کیا قوم نے آستینیں چڑھا لی ہیں
ایک وجہ ہو تو بیان کروں، میرے ذہن میں مسائل کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار ہے
QUETTA:
ایک وجہ ہو تو بیان کروں، میرے ذہن میں مسائل کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار ہے، ہمارے ملک میں روز دھماکے ہوتے ہیں مگر ان دھماکوں کی نوعیت مختلف ہوتی ہے اور ان کے نام بھی مختلف ہیں مثلاً قتل وغارت گری، ٹارگٹ کلنگ،کرپشن، لوٹ مار، عصمت دری کے واقعات کے باوجود آج تک نہ تو ہمارا ذہن مفلوج ہوا، ہم کھانا بھی کھاتے ہیں، مختلف خوشیوں میں بھی شریک ہوتے ہیں، اخبارات کا مطالعہ بھی کرتے ہیں، ٹی وی چینلز پر خبریں بھی دیکھتے ہیں مگر ہمارے دل اطمینان سے ہیں کہ ہم اتنے سارے مسائل کا رونا کس کے سامنے روئیں کہ سب مصروف ہیں۔
حکومتی ادارے، سیاست دان جو اپوزیشن میں ہیں، ٹی وی پر بیٹھ کر چیخ و پکار کرتے ہیں کہ ہم اس عوام کے لیے کتنے پاپڑ بیل رہے ہیں، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو لمحہ بہ لمحہ اس قوم اور ملک کے لیے دن رات کام کرنا پڑ رہا ہے، اگر ہم ایک ٹھوس حقیقت کے تحت دیکھیں تو 1947 سے لے کر 2015 تک تین نسلیں وجود میں آئیں۔ ایک نسل تو وہ تھی جو 1947 میں 40 سال کی تھی اس کی طویل خدمات ہیں، اس ملک کے لیے دوسری نسل وہ تھی جو آج بھی زندگی کی 60 بہاریں دیکھ چکی ہے اور تیسری نسل آج کے نوجوان ہیں۔
جنھوں نے زندگی کی 60 بہاریں دیکھیں وہ خزاں کی تھیں، ملک کا وجود بھی زخمی ہوکر تقسیم ہوا اور وسائل کی تلاش میں بے قاعدگیوں کا سامنا رہا۔ 1990 سے جو نسل آرہی ہے وہ عجیب ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے کہ ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے، کیونکہ اس نسل نے پاکستان بنتے نہیں دیکھا، ہاں ملکی وسائل کو دیکھنے کے بعد یہ مایوس اور فکرمند ضرور رہے۔
پاکستانی قوم بہت معصوم اور نیک دل سے سرشار ہے اور خاص طور پر دیہات میں رہنے والے تو سادگی کا مجسمہ ہیں اور ان کی سادگی ہی کی وجہ سے ترقی میں جگہ جگہ رکاوٹیں درپیش ہیں کہ الیکشن کے زمانے میں ان کے دیدہ ور رہنما آئین اور جمہوریت کا راگ ایسا سناتے ہیں کہ یہ بحرانی کیفیت میں رہنے کے باوجود انھیں اس خوف سے ووٹ دیتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ یہ ہمیں تگنی کا ناچ نچوادیں۔
اب رہا شہروں کا معاملہ تو یہاں آپ کو 60 فیصد تعلیم یافتہ لوگ ملیں گے جس کی زندہ مثال تحریک انصاف کی کامیابی ہے، یہ بات دوسری ہے کہ عمران خان لوگوں کے ذہن کا مشاہدہ نہ کرسکیں جس کی وجہ سے انھیں بلدیاتی الیکشن میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، وہ چاہتے تو ایک اچھی اپوزیشن کا مظاہرہ کرسکتے تھے اور پھر اس تعلیم یافتہ ووٹر نے انھیں دوبارہ ووٹ نہیں دیا۔
کیونکہ آج کی نوجوان نسل جو تعلیم یافتہ ہے اس نے بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف کو سنجیدگی سے نہیں لیا، جب کہ 2013 کے الیکشن میں انھوں نے کراچی سے کافی سیٹ جیت لی تھیں اور اب عمران خان کو چاہیے کہ وہ اسمبلی کا رخ کریں اور عوامی مشکلات کا طبل اسمبلی میں بجائیں تاکہ منتخب عوامی نمایندے نئے اسکولز، کالجز، کھیلوں کے میدان، اسپتال، سرکاری ملازمتیں دے کر نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کریں۔ خاص طور پر سیاست دانوں کے لیے جو بزرگوں نے کہا ضرور تحریر کروں گا کہ ''جو آج مفت کی نصیحت قبول نہیں کرے گا اسے کل مہنگے داموں افسوس خریدنا پڑے گا''۔
