ہمارا کراچی

آئے دن ٹارگٹ کلنگ سے معمول کی زندگی متاثر ہو رہی ہے کاروبار زندگی کا جاری رکھنا دشوار ہوگیا ہے ۔


Syed Mohsin Kazmi November 09, 2012

712عیسوی میں عرب کا مسلم نوجوان جس کا نام محمد بن قاسم تھا اس نے بحیرہ عرب کے ایک ساحل پر اپنے چند ساتھیوں اورکشتی کے ذریعے فتح حاصل کی یہ ساحل آج بھی کیماڑی کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے اس ساحل کے قریب ترین قریے کا نام عبداﷲ گوٹھ تھا جہاں پر سندھی اور بلوچی آباد تھے۔

1720میں جب ہندوستان پر مغلیہ دور کی حکمرانی تھی تو اس وقت کا منتظم اعلیٰ مرزا غازی بیگ تھا اور تالپوروں کا اثر و رسوخ بہت تھا اور ان ہی کی حکمرانی پورے سندھ پر تھی انھی کے زمانے میں سندھ کے ساحل کا نام کلاچی جوگوٹھ رکھا جو ایک طرف فارس اور دوسری طرف مسقط سے منسلک ہے۔ یہ بحیرہ عرب کا ساحل ہے جب اس ساحل سے عبداللہ گوٹھ جو اب کیماڑی کہلاتا ہے جب نیچے کیطرف اتریں تو وہاں ایک در ہوا کرتا تھا جسکو کھڑا دروازہ کہتے تھے جو آج کھارا در کے نام سے جانا جاتا ہے ایک دوسرا در جوکے دریا کی طرف تھا اس کا نام میٹھا در تھا آج بھی یہ نام میٹھا در کہلاتا ہے۔

1840عیسوی میں یہاں حکومت برطانیہ کا تسلط تھا 17فروری 1843 میں برطانیہ کے میجر چارلس جیمس نیپئر نے اسے سندھ کا کیپٹل بنایا اور اس شہر کلاچی کی ترقی کے لیے 1865عیسوی میں فریئر حال 1890میں ایمپریس مارکیٹ تعمیر ہوئی۔ اسی شہر کے میٹھا در میں 1876 محمد علی جناح پیدا ہوئے۔ اس وقت اس شہر پر انگریز وں کا راج تھا 1900 عیسوی تک اس شہر کی آبادی 105000تھی اور پاک وہند کی آزادی1947کے وقت اس شہر میں 51%ہندو اور 41فی صد مسلم رہا کرتے تھے ۔پاکستان میں پہلا مارشل لاء اکتوبر 1958میں اس وقت کے جنرل محمد ایوب خان نے لگایا اور اسی سال پاکستان کا پہلا دارالخلافہ کراچی سے راولپنڈی منتقل کردیا اور 1960میں اسلام آباد جو بہائوں پرتھا اس کو نیا دارالخلافہ بنایا۔ کنسورشیم کے تعاون سے اربوں روپے مالیت کے قرض سے یہ نیا دارالخلافہ اسلام آباد قائم ہوا اور پاکستان اس دن سے بیرونی قرضے میں اس طرح جکڑتا گیا کہ آج تک ہم مقروض ہیں۔ اس شہرکلاچی کا نام کراچی ہوگیا تواسوقت ایک ادارہ کراچی ڈیولپمنٹ کونسل کے نام سے بنایا گیا۔

جس میں اس شہر کا پانچ سالہ منصوبہ برائے ترقی وتعمیر پیش کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں سڑکیں،نالے ،اسکول ،پارک تعمیر کیے گئے اس پانچ سالہ منصوبہ کو کوریا نے بہت پسند کیا اور انھوں نے بھی ہمارے اس منصوبے کو اپنایا ۔یہ شہر پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شہر بن گیا، یہاں آبادی مناسب تھی اور اسی نسبت سے عوامی سہولتیں تھیں۔ یہ شہر اپنی ترقی و تعمیر،صفائی اور تجارت میں مثال آپ تھا۔ تقسیم ہند کے معاہدے کے تحت اس شہر میں رہنے والے 51فی صد ہندوئوں نے نقل مکانی شروع کی اور پاکستان کی حدودسے ہجرت کرکے ہندوستان کی طرف جانے لگے اور اسی معاہد ے کے تحت ہندوستان کے وہ مسلمان جو قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا قائد سمجھتے تھے اور پاکستان کو ایک مسلم ریاست سمجھتے تھے انھوںنے تبدیلی جائیداد کے معاہدے پر اپنی جائیداد ان ہندوئوں کو دی جو ہندوستان ہجرت کرکے پاکستان سے آئے اور ان کی جائیداد جو کراچی میں تھی وہ مسلمانوں کو اس کے بدلے میں ملی ۔

لاکھوں مسلمانوں نے شہر کراچی میں نقل مکانی کی جو 1950تک جاری تھی۔ اس طرح اس شہر کراچی میں 51فی صد ہندوئوں کے بدلے میں بہت سے مسلمان اس شہر میں آباد ہونے لگے جنھیں مہاجرین کہا جاتا تھا۔ ان مہاجرین میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش ،بہار،سی پی وغیرہ سے آئے مگر یوپی کے مہاجرین کی تعداد زیادہ تھی جو لکھنو،الٰہ آباد، آگرہ، رامپور، حیدرآباد دکن،بہار سے آئے تھے ان کی اکثریت تعلیم یافتہ تھی۔ مہاجرین کی اکثریت اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ تھی۔ اس میں علی گڑھ یونیورسٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مہاجر اساتذہ اور علمی ،ادبی ،مذہبی شخصیت تھیں۔

اس لیے یہاں کی بیوروکریسی میں مہاجرین کا حصہ زیادہ تھا۔مقامی سندھی جن کا پیشہ ماہی گیری اور زراعت تھا وہ اپنی محنت سے اس وطن کو شاد کرتے رہے لیکن 1962کے بعد اس وقت کے فیلڈمارشل محمد ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کی روشنی میں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے انتخابات کروائے۔ ان کے مقابلے پر قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح تھیں جن کو پاکستان میں قائد اعظم کے بعد مقام حاصل تھا۔ان کو پہلے سے تیارشدہ نتائج کی روشنی میں شکست دی گئی اس انتخاب کے نتیجے میں پوراشہر کراچی سراپا احتجاج بن گیا۔ اس وقت کے نوجوان رہنمائوں جیسے مختار رضوی ، سید شہنشاہ حسین ایڈووکیٹ نے محمد ایوب خان کے خلاف احتجاج کیا۔

یہ اس شہر کراچی کا پہلا واقعہ تھا جس میں مہاجرین اور سندھیوں کے مقابلے پر دوسری قوم کو لایا گیا اور اس شہر میں پہلا لسانی فساد برپا ہوا ۔جس کے اثرات اب تک ختم نہ ہوئے اس شہر کے قدیم سندھیوں نے اپنی زمینیں جو گوٹھ کی شکل میں تھیں فروخت کرنی شروع کردی ۔اس طرح ان کے فروخت کیے ہوئے گوٹھوں پر نئی بستیاں آباد ہونے لگی اور یہ شہر بڑی تیزی سے ترقی کرنے لگا یہاں کی مقامی آبادی بڑھنے لگی اور اس شہر میں صوبہ پنجاب اور صوبہ پختون خواہ اور بلوچستان اور مشرقی پاکستان کے لوگ بہت تیزی سے آکرآباد ہونے لگے اور شہر میں آبادی کا تناسب یہاںکی ضروریات زندگی کی سہولتوں کے مقابلہ میں کم ہوتا چلا گیا۔اور 1970کے عام انتخابات میں شہر کے صنعت کاروں اور مزدوروں میں چپقلش بڑھنے لگی ۔

یہاں سب سے زیادہ نقل مکانی کرکے آنے والے پشتون تھے اور 1970میں کراچی میں پشتونوں کی آبادی پشاور سے زیادہ بڑھ گئی صرف کراچی میں 7ملین پشتون تھے جو پشاور ،قندہار اور کابل سے زیادہ بنتی ہے ۔ابھی آبادی کا دبائو جاری تھا کہ 1980سے 1990کے درمیان جب روس نے افغانستان پر دھاوا بولا تو افغان مہاجرین بھی بے حساب آنے لگے اور اب تو یہ شہر جو منی پاکستان کہلاتا ہے ایک مہاجرستان بن گیا۔یہاں سندھی چاہے قدیمی ہوں یا نئے ان کے مقابلہ میں افغانی ،پٹھان ،سرائیکی، بنگالی ،برمی،بنگلہ دیش کے مہاجرین جنھیں بہاری کہا جاتا ہے ان کی آبادی نے اس شہر کے گوناگوں مسائل میں اضافہ کیا ۔اب یہ شہر مسائلستان بن گیا۔یہاں پر تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاست کا گڑھ بنا لیا ۔

آئے دن ٹارگٹ کلنگ جسمیں سب سے زیادہ بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں ۔روزانہ معمول کی زندگی متاثر ہو رہی ہے کاروبار زندگی کا جاری رکھنا دشوارہوگیا ہے ۔تقریباًہر سیاسی جماعت نے مسلح گروپ بنائے ہوئے ہیں بہت سی یونین ان کے زیر اثر ہے ۔جس کا دل چاہتا ہے وہ قتل وغارت کا بازار گرم کردیتا ہے۔اور اس شہر کی زندگی کو مفلوج کردیتا ہے۔خاص طور پر یہ بات توجہ طلب ہے کہ شہر کراچی جو 68فی صد REVENUEپاکستان کو دیتا ہے جہاں ایک روز کی آمدنی 16سے20ارب روپے ہوتی ہے وہاں آئے دن ہڑتال کرکے یہاں کی صنعت اور تجارت کو جو نقصان پہنچایا جاتا ہے جس سے پورا پاکستان متاثر ہوتا ہے۔اس بات پر کوئی توجہ نہیں دیتا ۔نہ کسی سابقہ حکومت نے دی نہ موجودہ حکومت کوئی پائیدار حل تلاش کررہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں