زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب ہماری عدالت عالیہ نے فوراً نفاذ اردو کا حکم دیا تھا۔
کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب ہماری عدالت عالیہ نے فوراً نفاذ اردو کا حکم دیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ اب کوئی وزیر، سفیر اور سربراہ مملکت ملکی و عالمی سطح پر انگریزی میں خطاب نہیں کرے گا۔ مگر ہم نے ہر معاملے میں من مانی کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ اس دوران ہمارے حکمران اعلیٰ کئی بار ممالک غیر میں اپنی انگریزی دانی کا سکہ جما کر آچکے ہیں۔
اب تو چیئرمین سینیٹ نے بھی فرما دیا ہے کہ ''نفاذ اردو کو چھوڑئیے، اس میں کافی وقت لگے گا۔'' وغیرہ وغیرہ۔ گویا 68 برس بھی جب نفاذ اردو کے لیے کافی نہ تھے تو اب اور جانے کتنے برس درکار ہوں گے۔ نفاذ اردو دراصل کبھی کوئی مسئلہ تھا اور نہ ہے، اصل مسئلہ نیت کا ہے۔ اگر کچھ کرنے کی نیت (ارادہ) ہو تو فوراً ہوسکتا ہے۔ آخر ترقیاتی منصوبے بھی تو اربوں کی لاگت سے جلد یا بدیر مکمل ہو ہی رہے ہیں ناں، جب کہ نفاذ اردو میں اربوں کا خرچ نہیں پھر بھلا وہ کام کیوں کیا جائے جس میں اربوں خرچ نہ ہوتے ہوں، تاکہ ہزاروں (لاکھوں نہ سہی) تو کمانے کو ملیں۔
بہرحال بات ہو رہی تھی نیک نیتی کی، اگر نیت ہوتی تو فوری نفاذ نہ سہی کم ازکم اس کی کوشش کا آغاز تو ہوسکتا تھا۔ کسی سرکاری وغیر سرکاری ادارے، کالج، اسکول، جامعات میں اردو کا نفاذ ہونا تو دور ابھی تک تو تیاری بھی شروع نہیں ہوسکی۔ اگر اس سلسلے میں کوئی قباحت (انگریزی دان نوکر شاہی کو) ہے تو جو غیر اردو دان بطور ''تبرک'' بچتے ہیں، ان سے استفادہ کرکے کم ازکم بل بورڈ پر جو رومن میں اردو لکھی جا رہی ہے اس کو ہی درست کروالیا جاتا۔ نصاب تعلیم، دفتری کام وغیرہ کو اگر فوراً اردو میں منتقل کرنا کچھ دشوار ہے (حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں سب کچھ بیک جنبش قلم ممکن ہے) تو دکانوں ہوٹلوں، چائے خانوں کے ناموں کے علاوہ اشتہارات اور اشارتی تختیاں تو اردو میں لکھی جاسکتی ہیں۔
جس قوم کی شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہو وہاں دکانوں، کارخانوں اور سڑکوں کے نام انگریزی میں ہونا چہ معنی دارد؟ 68 برس سے جس طرح نفاذ اردو ٹال مٹول کا شکار ہے اب بھی رہے گی، تاکہ جو چند سرپھرے اردو، ترقی اردو، نفاذ اردو کے لیے اپنی عمریں صرف کر رہے ہیں وہ سب ایک ایک کرکے راہی ملک عدم ہوجائیں، آنے والی نسلوں میں کوئی اردو (الٹی سیدھی بولنے کے علاوہ) پڑھنے لکھنے اور سمجھنے کے قابل رہے گا ہی نہیں تو پھر نفاذ اردو کا کیا جواز؟ نفاذ اردو اگرچہ ایک الگ اور اہم موضوع ہے جس پر علیحدہ ہی لکھا جانا چاہیے مگر میں نے دوسرے ذکر کی تمہید کے طور پر اس پر لکھ دیا۔
قوم کے بے حس رویے کے ساتھ ساتھ شاید اجل نے بھی اردو کے ادیبوں، شعرا، اردو کی ترقی و نفاذ اور دنیا بھر میں اردو کے پھیلاؤ سے دلچسپی رکھنے والوں کو تاک لیا ہے۔ یوں تو ہمارے ہوش سنبھالتے سنبھالتے جانے کتنے اہم ادبا و شعرا راہی ملک عدم ہوگئے مگر گزشتہ دو تین ماہ سے تو گویا ''بچے تھے چند ہی جو زیب داستان کے لیے'' پر فرشتہ اجل کی خاص نظر ہے۔ جمیل الدین عالی گئے، انتظار حسین گئے، ندا فاضلی پھر فاطمہ ثریا بجیا روانہ ہوئیں اور اب دنیائے اردو (ادب) کا ایسا بے لوث، پرجوش، فعال کہ جس کا نعم البدل چراغ لے کر ڈھونڈنے پر بھی نہ ملے یعنی اظہر عباس ہاشمی بھی رخت سفر باندھ کر روانہ ہوگئے۔
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
اظہر عباس ہاشمی نے کئی جہتوں میں اردو کی خدمت کی، دنیا بھر میں اردو سے محبت کرنے والے، شعر کہنے والوں کو ایک جگہ جمع کرنا ان کا سب سے منفرد اور ہمیشہ یاد رکھنے والا کارنامہ رہے گا۔ انھوں نے کراچی میں ساکنان شہر قائد کے تحت عالمی مشاعروں کی جو طرح ڈالی، ان میں جن لوگوں نے ابتدا سے بعد تک شرکت کی وہ واقف ہیں کہ یہ مشاعرے کس قدر منظم، شائستہ، ادبی اقدار کے مطابق ہوتے تھے۔ یہ مشاعرے ساکنان شہر قائد کے روح رواں اظہر عباس ہاشمی اور ان کے رفقائے کار کی بھرپور صلاحیتوں، بہترین انتظام اور کاوش سے ہی پیش کیے جاسکے۔
اظہر عباس اس قدر مردم شناس تھے کہ جس میں جو لیاقت و صلاحیت دیکھتے اس سے وہی کام بڑی خوش اسلوبی سے کروانے کا ہنر بھی جانتے تھے۔ ساکنان شہر قائد کے شاعروں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی جاتیں، جس میں جو صلاحیت ہوتی اس کو کسی کمیٹی کا نگران بنا کر باقی کئی افراد کی ٹیم بنا کر کام کروایا جاتا مثلاً انتخاب شعرا کمیٹی، استقبالیہ کمیٹی، اسٹیج کمیٹی، مجلہ کمیٹی کے علاوہ بیرون ملک اور شہر سے آنے والے شعرا کے قیام کا انتظام ان کی ضروریات کا خیال رکھنے والے کئی کئی ہفتے رات دن محنت کرتے تب کہیں جاکر اتنا منظم اور مکمل ادبی و روایتی فضا میں یہ مشاعرے منعقد ہوتے، جو اذان فجر تک جاری رہتے۔ یہ حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر اتنا بڑا کام کسی بھی فرد واحد کے بس کی بات نہیں، مگر بہت سے افراد کو ساتھ ملا کر کام کرنے کا ہنر بھی ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔
اظہر عباس کو ہم نے کئی روپ میں دیکھا، ادب نواز، ادب پرور، باذوق، فعال اور بے حد منظم شخصیت کے ساتھ ساتھ متحمل مزاج، خود پر ہونے والی تنقید اور لوگوں کے منفی اندازفکر پر کبھی اظہار برہمی نہ کرتے، بلکہ شہر قائد کے کئی نامور اداروں اور افراد کی جانب سے ان پر ''پیسہ کمانے اور بٹورنے'' جیسے رکیک الزامات بھی عائد کیے گئے، تب بھی انھوں نے ان کا کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ ان ہی دنوں آرٹس کونسل کی ایک تقریب میں، میں نے ان سے کہا کہ اس الزام کے جواب میں میرا بہت دل چاہا کہ لکھوں کہ اگر اس طرح دولت کمائی جاسکتی تو پھر آپ بھی کوشش کرلیجیے تو اظہر عباس نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا ''بے بنیاد الزامات کا جواب نہ دینا ہی اصل جواب ہے۔''
میرے شوہر محمود جعفری ساکنان شہر قائد ٹرسٹ کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں اور مشاعروں کی انتخاب شعرا کمیٹی، استقبالیہ، اسٹیج کمیٹی وغیرہ میں اہم فرائض ادا کرتے رہے ہیں، مشاعروں کے سلسلے میں کئی ماہ قبل میٹنگز ہوتیں تو دیگر ارکان کے ساتھ وہ بھی بے حد مصروف ہوتے، کئی کئی دن اور راتیں گھر تک نہ آپاتے تھے، عالمی مشاعرے کے بعد بھی کئی ذیلی مشاعرے، عصرانے، ظہرانے اور عشائیے وغیرہ ہوتے، یوں پوری ٹیم کئی ماہ قبل اور کئی ہفتے بعد بے حد فعال رہتی۔ آج محمود جعفری علالت کے باعث تقریباً گوشہ نشیں ہیں حتیٰ کہ اپنے دیرینہ ساتھی کی نماز جنازہ میں بھی شرکت نہ کرسکے، مگر غم سے نڈھال ہیں۔
اظہر عباس نے ان مشاعروں سے خود کو ذرا دور کرکے دوسروں کو بھی موقع دیا کہ وہ اس سلسلے کو جاری رکھیں۔ ہر سال اب بھی ساکنان شہر قائد کے مشاعرے ہوتے ہیں مگر اب ان میں وہ پہلی سی بات کہاں۔ کچھ شہر کے حالات کے باعث اور کچھ لوگوں کے ادبی ذوق میں میلے ٹھیلوں کا انداز در آنے کے باعث ایکسپو سینٹر میں ہونے والے مشاعرے کا تاثر کچھ یوں تھا کہ جیسے بازار میں کوئی شاعر زبردستی اپنا کلام سنانے پر بضد ہو۔
بہرحال کسی بھی تقریب یا محفل کا انداز سدا ایک سا نہیں رہتا حالات کے ساتھ طریقے بھی بدل جاتے ہیں۔ یہ مشاعرے ہوتے رہیں گے مگر اظہر عباس ہاشمی اب ان میں کبھی نظر نہ آئیں گے۔ وہ صرف ساکنان شہر قائد کے مشاعروں کی حد تک ہی فعال نہ تھے انھوں نے اور کئی انداز سے اردو کی خدمت کی جو تادیر یاد رکھی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے (آمین)