کرکٹ بیگم اور ہماری بے بسی

ایشیا کپ میں پاکستان اپنا دوسرا میچ کھیل چکا ہے اور اب مزید دو میچوں کے بعد یہ فیصلہ ہو جائے گا


Ayaz Khan March 01, 2016
[email protected]

ایشیا کپ میں پاکستان اپنا دوسرا میچ کھیل چکا ہے اور اب مزید دو میچوں کے بعد یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ ہم فائنل میں جا رہے ہیں یا اس سے پہلے ہی گھر کی راہ لینا پڑے گی۔ پاکستان کے لیے اب جو مشکل میچ نظر آ رہا ہے وہ میزبان بنگلہ دیش کے ساتھ ہو گا۔ ماضی قریب میں بنگلہ دیش کے خلاف ہماری پرفارمنس قابل ذکر نہیں رہی اور بنگال ٹائیگرز بھی اب پہلے جیسے نہیں ہیں جن کے خلاف میچوں میں دوسری ٹیموں کو ''واک اوور'' مل جاتا تھا۔

ٹورنامنٹ کے افتتاحی میچ میں روہت شرما تباہ کن اننگز نہ کھیلتے تو میچ کا نتیجہ کچھ اور بھی نکل سکتا تھا۔ بنگلہ دیش نے بھارت سے میچ ہارنے کے بعد سری لنکا کو شکست دے دی ہے۔ سری لنکن ٹیم میں زیادہ کرنٹ نہیں لگ رہا مگر پاکستانی ٹیم سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ کسی دن بہترین کھیل اور پھر اگلے ہی میچ میں بدترین پرفارمنس۔ اس کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ پاکستان سری لنکا کے خلاف جیت جائے گا۔ ہماری ٹیم نے فائنل میں پہنچنا ہے تو اسے بنگلہ دیش کو ہرانا ہو گا ورنہ فائنل انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان ہو گا۔

پاکستان کے افتتاحی میچ کی بات کریں تو ہماری بیٹنگ اتنی خراب تھی کہ اس کے بعد دنیا کی تمام ٹیموں کے بہترین فاسٹ بولرز مل کر بھی کوشش کرتے تو بھارت کو ہرانا نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور تھا۔ بھارتی کپتان مہندر سنگھ دھونی نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی دعوت دی تو مجھے لگا کہ انھوں نے غلطی کر دی ہے۔

یہ سب کو پتہ ہے کہ انڈین بیٹنگ مضبوط ہے اور ہماری بولنگ۔ البتہ یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہماری بیٹنگ اتنی کمزور ہے کہ انڈیا کے ایوریج بولنگ اٹیک کے سامنے بھی ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ ٹی 20 میں صرف 84 رنز کا ٹارگٹ وہ بھی بھارت جیسی مضبوط بیٹنگ لائن کو، اس کے بعد نتیجہ وہی نکلنا تھا جو سامنے آیا۔ ہمارے 9بلے باز ڈبل فگر میں بھی داخل نہ ہو سکے۔ بیٹنگ کے اس بری طرح فلاپ ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو انڈیا کے خلاف کھیلنے کا خوف اور دوسرا وکٹ پر گھاس دیکھ کر ہاتھ پاؤں پھول جانا۔

انڈیا کے خلاف بدترین پرفارمنس میں بھی اگر کوئی روشنی کی کرن بنا تو وہ محمد عامر ہے۔ 5سال تک کرکٹ سے آؤٹ رہنے والے محمد عامر نے پہلے ہی اوور میں سنسنی پھیلا دی۔ یہ ٹی ٹوئنٹی کی تاریخ میں غالباً پہلا موقع ہے جب بھارت کے دونوں اوپنر صفر پر آؤٹ ہوئے۔ عامر نے دوسرے اوور میں بھی ایک وکٹ لے کر بھارتی کیمپ میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ ویرات کوہلی کی اس موقع پر تعریف بنتی ہے جنہوں نے بڑے تحمل سے ایک اینڈ کو سنبھال لیا اور پاکستانی بیٹسمینوں کو یہ سبق دینے کی کوشش کی کہ دنیا کے بہترین بولنگ اٹیک کے سامنے بھی ڈٹ کر کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔ یووراج سنگھ نے بھی ان کا خوب ساتھ دیا جو اپنی طبیعت کے بر عکس 66گیندیں کھیل کر محض 14 رنز بنا سکے۔

