علاج معالجہ اور اقربا پروری کا زہر

بڑے بڑے سرکاری اسکولوں اور کالجوں پر تیری میری نجانے کتنی ان گنت نظریں لگی ہیں


Shehla Aijaz March 01, 2016
[email protected]

ملک میں ان دنوں نجی یونیورسٹیوں کی بھرمار ہے یہی نہیں نجی کالج، انگلش میڈیم اسکولز ڈھیروں ادارے سرگرم عمل ہے، سب کے اپنے اپنے اسلوب ہیں لیکن سب کی فیسیں بھاری ہیں۔ لاکھوں روپے سالانہ فیس کی مد میں جب ایک عام گھرانے کا فرد ادا کرتا ہے تو اس کے ساتھ وہ اپنے بچے کے لیے ایک بہت اچھی نوکری کا سپنا بھی بنتا ہے، اس اچھی نوکری اور اچھی تعلیم کے درمیان ایسے لا تعداد نجی ادارے پروان چڑھ رہے ہیں، خوب اچھا کاروبار چل رہا ہے، ظاہر ہے کہ پاکستان کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس تیزی سے حکومت کے لیے اسکولز اور کالجز کا قیام آسان عمل نہیں ہے۔

ہاں یہ الگ بات ہے کہ بڑے بڑے سرکاری اسکولوں اور کالجوں پر تیری میری نجانے کتنی ان گنت نظریں لگی ہیں اور رال ٹپکتے پہاڑ کی صورتیں اختیار کر گئی ہے۔ اسی طرح سرکاری اساتذہ کی تنخواہیں اونچا ڈھیر بنا رہی ہے۔ ورلڈ بینک کی جانب سے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کے لیے ٹھیک ٹھاک وظائف بھی دیے جارہے ہیں۔ این ٹی ایس ٹیسٹ کا شور بھی بہت ہے، بات کدھر سے کدھر جا رہی ہے، خیر! ان تمام اعلیٰ تعلیمی مراکز کا نتیجہ کیا ہے؟

کیا ہمارے یہاں ترقی کی شرح اسی فی صد سے تجاوزکرگئی، کیا ہمارے زرمبادلہ میں اعلیٰ سطح کی شرح ہے کیا ہمارے ملک میں اعلیٰ درجے کے ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ، وکلاء اور اسی طرح کے پروفیشنل افراد میں اضافہ ہوچکا ہے اور اگر اضافہ ہو بھی چکا ہے تو کیا ان کی کارکردگی تسلی بخش ہے؟

ملتان کے ایک نجی اسپتال میں ایک اٹھارہ سالہ لڑکی علاج کے لیے گئی۔ بچی کا شک اور ڈاکٹر کا علم، بہر حال ڈاکٹر نے اپنے علم کے مطابق بچی کی ایک چھاتی یوں الگ کی جیسے قصائی بکری کا گوشت بناتا ہے اور اسے لیبارٹری میں تجزیے کے لیے دوسرے شہر بھیج دیاگیا اس کی پوری طرح لیبارٹری کے اصولوں کے مطابق جانچ پڑتال کی گئی، ڈاکٹر موصوف کا خیال تھا کہ لڑکی کو ٹیومر ہے جو خطرناک حد تک پھیل چکا ہے جب کہ جانچ پڑتال کے بعد ثابت ہوا کہ ایسا ہرگز بھی نہیں ہے۔

سوال یہ تھا کہ کیا ٹیومر یا کینسر کے شک میں ڈاکٹر کے اعلیٰ علم کی بنیاد پر ایسا کرنا درست ہے تو جواب ملا ایک ماہر پیتھالوجسٹ سے، کہ نہیں۔ اس کے باقاعدہ مختلف ادوار ہوتے ہیں اگر اس بات کا شک ہو اور امکان ہو تو پہلے تو انجکشن کے ذریعے مریض کے متاثرہ حصے سے محلول (معمولی مقدار) میں حاصل کیا جاتا ہے اور اس کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لیے بھیجا جاتا ہے اور اگر باریک بینی سے جانچ پڑتال کے بعد یہ ثابت ہوجائے کہ ٹیومر کا امکان قوی ہے تو دوسرے درجے میں مریض کے متاثرہ مقام سے خفیف مقدار میں گوشت کا ریشہ حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اسے لیبارٹری بھیجا جاتا ہے کہ آیا محلول کی نسبت گوشت میں اس مرض کی سرائیت کی کیا کیفیت ہے جب اس درجے کی رپورٹ میں امکان مثبت آتا ہے پھر تیسرے درجے پر اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ اب اس حصے کو علیحدہ کرنا ضروری ہے کیوں کہ وہ متاثرہ حصے کو نقصان پہنچانے کے بعد مزید ٹیسٹ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور یہ سب سے آخری درجہ ہوتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ان اعلیٰ قابلیت والے ڈاکٹر صاحب کے علم کے برخلاف متاثرہ کٹا ہوا حصہ ٹیومرزدہ نہ تھا، اس میں قصور وار کون ہے؟ ڈاکٹر صاحب جو ایک اعلیٰ درجے کی کلینک چلارہے ہیں جہاں وہ جس انسان کے جسم پر شک ہو کاٹا پیٹی کرکے پھینک دیتے ہیں۔ یا وہ معصوم لڑکی جس نے ڈاکٹر صاحب کی اعلیٰ درجے کی کلینک سے متاثر ہوکر ان کی جانب رخ کیا، پیتھالوجسٹ کا کہناتھا کہ میرے لیے یہ عمل ناقابل برداشت تھا جس نے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا اور کہاکہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا۔ جی نہیں بچی کو ٹیومر تھا اور بہت پھیل چکا تھا۔ گویا ایک لا حاصل بحث جاری تھی۔ ناچار خود اپنے ہاتھ سے تمام ٹیسٹ کرنے والے ڈاکٹر نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑائی کہ بہر حال یہ آپ کی اپنی تشخیص تھی لیکن بچی کے سیمپل میں ٹیومر نہیں تھا آپ دعا کریں کہ بچی کے والدین جاہل ہوں جو آپ کے اس جرم کو معاف کرسکیں۔

آج دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے لیکن ہم ابھی تک 1930 کے پھیرے میں گھوم رہے ہیں، ہم ابھی تک قابلیت، اہلیت اور تعلقات کے بیچ دھاگے بنتے رہتے ہیں۔ قابلیت اور اہلیت کے درمیان اگر تعلقات آجائیں تو سمجھ لیں کہ اب اعتبار مشکل ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمیں ہر حال میں صرف رب العزت کی جانب رجوع کرنا چاہیے لیکن جو اسلوب ہمیں ہمارے مذہب کے خوبصورت پیرا ہے میں ملے ہیں وہ ایمانداری، انصاف، قابلیت، اہلیت اور ذمے داری کے پورے تقاضے ادا کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اس میں زیر زبر کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن ہمارے معاشرے میں اب پیسے کے بل بوتے پر عزت، شہرت اور قابلیت بھی خرید لی جاتی ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسے ایسے ڈاکٹرز سامنے آرہے ہیں جنھیں انگریزی میں حلق نہیں لکھنا آتا، تھروٹ انفیکشن کی ہجے میں جو جو تبدیلیاں ایک ڈاکٹر صاحب کے نسخے میں دیکھی جنھوں نے جانچ کے لیے کچھ نمونے بھجوائے تھے، ہماری لیبارٹری میں پہلے تو سمجھ میں ہی نہ آیا کہ حضرت لکھنا کیا چاہتے ہیں حلق اور سوچ میں کتنا فاصلہ ہے اردو زبان میں۔ جب کہ ان صاحب نے انگریزی زبان میں اسے ایک قرار دیا یعنی سوچ انفیکشن اس میں بھی غلطی یعنی Throught اب اسے کیا کہیے؟ رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

اس خوف سے کہ ایسے ایسے ڈاکٹرز کس طرح علاج کرتے ہوںگے۔ ہمارے پاس افغانستان سے بھی نمونے آتے تھے جو نجانے کس کس طرح ٹرکوں میں اور مختلف سواریوں سے ہوتے آتے ہیں نہ پوچھیے کیسے کیسے ہوتے ہیں مرض اتنے بڑے اتنے خوفناک اور ان کے نمونے ایسی بری حالت میں ٹوٹے پھوٹے سمجھ ہی نہ آتی کہ کس طرح انھیں ٹریٹ کیا جائے۔ افغانستان میں ایک طویل عرصے جس طرح تعلیمی اعتبار سے ابتری رہی ایسے ماحول میں وہاں کے ڈاکٹرز کی صورتحال تو پھر بھی گوارہ کرلی جاتی ہے لیکن پاکستان میں یہ صورتحال نہایت دشوار ہے۔

این ٹی ایس ٹیسٹوں کی دھوم ہے، ہم بھی واہ واہ کرتے ہیں پر ان لوگوں سے پوچھیے جو میڈیکل کالجز میں پڑھنے والوں کی کاپیاں چیک کرتے ہیں۔ چوتھے سال کے طالب علم کی کاپی میں سمجھ نہیں آتا کہ کس طرح اسے نکالا جائے۔ جسے آلودگی اور فیصد کے درمیان ہی فرق نہیں معلوم، ذرا اس بچے کی انگریزی کے بارے میں سوچیے وہ کیسے چوتھے سال تک پاس ہوتا آیا لیکن فون آتے ہیں کہ نمبر بڑھادیے جائیں۔

یہ دھمکیاں یہ سفارشیں، پرچیاں، اقرباء پروری،آخر کب تک اس کو کبھی نہ کبھی کے خانے میں ڈال کر 2016کا بٹن آن کردیں آج سے ہی ابھی سے ہی اپنی غرض ایک جانب رکھ کر دوسروں کی جانب دیکھنا سیکھیں کہ ہمیں ان کو بھی اپنا منہ دکھانا ہے کہ جن کی یہ ساری دنیا ہے۔ ذرا سوچیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں