ضرورت مند اور لالچی میں فرق
ترقی یافتہ ممالک میں دنیا بھر کے کرپشن کے معاملات میں ملوث بدنام لوگ بڑی آسانی سے پناہ حاصل کر لیتے ہیں
ترقی یافتہ ممالک میں دنیا بھر کے کرپشن کے معاملات میں ملوث بدنام لوگ بڑی آسانی سے پناہ حاصل کر لیتے ہیں جو بڑی قابل مذمت بات ہے۔
انھی ملکوں میں کرپشن کو ختم کرنے کے لیے بڑے بڑے سیمینار اور کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں جن میں عالمی شہرت کے ماہرین تیسری دنیا کے ممالک میں کرپشن کے انسداد کے طریقے بتاتے ہیں حالانکہ یہ ساری منافقانہ باتیں ہوتی ہیں کیونکہ بڑے پیمانے پر کرپشن کرنے والے اپنی لوٹی ہوئی دولت انھی ممالک کے بینکوں میں جمع کراتے ہیں، بیش قیمت جائیدادیں خریدتے ہیں اور سرمایہ کاریاں وغیرہ کرتے ہیں جب کہ ان ترقی یافتہ ملکوں کے لیڈروں کو سب پتہ ہوتا ہے کہ یہ لوٹ مار کی رقوم ہیں جن کے انسداد کے بارے میں وہ کانفرنسیں اور سیمینار منعقد کرتے ہیں۔ لندن کی ہائیڈ پارک اور گولڈن اسکوائر کے علاقے میں خریدی گئی غیر معمولی مالیت کی جائیدادیں اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کا ایک ذریعہ بنتی ہیں۔
اگرچہ ان ملکوں نے غیر قانونی دولت کے بارے میں بظاہر بڑے سخت قوانین بنا رکھے ہیں لیکن برطانوی حکومت سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی چشم پوشی اختیار کر لیتی ہے حالانکہ تیسری دنیا کے ممالک جہاں سے یہ دولت لوٹی جاتی ہے بار بار درخواستیں کرتے ہیں کہ ان کی رقوم انھیں واپس دی جائیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔
اس حوالے سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی حکمران منی لانڈرنگ کے خلاف بڑے بلند بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ کالے دھن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ برطانیہ میں دو درجن سے زیادہ کمپنیاں ہیں جو منی لانڈرنگ میں ''فرنٹ مین'' کا کردار ادا کرتی ہیں اور کسی کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس لوٹ مار میں اصل ہاتھ کن ''نیک نام'' لوگوں کا ہے۔
ان کمپنیوں کے قواعد و ضوابط میں رازداری کی بھی ایک شق ہوتی ہے جس کی وجہ سے بڑے بڑے مجرموں کو اخفائے راز کی گنجائش مل جاتی ہے۔ مشہور برطانوی اخبار ''انڈی پینڈنٹ'' کے سبکدوش ہونے والے ڈپٹی بزنس ایڈیٹر جم آرمیٹیج کے مطابق یورپ میں فرنٹ مین کا کردار ادا کرنے والی بہت بڑی کمپنیوں کے خلاف ایک تحقیقات ہو رہی ہے جنہوں نے کم از کم بیس ارب ڈالر کی ناجائز رقوم کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی ہے تا کہ اس کالے دھن کے مالک اسے کسی شک و شبہ کے بغیر جہاں چاہیں استعمال کر سکیں۔ اس مقصد کی خاطر انھوں نے باقاعدہ ''سرٹیفائیڈ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس'' رکھے ہوئے ہیں جنھیں ''کنسلٹنٹس'' کا نام دیا جاتا ہے جو مجرموں کی اس قسم کی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔
ان کرپٹ کمپنیوں کی اکثریت کو ''ضرورت مند'' کہا جاتا ہے جن کی تعداد تقریباً 95 فیصد ہے جب کہ ''لالچی'' کے ضمن میں 5 فیصد سے بھی کم کمپنیوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ اصل میں یہ 5فیصد لالچی وہ کمپنیاں ہیں جو 95 فیصد دولت ہڑپ کر لیتی ہیں جب کہ ضرورت مندوں کے کھانے پینے اور بنیادی ضروریات کے لیے 5 فیصد رقم بھی نہیں بچتی۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں۔
جنہوں نے اپنے اہل خانہ کو پالنے پوسنے کے علاوہ گھر کا کرایہ، بجلی، پانی کے بل، بچوں کے اسکول کی فیسیں، میڈیکل اخراجات، رکشے اور بس کے کرائے وغیرہ بھی ادا کرنا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں مجبوراً کرپشن کرنی پڑتی ہے لیکن ان لوگوں کی تمام رقم بالآخر ملک کی معیشت میں واپس شامل ہوجاتی ہے۔ قانونی کاروبار کالے دھن کو سفید کرنے کا سب سے بہترین ''کیموفلاج'' ہوتا ہے۔ مجرم لوگوں کو اپنی ناجائز دولت کو قانونی شکل دینے کے لیے سرکاری دستاویزات درکار ہوتی ہیں۔ آج جدید ٹیکنالوجی کے دور میں الیکٹرانک فارینسنگ کے ذریعے ایک دن میں ہی پتہ چل سکتا ہے کہ آیا کسی رقم پر ٹیکس ادا کیا۔
یہ کالا دھن ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت میں مزید فروغ کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا وہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس کے بارے میں کوئی تحقیقات نہیں کریں گے جب کہ زبانی طور پر کرپشن کے خلاف بڑے بلند بانگ دعوے بھی کرتے رہیں گے۔ کالا دھن زیادہ تر بڑے پیمانے پر ٹیکس بچا کر حاصل کیا جاتا ہے لیکن چونکہ ترقی یافتہ ملکوں کی مالیاتی مارکیٹ میں انھیں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا موقع ملتا ہے لہٰذا وہ کالے دھن کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
لندن کی ہائیڈپارک کے اردگرد کا علاقہ اس قدر مہنگا ہے کہ وہاں پر مالدار مقامی لوگ بھی کوئی جائیداد نہیں خرید سکتے جب کہ پاکستانی اپنی ناجائز کمائی سے یہاں پُر تعیش رہائشی عمارتیں خریدتے ہیں۔ اصولاً تو تمام لین دین لازمی طور پر کھلا اور صاف شفاف ہونا چاہیے تا کہ ایک جمہوری نظام میں ان کی جانچ پڑتال کی جا سکے بالخصوص اگر میڈیا دیانتداری سے اپنے فرائض انجام دے تو بددیانتی کو چھپانا ناممکن ہو جاتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے میڈیا سے متعلقہ بہت سے ذمے داروں کی ساکھ شکوک و شبہات سے بالاتر نہیں رہی اور اس حوالے سے جو خبریں یا آرٹیکل وغیرہ شایع ہوتے ہیں' ان میں کرپٹ افراد کے نام جان بوجھ کر حذف کر دیے جاتے ہیں، احتساب کی یہی کمی کرپشن کو ہوا دیتی ہے۔
لیکن جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے وہ خواہ ضرورت مند کرے یا لالچی کرے دونوں صورتوں میں وہ ناجائز ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے عوام بار بار مطالبہ کرتے ہیں کہ احتساب کا نظام مؤثر بنایا جائے اور بدعنوانوں پر سخت قوانین نافذ کیے جائیں لیکن بعض مشہور شخصیات بھی اپنے بچاؤ کے راستے ڈھونڈ لیتی ہیں۔ جن لوگوں کے خلاف سوئٹزرلینڈ میں عدالتی کارروائی ہو رہی تھیں وہ کسی انجام تک نہیں پہنچ پائیں حالانکہ اگر ذمے داروں کو سخت سزائیں نہ دی جائیں تو اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ کرپشن پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے بلکہ اس کے مزید پھلنے پھولنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
آپ اس بدقماش کی مثال لیں جو ایک اعلیٰ درجے کے آئینی منصب پر فائز ہو اور اپنے میڈیکل بل میں 10,000 امریکی ڈالر کی رقم طلب کر لے اور کہے کہ یہ اس کی بیوی کی بیماری پر خرچ آیا۔ یہ چیک وہ اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرانے کے بعد اعلان کر دے کہ چیک تو گم ہو گیا ہے لہٰذا مزید 10,000 ڈالر کی ادائیگی کی جائے۔ سفارت خانے نے اس حوالے سے ایک سرکاری ایجنسی کے ذریعے تحقیقات کا حکم دیا تو اس نے فوری طور پر مزید رقم مانگنے کا تقاضا واپس لے لیا۔ ہماری آئینی منافقت کی وجہ سے ہم جانے بوجھے کرپٹ بدمعاشوں کے احتساب سے قاصر ہیں۔
کیپٹن عمیر عبداللہ عباسی اور وادیٔ شوال میں ان کے ہمراہ شہید ہونیوالے 3 فوجیوں کی نماز جنازہ کے موقع پر جنرل راحیل شریف نے کہا 'کہ ''آرمی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے آخری حد تک جائے گی اور یہ کہ شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔'' میری شہید عمیر کے ساتھ بریگیڈیئر تاج کے پوتے کی شادی پر مختصر سی ملاقات ہوئی تھی اور یہ نوجوان اور خوبصورت افسر دلہن کا بھائی تھا۔
ایک طرف ہم اپنے شہیدوں کے لیے اپنے دلی جذبات نچھاور کرتے ہیں اور اپنے چیف آف آرمی اسٹاف کے جذبات کی قدر کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی کرپشن کے خلاف ہماری بیتابی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی نے جڑیں کرپشن کی وجہ سے ہی پکڑیں۔ جب ہم اپنے عمیر جیسے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں وہاں ہم یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ ہماری فوجی قیادت دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرے اور اپنے حتمی مقاصد حاصل کر لے۔