اس میچ میں امپائرنگ کے کچھ فیصلے ضرور متنازع تھے لیکن یہ کھیل کا حصہ ہے۔ میرے خیال میں اس میچ میں شاہد آفریدی کی کپتانی بھی ٹھیک نہیں تھی۔ وہاب ریاض کی بولنگ پر کچھ لوگ اعتراض کر رہے ہیں۔ مجھے یہ بتایا جائے کہ کپتان نے وہاب کو گیند اس وقت تھمائی جب ٹارگٹ 30 رنز کے قریب رہ گیا تھا۔ میرے خیال میں محمد عامر سے دو اوور کرانے کے بعد وہاب ریاض کو لایا جا نا چاہیے تھا۔ چلیں یہ مان لیا کہ عامر نے دوسرے اوور میں بھی وکٹ لی اس لیے انھیں تیسرا اوور دیا گیا پھر چوتھا اوور دینے کی تُک سمجھ میں نہیں آئی۔ عامر کے ساتھ محمد سمیع سے اٹیک کرانے کا فیصلہ اچھا تھا کیونکہ ایک طرف سے لیفٹ آرم اور دوسری طرف سے رائٹ آرم کا کمبی نیشن بن گیا۔ شاہد آفریدی کو خود بھی ایک دو اوور ضرور کرانے چاہییں تھے۔

ان کے مقابلے میں دھونی بہت میچور کپتان لگے۔ وہ یووراج کو لائے تو انھوں نے آتے ہی عمر اکمل کو ایل بی ڈبلیو کر دیا۔ پھر رہی سہی کسر رویندر جدیجہ نے دو وکٹیں لے کر نکال دی۔ میرپور کی وکٹ پر گھاس ضرور تھی مگر وہ صرف فاسٹ بولرز کے لیے ہی ساز گار نہیں تھی، سپنرز کے لیے بھی اس میں بہت کچھ تھا۔ بڑا کپتان وہی ہوتا ہے جو حالات کے مطابق فیصلے کرے، اگر وہ ایک مائنڈ سیٹ کے ساتھ میدان میں اترے اور پھر لکیر کا فقیر بن جائے تو اپنی مرضی کے نتائج نہیں لے سکتا۔ شاہد آفریدی کے نامناسب فیصلے اپنی جگہ، اس میچ میں شکست کے بنیادی ذمے دار ہمارے بیٹسمین ہیں جو 20اوورز بھی پورے نہیں کھیل سکے اور ساڑھے 17اوورز میںڈھیر ہو گئے۔

ماضی قریب میں کھیلی گئی کچھ کرکٹ سیریز کی طرف دھیان دیں تو ہماری پرفارمنس خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے پاکستان سپر لیگ کا انعقاد ہی بہت بڑا معرکہ ہے۔ پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد پر کسی کو شک و شبہ نہیں ہے۔ ممکن ہے پی ایس ایل کا آیندہ ایڈیشن پہلے سے بھی زیادہ کامیاب ہو جائے۔اس کے باوجود پی سی بی کی اصل ذمے داری قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری ہے۔ کرکٹ بورڈ اگر یہ ذمے داری اچھی طرح نہیں نبھا سکتا تو پھر پی ایس ایل کی کامیابی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ وزیر اعظم نواز شریف کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف ہیں۔کرکٹ بورڈکے کرتا دھرتا اگر ٹھیک طرح سے پرفارم نہیں کر رہے تو پھر وزیر اعظم بھی اس کے ذمے دار ہیں، یہ مانا وزیر اعظم سیاستدان ہیں لیکن بعض اوقات سیاستدانوں کو بھی کچھ غیر سیاسی فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ سارے سیاسی فیصلے ہی بہتر نہیں ہوتے۔

کرکٹ پر تفصیلی بات ہو گئی، جاتے جاتے تحفظ خواتین بل جو گورنر کے دستخطوں کے بعد باقاعدہ قانون بن چکا ہے، اس کا بھی تھوڑا ذکر ہو جائے۔ مظلوم شوہروں کے حوالے سے زاہد فخری کی ایک پنجابی نظم بڑی مشہور ہے۔ نظم کا پہلا شعر ہے ''کدی تے پیکے جا نی بیگم، آوے سکھ دا سا نی بیگم''۔ اس نظم میں شوہر اپنی بیگم سے التجا کرتا ہے کہ وہ کبھی اپنے میکے بھی جائے تاکہ مظلوم سکھ کا سانس لے سکے۔

نئے قانون کے بعد زاہد فخری صاحب کے اس شعر میں معمولی ترمیم کرنے کی گستاخی کا مرتکب ہونے لگا ہوں۔ ''کدی تے تھپڑکھا'' نی بیگم۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مظلوم شوہر تھوڑی دیر کے لیے ظالم بن جائے۔ وہ بیگم کو تھپڑمارے اور دو دن کی ''جبری رخصت '' پر چلا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر شریف انسان اپنی بیگم سے ڈرتا ہے۔ یہ قانون چونکہ ''بدمعاش'' شوہروں کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے دیکھیں وہ کب شرافت کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

کرکٹ ہو یا بیگم اس پر ہمارا بس تو نہیں چلتا۔ آپ اگر زیادہ بہادر ہیں تو ہوں گے، ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں