پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی کوششیں

مجھے پچھلے ایک سال سے بوجوہ لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد کے بڑے اور مہنگے اسپتالوں کے چکر لگانے پڑ رہے ہیں۔


Tanveer Qaisar Shahid February 29, 2016
[email protected]

مجھے پچھلے ایک سال سے بوجوہ لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد کے بڑے اور مہنگے اسپتالوں کے چکر لگانے پڑ رہے ہیں۔ ویسے تو گزشتہ کئی برسوں سے یہ اعصاب شکن سلسلہ جاری ہے لیکن یہ جو سال گزرا ہے، اس نے تو گویا جان ہی نکال دی ہے۔ ڈاکٹروں اور ادویات فروشوں کو بُک بھر بھر کر روپے دینا پڑتے ہیں۔

ذاتی طور پر یہ تلخ تجربہ ہوا کہ امراض کے مقابل مالی وسائل دستیاب نہ ہوں تو لوگوں کو گھر بار، بھانڈے ٹینڈے کیوں اور کیونکر فروخت کرنا پڑتے ہیں۔ اور یہ کہ بیماریاں گھر کا ہونجا کیسے پھیرتی ہیں۔ اسی لیے تو سیانے دعا مانگتے ہیں کہ شالا، کوئی کچہری اور اسپتال کا منہ نہ دیکھے۔ انفرادی سطح پر بہت سے مخیر حضرات غریبوں کی دستگیری اور اعانت کاری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کا دائرہ خدمت ظاہر ہے وسیع ہے نہ یہ بیس کروڑ عوام کے اکثریتی حصے تک رسائی رکھتے ہیں۔

چند ماہ قبل جب میرے بیٹے کو اچانک شیاٹیکا درد نے اپنی گرفت میں لے لیا تو ایک اور بڑی ذہنی اذیت سے گزرنا پڑا۔ لاہور اور اسلام آباد کے دو معروف نیورو سرجنوں سے رابطہ کیا تو علاج کے لیے ایک نے دو لاکھ اور دوسرے نے ڈھائی لاکھ روپے طلب کیے۔ تب یہ اندازہ ہوا کہ بے چارگی اور بے بسی کے مارے بے وسیلہ عوام، امراض لاحق ہونے کے باوجود، ٹونے ٹوٹکوں اور محض نیم حکیم بابوں کی طرف کیوں بھاگتے ہیں۔ مہنگی دواؤں اور مہنگے ڈاکٹروں کی فیسیں تہی دست لوگ افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔

چنانچہ نیم حکیموں اور دَم درود کرنے والوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ایک روز وہ خجل خوار ہو کر قبر میں جا پہنچتے ہیں۔ اگر ریاست اور اس کے حکمران باوسائل ہوں اور عوام کے دکھوں سے آشنا بھی تو عوام کو بیماریوں کی رسوائیوں سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اسپتالوں کی راہداریوں میں تڑپتے بے آسرا مریضوں کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں مگر ریاست کہاں ہے؟ لگتا ہے وزیراعظم محمد نواز شریف کے کانوں تک ان تنگدستوں کی چیخیں آخر کار بازگشت بن کر جا ٹکرائی ہیں۔

وہ مستحق اور بے وسیلہ مریضوں کی دستگیری کرتے ہوئے عملی میدان میں آگے بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ مجھے چونکہ ذاتی حیثیت میں اسپتالوں اور ڈاکٹروں سے واسطہ پڑ رہا ہے، اس لیے مَیں شرحِ صدر کے ساتھ شہادت دے سکتا ہوں کہ ریاست اور حکمرانوں کی طرف سے جب جاں بہ لب مریض کی دستگیری کی جاتی ہے تو اسے ہر اعتبار سے کس قدر ریلیف ملتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں جناب نواز شریف کا شروع کردہ ''نیشنل ہیلتھ پروگرام'' ملک بھر کے تنگدستوں اور بے وسیلہ مریضوں کے لیے نعمتِ کبریٰ سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔

یہ پروگرام صحیح معنوں میں مستحقین کو ریسکیو کرنے سامنے آیا ہے۔ پاکستان کے 23 ضلعوں میں، پہلے فیز کے طور پر، اس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس کے لیے نو ارب روپے کی رقم بھی مختص کی گئی ہے۔ بی آئی ایس پی کے فراہم کردہ اور تصدیق شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر غریب اور نادار مریض پچاس ہزار سے لے کر تین لاکھ روپے تک کے سرکاری طبّی اخراجات سے مستفید ہو سکیں گے۔ اگر خدانخواستہ بیماری زیادہ مہلک ہے تو وزیراعظم نواز شریف کے شروع کردہ ''نیشنل ہیلتھ پروگرام'' کے تحت چھ لاکھ روپے کے اخراجات بھی سرکار ہی برداشت کرے گی۔

یہ سہولت سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں میں فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ان اسپتالوں اور تئیس اضلاع کی فہرست بھی جاری کر دی گئی ہے۔ مستحقین، جنھیں کمپیوٹرائزڈ گورنمنٹ میڈیکل کارڈ جاری کیے گئے ہیں، استفادہ بھی کر رہے ہیں۔ ٹی وی پر علاج کی نئی سہولتوں کے حوالے سے جن مریضوں کے انٹرویو دکھائے اور سنائے جا رہے ہیں، یہ محض ڈرامہ نہیں ہیں اور نہ ہی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے متراف ہے۔

وزیراعظم جناب نواز شریف کی طرف سے یہ نعمت واقعی معنوں میں عمل بن کر لوگوں تک رسائی اختیار کر چکی ہے۔ یہ شاندار سہولت دراصل وطنِ عزیز کو فلاحی ریاست بنانے کی جانب اولین قدم ہے اور اس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ یوں جناب نواز شریف کے اس مکالمے پر یقین ہونے لگتا ہے جس میں وہ یوں کہتے سنائی دیتے ہیں: ''سیاست دراصل عوام کی خدمت کا نام ہے۔'' اور یہ کہ ''اب غریب اور مستحق مریضوں کو علاج کے لیے اپنے گھر بار اور برتن فروخت نہیں کرنا پڑیں گے۔''

وطنِ عزیز، جہاں ''عوامی خدمت'' کے نام پر عوام کا ہمیشہ استحصال کیا جاتا رہا ہے اور لوگ فلاحی ریاست کا تصور محض ایک وہمہ اور خواب سمجھتے ہیں، نیشنل ہیلتھ کے اس شاندار پروگرام پر عوام اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگرچہ ابھی اکثریتی عوام کو اس پروگرام تک رسائی نہیں ہے لیکن رفتہ رفتہ اس خدمتی دائرے سے سبھی مستفید ہوتے جائیں گے۔اس کا دائرہ کار آزاد کشمیر میں مظفر آباد اور کوٹلی کے اہم شہروں تک بھی پھیل چکا ہے۔ مظفر آباد میں ایک اندازے کے مطابق پانچ ہزار خاندان ''نیشنل ہیلتھ پروگرام'' کے سہولت و صحت کارڈز وصول کر چکے ہیں۔

اگر کوٹلی کے لوگ بھی اس فہرست میں شامل کر لیے جائیں تو استفادہ کرنے والے خاندانوں کے افراد کی تعداد بیاسی ہزار تک پہنچتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملک بھر میں پینتیس لاکھ افراد، پہلے فیز میں، جناب نواز شریف کی فراہم کردہ اس سہولت سے منسلک ہوں گے۔ یقینا اس کا کریڈٹ براہ راست وزیراعظم صاحب کو جاتا ہے۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی جانب اٹھنے والا یہ قابلِ تعریف قدم فی الحقیقت بانی پاکستان کے آدرشوں کی تکمیل کا ایک حصہ ہے۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ بھی تو پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے، وگرنہ متحدہ ہندوستان میں تو ویسے بھی اسلامیانِ ہند زندگی بِتا ہی رہے تھے۔

وزیراعظم جناب نواز شریف جہاں عوام کو صحت کی سہولتیں مفت بہم پہنچانے کے لیے میدان میں اترے ہیں، وہیں ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز شریف بھی پاکستانی عوام کو ماڈرن اور جدید سہولتوں سے مزین تعلیم کی دولت و نعمت فراہم کر رہی ہیں۔ مریم نواز شریف صاحبہ تعلیم کے میدان میں خدمت کا جو جذبہ لے کر سامنے آئی ہیں، یہ بھی دراصل ان کے اپنے والدِ گرامی کے ''پرائم منسٹر ایجوکیشن ریفارمز پروگرام'' ہی کا حصہ ہے۔

فرق بس یہ ہے کہ تعلیمی اصلاحات کی فوری اور بروقت تنفیذ کے لیے وزیراعظم کی صاحبزادی بروئے کار آ رہی ہیں۔ ابھی یہ عظیم منصوبہ صرف اسلام آباد تک محدود ہے جہاں کے 422 اسکولوں کالجوں اور ان میں زیرِ تعلیم بچوں کا مستقبل بنانے اور سنوارنے کا بیڑہ اٹھایا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں بائیس اسکولوں کو ہر طرح سے مکمل کیا گیا ہے۔ انھیں جدید بسیں، ماڈرن لیبارٹریاں، سائنس ٹیچرز اور آئی ٹی لیبز فراہم کر دیے گئے ہیں۔ طلباء اور اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے اور انھیں کڑے نظم و ضبط میں لانے کے لیے بایو میٹرک نظام بھی متعارف کروا دیا گیا ہے۔

محترمہ مریم نواز شریف کی نیت اور اعلان یہ ہے کہ آیندہ ایک برس کے اندر اندر اسلام آباد کے باقی چار سو اسکولوں و کالجوں کو بھی اسی طرح جدید سے جدید تر بنا کر ماڈل کی شکل دے دی جائے گی۔ یہ پروگرام دراصل محترمہ مریم ہی کا برین چائلڈ ہے جس میں آدرشوں کے تمام ممکنہ رنگ بھرنے کے لیے بنتِ نواز شریف نے گزشتہ سال واشنگٹن میں خاتونِ اول محترمہ مشعل اوباما سے بھی ملاقات کی تھی اور اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ پاکستان بھر کی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتی ہیں۔

امریکی خاتون اول نے مریم نواز شریف کو سات کروڑ ڈالر کی تعلیمی امداد فراہم کرنے کا یقین بھی دلایا تھا تا کہ Let Grils Learn پروگرام کے تحت پاکستان کی زیادہ سے زیادہ بچیاں علم حاصل کر سکیں۔ خدا کرے محترمہ مریم نواز شریف اس عظیم تعلیمی اور اصلاحی منصوبے میں خاطر خواہ طور پر کامیاب ہو سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں