے نثار بزمی کے ساتھ دو گیت لکھے جن میں ایک گیت کے بول تھے:
نگاہوں سے تم دور جاتے ہو جاؤ
خیالوں میں پیچھا کروں گی تمہارا
مگر اب میں مسرت نذیر کے لیے اپنے لکھے ہوئے اس گیت کی طرف آتا ہوں جو اس کیسٹ کا سب سے زیادہ خوبصورت اور سپر ہٹ گیت تھا۔ جس کا ویڈیو بھی بنایا گیا تھا ۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام ''میری پسند '' کے لیے بھی مسرت نذیر نے یہ ریکارڈ کرایا تھا جب کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر ٹیلی کاسٹ کیے جانے والے چند ایسے گیتوں میں سرفہرست تھا جس کا کریڈٹ نثار بزمی کی مسحور کن موسیقی اور مسرت نذیر کی مدھ بھری آواز اور میرے لکھے ہوئے خوبصورت گیت کو بھی جاتا ہے جس کے بول تھے۔
گلشن کی بہاروں میں رنگین نظاروں میں
جب تم مجھے ڈھونڈوگے آنکھوں میں نمی ہوگی
محسوس تمہیں ہر دم پھر میری کمی ہوگی
اس گیت کو نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان اور یورپ اورامریکا میں بھی بہت پسند کیا گیا اور ہندوستان میں تو خاص طور پرکئی گلوکاراؤں اورگلوکاروں نے اس گیت کو ری مکس کے طور پر ریکارڈ کرکے اپنی آوازوں میں گایا ہے اور یہ کامیابی صرف اور صرف مسرت نذیر کے گائے ہوئے اس گیت کو جاتی ہے جس کو لیجنڈ موسیقار نثار بزمی نے بڑے ہی دلکش انداز میں کمپوز کیا تھا۔ اپنے وقت کی کامیاب اداکارہ مسرت نذیر نے بطورگلوکارہ بھی کامیابی کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور ماضی کی کامیاب اداکارہ نے گلوکاری کے میدان میں بھی اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