ناامیدی میں امید کی کرن
افغانستان میں طالبان، القاعدہ اور داعش کے درجنوں دھڑے دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں
امریکی سینیٹ کمیٹی برائے امور خارجہ کے اجلاس میں کمیٹی کے بھارت نواز چیئرمین باب کروکر نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان کے اب بھی حقانی نیٹ ورک سے تعلقات قائم ہیں اور وہ حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ کے دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ دے رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان سرحد پر پاکستان کے سوا لاکھ سے زیادہ تعینات فوجیوں نے کامیاب آپریشن کے ذریعے دیگر دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ حقانی نیٹ ورک کو بھی اپنے علاقے سے نکال باہر کیا ہے۔
جان کیری کا پاکستان کے حق میں یہ بیان باعث اطمینان ہے کیونکہ پاکستان پر ایک عرصے سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اس نے حقانی نیٹ ورک کو بطور خاص اپنے ہاں پناہ دی ہوئی ہے اور اس کے دہشت گرد وہاں سے افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ افغان صدر اشرف غنی بھی کرزئی کی زبان بولتے ہوئے حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی حمایت یافتہ قرار دیتے رہے ہیں۔ کابل میں سرکاری دفاتر، بازاروں اور سفارت خانوں پر ہونے والے حملوں میں افغان حکومت کی جانب سے حقانی نیٹ ورک کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
حالانکہ افغانستان میں طالبان، القاعدہ اور داعش کے درجنوں دھڑے دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں جن میں سے بعض کو بھارت اور دیگر بیرونی ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اب یہ بات اظہر من الشمس ہو چکی ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو جاری رکھنے کے لیے کئی طالبان دھڑوں کو کرائے کے فوجیوں کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو اگرچہ پاکستان کئی برس پہلے ہی ملک سے باہر کر چکا تھا مگر بھارت حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں پروپیگنڈہ کرتا رہا تھا۔
حقانی نیٹ ورک کا تعلق افغانستان سے ہے وہ قبائلی علاقوں میں چوری چھپے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو ان کے بچے کچے دہشت گردوں کو بھی دیگر دہشت گردوں کے ساتھ پاکستان سے باہر دھکیل دیا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ کی یہ گواہی کہ انھیں پاکستان سے نکال دیا گیا ہے پاکستان کے لیے بہت اہم ہے مگر جان کیری نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ وہ پاکستان سے بھاگ کر کہاں گئے ہیں۔ وہ سراسر پاکستان سے فرار ہو کر اپنے وطن افغانستان میں کہیں پناہ گزیں ہو گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر اتحادی اور افغان فوجوں نے انھیں اب تک کیوں نشانہ نہیں بنایا۔ اس وقت پاکستان سے فرار ہونے والے کئی بڑے دہشت گرد گروپ افغانستان میں موجود ہیں جن میں فضل اللہ گروپ کا نام سب سے نمایاں ہے گو کہ پاکستانی حکومت نے اسے پکڑ کر اس کے حوالے کرنے یا پھر اس کے نیٹ ورک کا افغانستان میں ہی صفایا کرنے کے لیے افغان حکومت اور اتحادی کمانڈ سے بارہا مطالبہ کیا ہے مگر افسوس کہ اس پر آج تک عمل درآمد نہ ہو سکا۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ڈیڑھ سو بچوں اور اساتذہ کے قتل کا فضل اللہ گروپ ہی ذمے دار ہے پھر افغانستان میں بیٹھے دہشت گرد ہی چار سدہ کے باچاخان کالج پر حملے میں ملوث ہیں۔
افسوس اس بات پر ہے کہ پاکستان نے افغانیوں کی اپنی بساط سے بڑھ کر مدد کی ہے ایک طرف افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کرانے کے لیے اپنی پرخلوص خدمات پیش کیں تو دوسری جانب افغانستان سے نقل مکانی کر کے آنے والے 50 لاکھ مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دی ہے ان کے کھانے پینے اور زندگی کی تمام ضروریات کا خیال رکھا ہے افغانستان کے کئی رہنماؤں نے بھی پاکستان میں پناہ حاصل کی تھی ان میں خود حامد کرزئی بھی شامل تھے مگر انھوں نے پاکستان کے ساتھ طوطا چشمی کی انتہا کر دی تھی۔
اس وقت بھی پاکستان میں تقریباً 25 لاکھ افغان مہاجرین بھی موجود ہیں۔ ان مہاجرین کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ وہ ملک میں دہشت گردی کی مختلف وارداتوں میں ملوث پائے گئے ہیں وہ منشیات فروشی اور اغوا برائے تاوان جیسی کارروائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ وہ کافی تعداد میں اپنے کیمپوں سے نکل کر ملک کے مختلف شہروں میں آباد ہو گئے ہیں۔
کراچی میں اس وقت تقریباً57 ہزار افغان مہاجرین آباد ہیں کراچی میں ان کی موجودگی قیام امن کے سلسلے میں بہت بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ افغان مہاجرین کی منفی سرگرمیوں کی وجہ سے ملک کے کئی رہنماؤں نے انھیں واپس افغانستان بھیجنے کے لیے حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔ ابھی حال میں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز ملک نے بھی وفاقی حکومت سے افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کا پرزور مطالبہ کیا ہے۔ ان کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اگر ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے تو پھر افغانیوں کو فوراً وطن واپس بھیجنا ہو گا۔ یہ لوگ پاکستان میں تقریباً 36 سالوں سے رہ رہے ہیں۔
1979ء میں جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا وہاں سے 50 لاکھ مہاجرین پاکستان میں پناہ گزین ہو گئے تھے یہ شاید دنیا میں کسی ملک میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں کی تعداد تھی اب اس وقت بھی پاکستان ترکی کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ تارکین وطن رکھنے والا ملک ہے۔ حکومت بھی اب ان مہاجرین کا خرچ اٹھا اٹھا کر تنگ آ چکی ہے پہلے عالمی برادری کی جانب سے جو امداد مل رہی تھی وہ اب صرف 23 فی صد باقی رہ گئی ہے پاکستان کے لیے اب ان کا بوجھ اٹھانا مشکل ہو رہا ہے۔ پاکستان کے مطالبے کے باوجود اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (UNHCR) کی جانب سے افغان مہاجرین کو پاکستان میں مزید مدت تک رکھنے کے اصرار پر اب یہ شک پیدا ہونے لگا ہے کہ شاید اقوام متحدہ جان بوجھ کر پاکستان کو مصیبت میں گھرا دیکھنا چاہتا ہے۔
افغان حکمرانوں نے گو کہ پاکستان کے ساتھ دشمنوں جیسا رویہ اختیار کر رکھا ہے مگر اب بھی ان کے 25 لاکھ ہم وطن پاکستان کے مہمان بنے ہوئے ہیں چنانچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھتے اور دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کرتے مگر افسوس کہ وہ پاکستان کے بجائے بھارت کو اپنا نجات دہندہ خیال کر رہے ہیں جب کہ بھارت افغانستان کے دگرگوں حالات کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہا ہے وہ درپردہ افغانستان میں قیام امن کے بجائے دہشت گردی کو جاری رکھنے کا خواہاں ہے۔
دراصل پاکستان کا امن افغانستان میں قیام امن سے جڑا ہوا ہے۔ چنانچہ بھارت افغانستان میں دہشت گردی جاری رکھ کر پاکستان کو امن سے محروم رکھنا چاہتا ہے ساتھ ہی پاکستانی فوج کو مشرقی سرحدوں کی طرح مغربی سرحدوں پر بھی مصروف رکھنا چاہتا ہے جان کیری نے جب سے امریکی وزیر خارجہ کا منصب سنبھالا ہے انھوں نے پاکستان کے ساتھ حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ ہیلری کلنٹن کے زمانے میں پاکستان کے ساتھ جو زیادتیاں اور ناانصافیاں ہوئی تھیں وہ اب انھیں دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بعض امریکی سینیٹروں کی شدید پاکستان مخالف مہم جوئی کے باوجود وہ پاکستان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں وہ پاکستانی حکومت کے کردار کے مداح ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے افغانستان میں پاکستان کے کردار کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا ہے جب کہ پہلے پاکستان کے خلوص پر بھی شک و شبہ کیا جاتا تھا۔
اب افغان صدر اشرف غنی نے نہ صرف پاکستان پر بلاوجہ تنقید کرنا ترک کر دی ہے بلکہ بھارت نواز افغان انٹیلی جنس چیف رحمت اللہ نبیل کو برخاست کر کے بھارت کی پاکستان مخالف مہم کو سرد کر دیا ہے۔ اب اشرف غنی پر شمالی اتحاد کے رہنماؤں کا دباؤ بھی کم نظر آ رہا ہے۔ لگتا ہے پاکستان کو مزید 8 ایف سولہ طیارے بھی جان کیری کی وکالت سے ہی دیے جا رہے ہیں ورنہ امریکا میں موجود بھارتی لابی نے ان طیاروں کی پاکستان کو فراہمی روکنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ تاہم اب پاکستان کو بھی جیسے کو تیسا والا رویہ اپنانا چاہیے۔
پاکستان بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والے ہر ملک سے پرزور احتجاج کرے کہ وہ اسے کسی بھی قسم کا حربی ساز و سامان فراہم کرنے سے باز رہے کیونکہ اس کے فراہم کیے جانے والے ہتھیار اور طیارے بالآخر پاکستان کے خلاف استعمال کیے جائیں گے اور یہ حقیقت بھی ہے۔ کیری کی بدولت ہی اب افغان مسئلے کے حل کے لیے جو چار ملکی مفاہمتی عمل شروع کیا گیا ہے وہ یقینا نتیجہ خیز ثابت ہو گا اور افغانستان کا دیرینہ الجھا ہوا مسئلہ جلد سلجھ جائے گا ساتھ ہی پاکستان بھی مصیبتوں سے نکل جائے گا۔