تیرہ نمبر کی قوم
جس دورانیہ یا وقت کی لہر میں پاکستان وجود میں آیا، اسی عرصے میں دنیا کے نقشے پر متعدد نئے ممالک نمودار ہوئے
HAMBURG:
جس دورانیہ یا وقت کی لہر میں پاکستان وجود میں آیا، اسی عرصے میں دنیا کے نقشے پر متعدد نئے ممالک نمودار ہوئے۔ اڑسٹھ سال کے طویل برسوں کے بعد لازم ہے کہ دلیل کی بنیاد پر جائزہ لیں کہ اصل میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ترقی کے کس درجہ پر ہیں اور ہماری سمت یا رفتار کیا ہے۔ پاکستان بننے کے اغراض و مقاصد پر ہر جانب پُرمغز مگر قدرے جذباتی بحث تواتر سے جاری ہے اور رہے گی۔ وجہ یہ ہے کہ ہم مناظرہ کرنے والی قوم ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ بہت بڑا بغداد ہے جس کے ہر گلی اور محلے میں ہر طرح کی بحث ہو رہی ہے۔
ایک دن منیر نیازی سے پوچھا کہ نیازی صاحب! آج آپ نے بڑی قیمتی گھڑی پہنی ہوئی ہے۔ مسکرا کر بولے کہ یہ تیرہ نمبر کی گھڑی ہے۔ میرے لیے یہ جواب حیران کن تھا۔ بتانے لگے کہ دیکھو، میری گھڑی، اصل کی نقل ہے۔ میں اسے دو نمبر اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ دو نمبر چیز اصل کے بہت نزدیک ہوتی ہے۔
میں نے جو گھڑی پہن رکھی ہے، یہ اصل سے اتنی دور ہے کہ میں اسے تیرہ نمبر ہی کہہ سکتا ہوں۔ منیر نیازی کے جواب اور پاکستان کے حالات میں کوئی ربط نظر نہیں آئے گا۔ مگر طالب علم کی نظرمیں گہرا اور سنجیدہ رابط موجود ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم عظیم جدوجہد سے حاصل ہونے والے ملک کی انتہائی ادنیٰ درجے کی کاپی یا نقل ہیں۔ اصل ملک تو کب کا بے معنی بحث و مباحثہ اور سازش کی نظر ہو چکا۔ اس ملک میں سچ بولنے کا نتیجہ انتہائی المناک ہو سکتا ہے۔ یہاں چند لوگ وہ اختیار استعمال کر رہے ہیں جو صرف اور صرف ربِ کائنات کے لیے مختص ہے۔ زندگی اور موت دینے کا طاقتور ترین اختیار۔ معاشرہ میں اختلافی آواز کو جبر کی تلوار سے خاموش کر دیا گیا ہے۔
مغربی ممالک کی مثال دے سکتا ہوں۔ مگر دینا نہیں چاہتا۔ ہمارے اردگرد موجود ممالک اس درجہ آگے نکل چکے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ وہاں سیمینار اور تقاریر نہیں بلکہ کام خود بولتا ہے۔ عوام خود کہتے ہیں کہ ہمارا ملک تیزی سے آگے نکل رہا ہے۔ سنگاپور کی مثال آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ایک دوست نے بتایا کہ وہ دو ممالک کی شہریت لے سکتا ہے۔ امریکا اور سنگاپور۔ اس نے ہجرت کے لیے سنگاپور کا انتخاب کیا۔ یہ چھ برس پہلے کی بات ہے۔
آج بھی یہ ملک ترقی کی شاہراہ پر دوڑتا ہوا وہ گھوڑا ہے جو ہمارے لیے سبق ہے۔ مگر نہیں، ہم کسی منظم یا بامقصد قوم کی تقلید نہیں کریں گے۔ ایسا کرنا ہم اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ ہم تو مشورہ دینے والے کو یہ بتاتے ہیں کہ اصل میں تم بھٹکے ہوئے ہو اور تباہی کے دہانے پر کھڑے ہو۔
سنگاپور کو زبردستی ملائشیا سے علیحدہ کر دیا گیا۔ 1965ء میں آزادی حاصل کرنے والے اس ملک میں ترقی کا نام و نشان نہیں تھا۔ یہ افریقہ کے غریب ترین ملک "گھانا" سے بھی پیچھے تھا۔ ہم فرقے کی بنیاد پر ایک دوسرے کا گلہ کاٹتے ہیں تو 1965ء میں سنگاپور میں "نسل" کی بنیاد پر قتلِ عام جاری تھا۔ یہ نسلی عصبیت بھیانک نوعیت کی تھی۔ لوگ شیشے کی بوتلوں سے خنجر بناتے تھے۔ جہاں بھی انھیں اپنا حریف نظر آتا تھا، اسے نرغے میں لے کر ذبح کر دیتے تھے۔
سنگاپور کی بے مثال ترقی کی چند وجوہات میں سے ایک یہ تھی کہ اس ملک کو بنانے والے تین لیڈر، لی کوان یو، ایس راجرٹنام اور گوکنگ سولی حیرت انگیز صلاحیتوں کے مالک تھے۔ لوگ صرف لی کوان یو کا نام لیتے ہیں۔ مگر وہ اپنے ان دو ساتھیوں کے بغیر غیر فعال تھا۔
گوکنگ سولی کی ذہانت کا اندازہ لگائیے کہ اس نے جاپان کی ترقی کی پالیسی جسے "میجی ریفارمز"کہا جاتا ہے کو باقاعدہ پڑھا، سیکھا اور اسے اپنے ملک میں سختی سے رائج کر دیا۔ ان تینوں نے اپنے ملک کی قسمت بدل دی۔ پاکستان میں قائداعظم کی رحلت کے بعد ان کے کسی ساتھی کو حکومت کرنے کا مکمل اختیار نہیں دیا گیا۔ لیاقت علی خان کی شہادت اس سازش کا نتیجہ تھی جس کا واحد مقصد ملک کو نظریاتی قومی قیادت سے محروم کرنا تھا۔
سنگاپور کی سیاسی قیادت نے دوسرا عظیم فیصلہ یہ صادر کیا کہ اپنی سرکاری مشینری یعنی سرکاری ملازم کو ہر دباؤ سے آزاد کر دیا۔ ان کی تعیناتی، ترقی اور تبادلہ کو سو فیصد میرٹ پر کر دیا گیا۔ تنخواہ اتنی بڑھا دی گئی کہ انھیں اپنی جائز ضروریات کے لیے دوسروں کی جیب کو دیکھنا نہ پڑے۔ قائدین نے یہ بھی ممکن بنایا کہ سرکاری ملازم بمعہ عدلیہ، کا کسی طرف بھی جھکاؤ نہ ہو۔ وہ مکمل طور پر غیرجانبدار رہیں۔ یہ بھی لازم بنایا گیا کہ سرکاری مشینری قومی ترقی میں اپنی ملکی قیادت کے شانہ بشانہ کھڑی ہو۔
ان میں کسی قسم کی لڑائی یا ذہنی دوری نہ ہو۔ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ قائد اعظم اور لی کون یو کے سرکاری ملازم کے متعلق خیالات حیرت انگیز حد تک ایک جیسے تھے۔ اگر دونوں کی تقاریر پر ان محترم قائدین کا نام مٹا دیا جائے، تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ یہ الفاظ اور تقریر کس کی ہے۔ سنگاپور میں حکومتی عمال اپنے فیصلوں میں خود مختار ہیںبلکہ خوفناک حد تک غیر جانبدار بھی ہیں۔ ہماری بیوروکریسی کے ساتھ چھ دہائیوں میں کیا کیا کچھ کیا گیا، اس پر بات کرنا عبث ہے۔ ہر حکمران نے اسے اپنے انگوٹھے تلے رکھنے کی مکمل کوشش کی اور یہ محنت قطعاً رائیگاں نہیں گئی۔
تیسرا فیصلہ یہ کیا گیا کہ سنگاپور کو تجربہ گاہ نہیں بننا چاہیے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ چند سال، مخصوص مقاصد کے لیے ایک طرح کے سیاسی اور انتظامی تجربے کیے جائیں۔ اور پھر ان تمام کو حرف غلط کی طرح مٹا کر نیا عمل شروع کر دیا جائے۔ سنگاپور کی قیادت نے اپنے مسائل کو پہچانا۔ پھر انھوں نے یہ پرکھا کہ دنیا میں کون کون سے ایسے ممالک ہیں جن میں اس نوعیت کی مشکلات موجود ہیں اور وہ کیسے ان پر حاوی ہوئے۔
مشکلات کا حل تلاش کرنے کے بعد کسی بھی صورت میں اس وقت تک نافذ نہیں کیا گیا، جب تک اسے مقامی اور معروضی حقائق کے حساب سے تبدیل نہیں کیا گیا۔ بیرونی تجربات کو مقامی ضروریات اور ذہنیت کے طابع کر دیا گیا۔ نتائج حیرت انگیز نکلے۔ سنگاپور نے بیرونی اور مقامی تجربات کو ایک ایسی مالا میں پرو دیا جس سے ترقی کی دیوی اس خطے پر مہربان ہو گئی۔
اس کے برعکس ہمارے ملک میں ایوب خان کی "بنیادی جمہوریت"، بھٹو کا اسلامی سوشلزم، ضیاء الحق کی مذہبی تنگ نظری کا فلسفہ اور پرویز مشرف کی روشن خیالی، ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ بلاخوف تردید میں یہ عرض کر سکتا ہوں کہ ان قائدین نے نظام کو بہتر بنانے کے بجائے مزید پیچیدہ بنا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا ملک ایک سیاسی، مذہبی، سماجی اور معاشی تجربہ گاہ بن گیا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
سنگاپور کی قیادت نے چوتھا دانش مندانہ فیصلہ یہ کیا کہ کسی بھی بڑی طاقت کا حلیف بننے سے انکار کر دیا۔"سرد جنگ" کے دورانیہ میں امریکا کے بھی نزدیک تھے اور روس سے بھی قربت رکھتے تھے۔ ان کا وزیر خارجہ خود روس گیا اور دعوت دی کہ ان کے بحری جہاز، سنگاپور کی آبی حدود کو بلا خوف و خطر استعمال کر سکتے ہیں۔
ایس راجرٹنام نے دنیا کو پیغام دیا کہ وہ قومی دشمن بنانے پر یقین نہیں رکھتا۔ ان کے کسی بھی ملک سے کوئی بھی اختلاف ہو، مگر وہ اسے دشمن نہیں بنائے گا بلکہ اپنی ساری طاقت عام لوگوں کی بہتری کے لیے استعمال ہونے دے گا۔ جنگ، مسلح جدوجہد اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عمل دخل کو سنگاپور کی خارجہ پالیسی سے اس طرح نکالا گیا کہ آج تک ملک غیر جانبدار ہے۔ لی کون یو یہ کہتا تھا کہ میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ میں اپنے ملک کی ترقی سے ہٹ کر کسی اور ریاست کے معاملات پر سوچوں۔ اب آپ ہماری طرف آئیے۔ ہمارے معاملات اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے سرد یا کشیدہ ہیں۔
افغانستان میں ہم ایک ایسی جنگ شروع کر بیٹھے ہیں، جو ملک کو برباد کر رہی ہے۔ ہندوستان سے جنگیں لڑ لڑ کر اقتصادی طور پر غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں۔ فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں۔ مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ قائد اعظم نے پاکستان اور ہندوستان کے لیے کس طرح کے ہمسایہ ممالک ہونے کے الفاظ کہے تھے۔"امریکا اور کینیڈا"۔ لیکن نہیں، ہم میں سے اکثریت نفرت کی اسیر ہے۔ اب شدت پسندی دونوں ممالک میں تقریباً یکساں ہو چکی ہے۔
ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات انتہائی سرد قسم کے ہیں۔ بہت سی وجوہات اور بھی ہیں، چھوڑیں سنگار پور کی بات کرتے ہیں، سنگاپور غیرملکی امداد پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ بڑے بڑے منصوبوں کے بجائے ترقی کی چھوٹی چھوٹی منزلیں عبور کرنا زیادہ ضروری سمھتا ہے ۔ وہاں تمام نسلی گروہوںسے یکساں سلوک کیا جاتا ہے۔ انھوں نے ہر گروہ کی زبان کو قومی زبان کا درجہ دے دیا ہے۔ وہ سو سال سے کم عرصے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔
اپنے ملک کی جانب دیکھتے ہوئے عجیب کیفیت ہو جاتی ہے۔ ہر طرف تعصبات کی فصیلیں ہیں جنہوں نے ترقی کو ہماری حدود میں آنے سے روک رکھا ہے۔ ہم لوگ تشدد پسند رویے کو اپنانا فخر سمجھتے ہیں۔ ہر شخص اور گروہ اپنی بات کو حرف آخر سمجھتا ہے۔ دوسرے ملکوں کے اچھے تجربات سے سیکھنا وطن فروشی کے برابر کر دیا گیا ہے۔ حادثات، تجربات اور تنگ نظری نے ہمیں تیرہ نمبر کی قوم بنا دیا ہے۔ اصل سے بہت دور۔