شام میں سیزفائرمکمل امن میں بدلے گا

اہم ترین سوال یہ ہے کہ بشارالاسد نے مزید اقتدارپر اصرارکیاتومنظرنامہ کیسا ہوگا؟


اہم ترین سوال یہ ہے کہ بشارالاسد نے مزید اقتدارپر اصرارکیاتومنظرنامہ کیسا ہوگا؟ ۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام میں فائر بندی کی قرارداد منظور کرتے ہوئے فریقین پر بات چیت کی جلد بحالی پر زور دیا ہے۔ امریکہ نے شام میں جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے لاکھوں شامیوں کی زندگی بدلنے کا موقع ملے گا۔روس نے بھی غیر مشروط جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ شام کے بحران کے حل کا سنہری موقع ہے۔

اس تاریخی موقعے کو ہاتھ نہیں جانا چاہیے۔ مصر نے بھی شام میں فائر بندی کی حمایت کی اور تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ عملا جنگ بندی کرتے ہوئے ہرقسم کے تشدد کے راستے بند کریں۔ فرانس کا کہنا ہے کہ شام کا مسئلہ زبانی دعوؤں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے حل ہوگا۔ اس لیے تمام فریقین جنگ بندی کے تمام تقاضوں کو ان کی روح کے مطابق پورا کرنے کی کوشش کریں۔

شامی اپوزیشن کی نمائندہ عسکری تنظیم 'جیش الحر' نے بھی ملک میں جنگ بندی کی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی پابندی کی یقین دہانی کرائی۔ اپوزیشن کی حمایت کرنے والے 97 عسکری گروپوں نے بھی شام میں جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوئے اس کی پاسداری کا یقین دلایا ہے۔شامی اپوزیشن کی نمائندہ سپریم کونسل کے چیئرمین ریاض حجاب نے کہا ہے کہ ہم پورے اخلاص کے ساتھ شامی قوم کے مفاد میں جنگ بندی پر تیار ہیں لیکن ہم باہر سے مسلط کردہ ایسا کوئی حل قبول نہیں کریں گے جس میں شامی قوم کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کی جائے۔

ریاض حجاب کے بقول موجودہ وقت میں بات چیت اور جنگ بندی کا مقصد متاثرہ شہریوں تک امداد کی فراہمی ہے۔ ہم بھی اقوام متحدہ کی شام میں انسانی امداد سے متعلق قرارداد 2254 کی پابندی کریں گے۔ شامی حکومت سے بھی ہمیں یہی توقع ہے کہ وہ جنگ بندی کے دوران متاثرہ علاقوں تک امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدانہیں کرے گی۔تاہم ہمیں خدشہ ہے کہ بشارالاسد کی فوج اور اس کے حامی اجرتی قاتل جارحیت کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔

دوسری جانب شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن دی مسٹورا نے کہا ہے کہ وہ سات مارچ سے شامی بحران پر بات چیت کی تیاری کررہے ہیں۔ انہوں نے شامی حکومت اور اپوزیشن سے بامقصد مذاکرات کے لیے خود کو تیار رکھنے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ محاصرہ زدہ علاقوں میں امداد کی فوری فراہمی ہمارا اہم ہدف ہے جس کے لیے ہم شامی حکومت اور دوسرے گروپوں کے ساتھ رابطے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سلامتی کونسل میں قرارداد سے کچھ ہی دیر بعد بشارالاسد کی فوج حمص کے علاقے تلبیسیہ اور درعا میں بمباری کرکے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کرتی رہی۔حالانکہ اقوام متحدہ کے مندوب نے دعویٰ کیا تھا کہ شامی حکومت نے بھی جنگ بندی کی تجاویز قبول کرتے ہوئے فضائی بمباری سمیت ہرقسم کی طاقت کے استعمال سے گریز کی یقین دہانی کرائی ہے۔

جس روز امریکہ اور روس نے شام میں عارضی فائربندی پر اتفاق کیا، اسی روز بشارالاسد نے ایک فرمان کے ذریعے ملک میں پارلیمانی انتخابات 13 اپریل کو منعقد کرانے کا اعلان کردیا۔اپوزیشن مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان ریاض نعسان نے بیان جاری کیا کہ جنگ میں گھرے ملک میں پارلیمانی انتخاب کا اعلان کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔ بشار الاسد کی جانب سے پارلیمانی انتخاب کا اعلان لوگوں کو مصروف رکھنے کی کوشش ہے۔ انتخابات کے اعلان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بشار الاسد سیز فائر یا مذاکرات میں سنجیدہ نہیں''۔

بشارالاسد چاہتے ہیں کہ مذاکرات جیسے بھی ہوں،ان کے اقتدار پر سوال نہیں اٹھناچاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کے دوران اپنے انتخابات منعقد کرا کے بدستور شام پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔گزشتہ ہفتے انھوں نے ایک غیرملکی خبررساں ادارے سے انٹرویو میں دعویٰ کیاتھا کہ وہ اپنے ملک کے تمام حصے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرلیں گے مگر ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ان کی فوج کسی بھی ہچکچاہٹ کے بغیر تمام شام کا کنٹرول حاصل کرلے گی مگر ان کا کہنا تھا کہ علاقائی طاقتوں کی مداخلت کے باعث اس مسئلے کے مکمل حل میں وقت لگے گا اور اس میں بھاری قیمت بھی چکانا ہوگی۔

بشار الاسد کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ملک میں جاری تنازعے کے خاتمے کے سیاسی حل کی تلاش کیلئے تیار ہیں مگر وہ دہشت گردوں کے خلاف لڑائی ختم نہیں کریںگے۔ بشارالاسد کہتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں آج کے بعد دس سال تک شام کے نجات دہندہ کے طور پر یاد رکھا جائے۔ وہ ایک شرط پر جنگ بندی کے لیے تیار ہیں اور وہ یہ کہ باغی اور ان کے بین الاقوامی مددگار ترکی وغیرہ اس کو دوبارہ منظم ہونے کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال نہ کریں۔انھوں نے کہا:'' اگر شامی عوام مجھے اقتدار میں دیکھناچاہتے ہیں تو میں رہوں گا۔

بشارالاسد کے ان خیالات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ صرف اور صرف بشارالاسد والا شام چاہتے ہیں۔ تاہم ترکی اورسعودی عرب بار بار واشگاف اندازمیں کہہ رہے ہیں کہ شام کے مستقبل میں بشارالاسد کا کوئی کردار نہیں ہے۔ سعودی عرب اپنا موقف مزید واضح کرتے ہوئے ایران کو بھی شام کے مسئلے میں کسی قسم کا کوئی کردار دینے کو تیارنہیں۔

سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر کا کہناہے کہ شام میں جاری تنازعے کے حل اور وہاں امن کوششوں میں ایران کے کردار سے متعلق کچھ سوچنا بھی مشکل ہے کیونکہ وہ شامی تنازعے میں ایک فوجی کردار ادا کررہا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے کہ کیا ایران کو شامی بحران کے حل میں کردار ادا کرنا چاہیے؟اس کے لیے ایران کو شام سے انخلاء کرنا ہو گا،اپنی آلہ کار شیعہ ملیشیاؤں کو واپس بلانا ہوگا،بشارالاسد کی حکومت کو ہتھیار مہیا کرنے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔اس کے بعد ہی بحران کے حل میں اس کا کوئی کردار ہوسکتا ہے''۔

بشارالاسد کو برقرار رکھنے کے لئے ایران ایڑی چوٹی کا زور لگا رہاہے تاہم روس مشکل میں ہے۔ ظاہر ہے کہ روس نے اس سوال کا جواب بھی تیار کررکھا ہے کہ اگر بشارالاسد نہ رہا تو پھر اس کا شام کی بابت کیا کردار ہوگا؟ اگرچہ بشارالاسد کے نزدیک اپنی بقا باقی ساری دنیا کی بقا سے زیادہ اہم ہے تاہم روس ایسا انہیں سمجھتا۔ اس مرحلے پر دونوں کے مابین اختلافات بھی محسوس کئے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں روس کے مستقل مندوب وتالی چورکن کا کہنا خاصی معنی خیز ہے کہ اگرشامی حکام روس کے نقش قدم پر نہ چلے تو روس کے پاس اس بحران سے باعزت طور پر نکل جانے کا راستہ بھی موجود ہے۔

اس کا واضح مطلب ہے کہ روس کے خیال میں بشارالاسد ویسا نہیں کررہے جیسا روس چاہتا ہے۔چورکن نے بشارالاسد کو یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ وہ پورے شام پر حکمرانی کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روس نے اس بحران میں سیاسی، سفارتی اور اب فوجی شعبے میں بڑی سنجیدگی سے سرمایہ کاری کی ہے،اس لئے ہم چاہیں گے کہ بشارالاسد بھی اس کا جواب دیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ شامی صدر کا موقف روس کی جانب سے کی جانے والی سفارتی کوششوں کے مطابق نہیں ہے۔دوسری طرف روس دنیا کوبھی یقین دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ بشارالاسد کی باتوں پر دھیان نہ دے، صرف یہ دیکھے کہ وہ آخر کار کیا کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ امن عمل کی جانب پہلا قدم سیزفائر کامیاب ہوگا؟
اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ایک دلچسپ حقیقت جان لیجئے کہ بشارالاسد، ایران، روس، سعودی عرب اور ترکی سمیت ہرکوئی داعش سے لڑنے کا نعرہ لگاکرشام میں اترتاہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہرکوئی داعش کے نام پر اپنا ہی الو سیدھا کررہاہے۔ اس دوران کوئی فریق بھی ایسا نہیں جسے شام میں بڑے نقصان سے دوچارنہ ہونا پڑا ہو۔

جو جتنا دخیل ہے، اتنا ہی نقصان برداشت کررہاہے۔ ایران نے براہ راست شام میں مداخلت کی، اپنی فوج بھیجی، اس لئے اس کا جانی نقصان بھی بقدرجثہ خاصا ہورہاہے۔آخری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ اکتوبر میں روس کی فضائی مداخلت کے بعد سے شام میں اب تک پاسداران انقلاب کے 250 سے زیادہ ارکان مارے جا چکے ہیں، جن میں بڑے جنرل اور افسران بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب کا کردار بلواسطہ ہے، وہ گزشتہ چار برس سے شام میں ایران کی جارحانہ پالیسی کے جواب میں محتاط ردعمل کا مظاہرہ کررہا تھا تاہم گزشتہ دو ماہ کے دوران میں وہ نسبتاً زیادہ سرگرم ہوا ہے۔34 ممالک پر مشتمل اسلامی اتحاد کی تشکیل پہلی بھرپور چال تھی جس نے ایران اور شام کے اسد خاندان کوپریشان کیا۔

اگلے مرحلے میں سعودی عرب نے شام میں داعش کے خلاف کارروائی کا اعلان کردیا، اس کے لئے ترکی کا فضائی راستہ استعمال کیا۔ بشارالاسد کے لئے مشکل یہ بھی تھی کہ اس کی امداد کو شام میں داخل ہونے والا روس سعودی عرب کی مداخلت کے خلاف زبانی ردعمل بھی ظاہر نہیں کرسکتا۔ اس کے سعودی عرب کے ساتھ بھی اتنے ہی اچھے تعلقات ہیں جتنے ایران کے ساتھ۔ روس ترکی کے ساتھ پہلے ہی بگاڑ چکا ہے، اب سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات خراب کرلے تو مشرق وسطیٰ میں روس کے پلے کیا رہے گا؟عرب دنیا کے باقی ممالک سعودی عرب سے الگ ہوکے نہیں چل سکتے۔اس تناظر میں روس مشرق وسطیٰ کی بابت اپنے دیرینہ خواب چکنا چور نہیں کرسکتا، وہ ایران کی قیمت پر مشرق وسطیٰ بلکہ پوری عرب دنیا سے تعلقات خراب نہیں کرسکتا۔ روس یہ بھی جانتا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں چونتیس ملکی اسلامی اتحاد کی تشکیل سے دنیا کا نقشہ تبدیل ہوچکا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی خرابی کا مطلب باقی کے تینتیس مسلمان ممالک سے تعلقات میں پیچیدگی ہوگا۔

مذاکرات کی میز پر بشارالاسد کی رخصتی کے طریقہ کار پر بات ہوسکتی ہے لیکن انھیں برقرار رکھنے کاآپشن کسی کے ذہن میں بھی نہیں ہوگا۔ بشارالاسد یا ان کے حامی ممالک نے ضد کی تو سعودی عرب اور ترکی حال ہی میں مشترکہ فوجی مشقیں کرکے ایک خاص پیغام دے چکے ہیں۔ سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں لڑنے والے اعتدال پسند گروہوں کو اپنے دفاع اور شامی فوج کی جارحیت کے خلاف زمین سے فضا میں مارکرنے والے میزائل فراہم کرنے کو ترجیح دیں گے۔ان میزائلوں سے یہ اپوزیشن گروہ شامی فوج کے طیاروں اور فوجی ہیلی کاپٹروںکے حملوں کا دفاع کرسکیں گے۔

عادل الجبیر کے مطابق اس اقدام کے نتیجے میں شام میں طاقت کا توان بدل جائے گا۔ دوسری طرف ایک امریکی ادارے نے امکان ظاہر کیا ہے کہ رواں سال2016ء میں ترکی امریکہ کی معاونت سے شمالی شام میں''داعش'' کے جنگجو اور کردوں کی توسیع پسندی روکنے کے لیے اپنی فوجیں شام میں اتارنے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ امریکی ''گلوبل انٹیلی جنس فاؤنڈیشن اسٹریٹجک فارکاسٹنگ'' (سٹارٹ فار) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ترکی شام میں اپنی فوج اتارنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

انقرہ کے اس اقدام پر امریکا بھی اس کی ہر ممکن معاونت کرے گا۔ رواں سال کے دوران شام کے تنازع کے حوالے سے ترکی ایران کے مقابلے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ماسکو اور انقرہ کے درمیان جاری سرد جنگ میں بھی کمی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ اسٹارٹ فار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2016ء میں ترکی اپنی حدود سے آگے نکل کر شام میں کارروائی کرے گا۔ ترکی شمالی شام میں داعش کی توسیع پسندی روکتے ہوئے ان علاقوں میں کردوں کی کنٹرول کو وسعت دینے کے لیے موثر کوششیں کرے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی جانب سے ترکی کو شام میں مداخلت کے لیے گرین سگنل ملنے کا قوی امکان ہے مگر اس باب میں روس سب سے بڑھ کر مخالفت کرے گا۔ عین ممکن ہے کہ روس شام میں ترکی کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے تمام وسائل کا بھی استعمال کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں