ہنوز الیکشن دور است
کافی عرصہ قبل میں نے اپنے ایک کالج کے کلاس فیلو کو اس کی فرمائش پر ایک چارٹ بنا کر دیا تھا
PESHAWAR/
ISLAMABAD:
کافی عرصہ قبل میں نے اپنے ایک کالج کے کلاس فیلو کو اس کی فرمائش پر ایک چارٹ بنا کر دیا تھا۔ اس کے والد ایک الیکشن لڑنے کی تیاری میں تھے۔ مجھ سے الیکشن جیتنے کا نسخہ پوچھا تو میں نے اسے کاغذ قلم پکڑایا اور مذاق مذاق میں لکھوانا شروع کر دیا۔ میں اس بات کو بھول بھی گیا تھا لیکن ایک روز میرا وہ دوست ملنے آ گیا اور اپنی گاڑی میں سے فروٹ کا ٹوکرا نکلوا کر مجھ سے بغلگیر ہو گیا۔ خوش خبری یہ تھی اس کا والد ممبر اسمبلی کی سیٹ جیت چکا تھا۔
اسمبلی کی وہ سیٹ اگرچہ ان کی فیملی سیٹ یعنی وراثت میں آنے والی ممبرشپ تھی لیکن گزشتہ انتخابات میں بہت زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے چھن گئی تھی۔ لیکن میرے دوست کا خیال تھا کہ اس بار جیت کا کریڈٹ میرے نسخے کو جاتا تھا جس پر من و عن عمل کیا گیا تھا اور یہ نسخہ تو فقط چارٹ پر اتاری گئی منازل تھیں جن پر الیکشن کی ترتیب کے تمام لازمی مراحل تحریر تھے اور دلچسپ بات یہ کہ الیکشن لڑنا نہ میری فیملی کے کسی ممبر کا پیشہ تھا اور نہ سیاست سے کسی کا دور کا تعلق رہا۔
یہ ضرور تھا کہ احباب کی محفلوں میں ایسے دوست بھی شامل تھے جو سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے ریٹرننگ آفیسر کی خدمات پر مامور ہونے کی بناء پر الیکشن کرانے کا تجربہ رکھتے تھے اور اس موضوع پر بات چیت کرتے رہتے تھے اور اس دوران جو کچھ میرے پلے پڑا میں نے اسی سے خوشہ چینی کرتے ہوئے اپنے دوست کو اس کے اصرار پر بڑے اعتماد سے شنید کی بنیاد پر الیکشن میں کامیابی کے لیے چارٹ ڈکٹیٹ کرا دیا تھا۔
الیکشن کامیاب ہونے کے لیے چارٹ کے چند نقطے تحریر کرنے سے پہلے یہ ذکر بہت سوں کے لیے اچنبھے والا نہیں ہو گا کہ سیاست ایک موذی مرض ہے اور جو شخص ایک بار کامیابی سے ہمکنار ہو جائے، سمجھئے سیاست اس کے خون میں داخل ہو گئی ہے اور اگر کامیابی کے بعد اس کے گھر میں جھنڈے والی کار گھس گئی تو گویا بدروح نے وہاں ٹھکانہ کر لیا۔
یہ مثال البتہ صرف وہاں صادق آتی ہے جہاں لوگ سیاست کو کاروبار سمجھ کر اختیار کرتے ہیں کیونکہ ہندی کہاوت ہے اور یہ سچی کہاوت ہے کہ ''راجہ بیوپاری پرجا بھکاری'' لیکن جو لوگ سیاست کو عبادت سمجھ کر اختیار کرتے ہیں، عوام کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ وہ خود ثواب کماتے اور لوگوں کی دعائیں لیتے ہیں لیکن ملک کے بازار سیاست میں تو منڈی لگی ہوئی ہے جس میں ہر کوئی بیوپاری ہے۔ سیاست بڑی تیزی سے وراثت در وراثت میں منتقل ہو کر چند گھرانوں کی لونڈی کے فرائض بطریق احسن انجام دے رہی ہے۔
اب میں الیکشن میں کامیابی کے ٹارگٹ کے حصول تک کے مراحل کا ذکر کروں جن کے بغیر منزل مراد تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔
(1) الیکشن کے امیدوار کو اپنے حلقہ انتخاب کا مکمل دورہ کر کے تسلی کرنی چاہیے تا کہ Constituency میں شامل گھرانوں یعنی ووٹروں کی شمولیت کے حوالے سے دانستہ یا نادانستہ غلطی نہ ہو گئی ہو۔
(2) بہتر ہو گا کہ امیدوار گھروں کا دروازہ کھٹکھٹا کر سلام دعا بھی کرے تا کہ ووٹر ممنون ہو اور تعارف بھی ہو جائے۔
(3) تسلی کی جائے کہ حلقہ کے تمام موافق ووٹروں کا نام ووٹرز لسٹ میں درج ہے اور کسی قسم کی کتابت کی غلطی نہیں۔
(4) مخالف فریق مرحومین تک کا نام ووٹرز لسٹ میں شامل کروا لیتے ہیں اس لیے چیکنگ کر لینا ضروری ہے۔
(5) حلقہ انتخاب کی ڈیمارکیشن میں مخالف فریق اپنی موافق آبادی حلقے کے اندر لے آنے اور مخالف گھرانوں کو باہر نکلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس شرارت کی نگرانی بے حد ضروری ہے۔
(6) ووٹر کی پہچان اس کا شناختی کارڈ ہوتا ہے۔ نوٹس میں آیا ہے کہ جعلساز ایک سے زیادہ شناختی کارڈ بنوا کر ایک سے زیادہ پولنگ اسٹیشنز پر ووٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(7) مخالف امیدوار کئی سو غنڈہ قسم کے عناصر کے ذریعے دوسرے امیدواروں کے ووٹروں کو ڈرا دھمکا کر پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے سے روکنے کا حربہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس کا سدباب ضروری ہے۔
(8) ووٹروں کی سہولت کے لیے امیدوار کو پولنگ کیمپ میں تجربہ کار اور ریکارڈ سے لیس ورکرز کے ذریعے ووٹروں کی رہنمائی کرنا اہم ہے۔
(9) پولنگ اسٹیشن کے اندر ہر پولنگ بوتھ پر ووٹروں کی جعلسازی روکنے کے لیے علاقے اور ووٹروں سے واقف پولنگ ایجنٹس جو جعلی ووٹروں کو چیلنج اور روک ٹوک کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں، بے حد اہم ہوتے ہیں۔
(10) بااثر امیدوار اپنی مرضی اور پسند کے پولنگ عملہ کی تعیناتی کروا لیں تو پولنگ اسٹیشن پر ان کی حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ پولنگ اسٹاف ایک امیدوار کو جتوانے یا ہرانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اکثر اوقات حکومت وقت کے ساتھی امیدوار اپنی لسٹیں دے کر عملہ تعینات کروا لیتے ہیں۔
(11) پوسٹر، بینر امیدواروں کو ووٹروں سے متعارف کرواتے اور راستوں، گلیوں، بازاروں کو سجاتے ہیں۔ ان پوسٹروں اور بینرز کو مخالف امیدوار کے ورکر اتارنے اور توڑنے کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ ان کی حفاظت اہم کام ہے۔
(12) پولنگ کی صبح اپنے ووٹروں کو گھروں سے نکالنا اور پولنگ اسٹیشن پر لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت نتائج کا پانسہ پلٹ دیتی ہے۔
(13) الیکشن کے دن ووٹر VIP ہوتا ہے اس کے لیے امیدوار چائے پانی کا بندوست کر دے، ووٹ یقینی ہو سکتا ہے۔
(14) انگوٹھے پر انمٹ سیاہی کا نشان دوہرے ووٹ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔
(15) ووٹر کو پولنگ اسٹیشن تک ٹرانسپورٹ کرنے کے علاوہ واپسی پر کھانا کھلا کر واپس گھر چھوڑنا یقینی ہو تو عام اور غریب ووٹر اپنے امیدوار کو مایوس نہیں کرتا۔
دیانت دار اور سخت گیر ریٹرننگ آفیسر دھاندلی روکنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
آخری بات یہ کہ ان تمام کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کل تو قومی اسمبلی کا الیکشن کروڑوں روپے کے بجٹ کا تقاضا کرتا ہے۔ امیدوار کو الیکشن لڑنے سے پہلے اپنے بجٹ کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔ اگر اس کے پاس رقم کم ہو تو فنانسر تلاش کر کے الیکشن میں اترنا چاہیے۔