اب محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں قانون بانجھ ہوگیا تھا، اب قانون کے دیے میں کچھ روشنی کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں، سڑاند چھوڑنے والے بدعنوان کچھ سیاسی افراد عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں، خدا کرے یہ اپنے حقیقی انجام کو پہنچیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے پاک آرمی کے چیف اور سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سیاسی بیان بازی جاری ہے۔
آرمی چیف راحیل شریف 29 نومبر 2016 کو ریٹائر ہوں گے مگر انھوں نے اپنی ملازمت میں توسیع (Extension) نہ لینے کا اعلان کیا۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے بلوچستان میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ راحیل شریف نیک اور اصولی انسان ہیں انھیں ملازمت میں توسیع ضرور ملنی چاہیے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے جب کہ پی پی پی کے لیڈروں نے کہا کہ آرمی چیف کا توسیع نہ لینے کے فیصلے کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ مگرپنجاب اسمبلی میں ان کی تازہ قرارداد کچھ اور کہتی ہے۔
اب وہ کیوں آرمی چیف کے فیصلے کو سراہ رہے ہیں یہ عوام اور قارئین کو پتہ ہے، جب کہ زرداری حکومت نے اپنے دور حکومت میں سابق جنرل کیانی کو تین سال کی توسیع دی تھی۔ یہ قوم جنرل راحیل شریف کی دیوانی ہے، یہ قوم گزشتہ کئی سال سے انتشار کی دلدل، کرپشن کی بادشاہت سے تنگ آچکی ہے۔
اب قوم چند سیاست دانوں کی وجہ سے اکتاہٹ کے سفر سے بے زار ہوچکی ہے، موثر نظام عوام کی حالت پر منہ چڑا رہا ہے، نقطہ آغاز راحیل شریف نے کیا تو قانون اور آئین کے دلائل دیے جا رہے ہیں، لوٹا ماری کے پرزے بکھر گئے ہیں تو سیاسی لوگ چہ میگوئیاں کر رہے ہیں، ہوس اور مفادات کی جنگ جاری ہے اور اس غلیظ اور بدبودار جنگ پر راحیل شریف اور ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے پانی ڈالنے کی کوشش تو کی ہے، مگر افسوس کہ کرپشن اور بدمعاشی کی جنگ کو ان کے چاہنے والے پنکھا جھل رہے ہیں۔
مگر کب تک، اس میں کوئی شک نہیں کہ راحیل شریف ضرب عضب کی وجہ سے مفلس، لاچار اور غریبوں کے بادشاہ بن گئے ہیں، جب ہمارے چند سیاستدانوں کو ان کے بارے میں کوئی منفی خبر نہ ملی تو ان لوگوں نے ان کی مدت ملازمت پر ایک نہ ختم ہونے والی بحث کا آغاز کردیا۔
آئیے قارئین! آپ کو بتاتے چلیں کہ جنرل راحیل شریف نے پراپرٹی ٹائیکون سے پلاٹس اور گھر کی تمام آفرز کو مسترد کردیا، پراپرٹی ٹائیکون کے نمایندے نے کہا کہ ہم ہر آرمی چیف کو ایک گھر اور دو پلاٹس دیتے ہیں، اس کا جواب دیتے ہوئے عوام کے ہر دل عزیز ہیرو جنرل راحیل شریف نے کہا میں بحیثیت آرمی چیف ان چیزوں کو قبول نہیں کرسکتا، جب کہ آرمی چیف نے تو اپنا کروڑوں کا پلاٹ شہیدوں کے لیے وقف کردیا، جب کہ ہمارے وزرا، وزیراعلیٰ، سول بیوروکریٹس کو ریٹائر ہوئے ایک زمانہ ہوگیا، مگر ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاتی ہے۔
مگر ہر ایک کو فکر ہے کہ راحیل شریف کرپشن، دہشت گردی، لاقانونیت، بدمعاشی کے میدان کا گول کیپر نہ بنے بلکہ اس میدان کو کھلا چھوڑ دے، جس میں یہ کھیل جاری رہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ آرمی چیف نے توسیع ملازمت کی درخواست نہیں کی تو اس پر بیانات کیوں دیے جا رہے ہیں۔ راحیل شریف کے لیے اگر عوامی ریفرنڈم کرایا گیا تو ہماری سیاسی قیادت یہ سمجھ لے کہ قوم نے آستینیں چڑھا لی ہیں۔ کیا خوب راحیل شریف کے لیے شاعر نے کہا :
جو بس گیا ہے دلوں میں وہ پیار رہنے دیں
آکچھ اور دن یہی فصلِ بہار رہنے دیں