ایران میں خامنہ ای کے حامیوں کوغیرمتوقع شکست

انتخابات میں اصلاح پسندوں کی برتری کتنی تبدیلی لا سکے گی، قدامت پسند کیا حکمت عملی اختیار کریں گے


انتخابات میں اصلاح پسندوں کی برتری کتنی تبدیلی لا سکے گی، قدامت پسند کیا حکمت عملی اختیار کریں گے ۔ فوٹو : فائل

ایران میں مجلس شوریٰ (پارلیمان) کی 290 نشستوں اور مجلس خبرگان کی 88 نشستوں پر انتخاب کے لیے ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ایرانی قوم اور دنیا ایک بڑی تبدیلی دیکھ رہی ہے۔ملک بھر میں ووٹ ڈالنے کی شرح 62 فی صد رہی ہے۔البتہ دارالحکومت تہران میں ووٹ ڈالنے کی شرح پچاس فی صد رہی تھی۔

ایک عام خیال تھا کہ آٹھ برس کے لئے منتخب ہونے والی پارلیمان بدستور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے حامیوں کے غلبہ میں رہے گی تاہم اس بار ایسا نہ ہوا، اب دنیا حیران ہے۔ ایرانی صدرحسن روحانی بھی نسبتاً اصلاح پسند ہیں، ان کی حامی جماعتوں نے دارالحکومت تہران کی 30 نشستوں میں کوئی ایک نشست بھی خامنہ ای کے حامیوں کو جیتنے نہیں دی۔

شوریٰ نگہبان کے انتخابات میں بھی اہم سخت گیر رہنمائوں کو شکست ہوگئی ہے۔ یادر ہے کہ کونسل سپریم لیڈر کا انتخاب کرنے کا اہم فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ ایران کے دو سرکردہ سخت گیر رہنما آیت اللہ محمد یزدی اور محمد تقی مصباح یزدی مجلسِ خبرگان میں اپنی نشستیں دوبارہ جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔

یادرہے کہ ان دونوں رہنمائوں کے نام سپریم لیڈر خامنہ ای کے جانشین کے طورپر بھی لئے جارہے تھے۔ سپریم لیڈر کے حامی احمد جنتی، جو شوریٰ نگہبان کے سربراہ بھی ہیں، بمشکل ہی جیت پائے ہیں اور تہران کی سولہ نشستوں پر انتخاب لڑنے والے کامیاب امیدواروں میں وہ سب سے آخری نمبر پر رہے ہیں۔صدر حسن روحانی تہران میں مجلس خبرگان کے انتخاب میں کامیاب امیدواروں میں تیسرے نمبر پر رہے ہیں جبکہ ان کے اتحادی سابق صدر آیت اللہ اکبر ہاشمی رفسنجانی پہلے نمبر پر رہے ہیں۔

مجلس خبرگان رہبری86 علما پر مشتمل ایک ایوان بالا ہے جو براہ راست عوام کے منتخب کردہ ہوتے ہیں اور ان کا کام سپریم لیڈر کا انتخاب، معزولی اور احتساب کرنا ہوتا ہے۔ تاہم اس کا انتخاب لڑنے سے قبل امیدواروں کی اہلیت اور نااہلیت کا فیصلہ ایک سخت گیر ادارہ کرتا ہے جس کا نام شوریٰ نگہبان قانون اساسی ہے۔

12 ارکان پر مشتمل شوریٰ نگہبان قانون اساسی کے چھہ ارکان براہ راست تعینات کئے جاتے ہیں اور باقی چھہ بالواسطہ تعینات کئے جاتے ہیں، یعنی عدلیہ کے سربراہ کی جانب سے، جسے خود سپریم لیڈر تعینات کرتا ہے۔ یقیناً شوریٰ نگہبان قانون اساسی کے 12 ارکان اپنی تعیناتی کے لئے سپریم لیڈرکے مرہون منت ہوتے ہیں، اسی کا ایجنڈا چلاتے ہیں، مجلس خبرگان کے ان امیدواروں کو نا اہل قرار دیتے ہیں جن کے خیالات سپریم لیڈر خامنہ ای سے مطابقت نہیں رکھتے۔

مثلاً شوریٰ نگہبان قانون اساسی نے ماضی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی کے پوتے حسن خمینی کو بھی مجلس خبرگان کے انتخابات کے لئے نا اہل قرار دے دیا تھا۔ مجلس خبرگان نے پہلی اور آخری مرتبہ سپریم لیڈر کا انتخاب 1989ء میں امام خمینی کی وفات کے بعد کیا تھا۔ یادرہے کہ شوریٰ نگہبان نے خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنانے کے فیصلہ پر اپنی مہر ہی لگائی تھی جو امام خمینی کرچکے تھے۔

موجودہ پارلیمنٹ پر سپریم لیڈر کے حامیوں کا کنٹرول ہے مگر انہوں نے ایٹمی معاہدے پر معتدل صدر روحانی کیلئے کوئی مشکل نہیں کھڑی کی اور اسے منظور کرنے میں اس لئے دیر نہیں لگائی کیونکہ سپریم لیڈر اور پاسداران انقلاب کی قیادت اقتصادی امداد حاصل کرنے کی غرض سے اس کی منظوری پہلے ہی دے چکی تھی۔ در حقیقت، روحانی کے صدر بننے سے پہلے ہی خامنہ ای اور پاسداران انقلاب کی قیادت سیاسی اسٹبلشمنٹ کو تیار کر رہے تھے کہ عالمی پابندیوں کو ہٹانے کی غرض سے مغرب سے معاہدہ کر لیا جائے۔

پارلیمنٹ کے امیدواروں کے لئے بھی شوریٰ نگہبان قانون اساسی سے پیشگی منظوری لینا ضروری ہے۔ صدر خاتمی کے دور میں شوریٰ نگہبان قانون اساسی نے یہ غلطی کی تھی کہ اصلاح پسندوں کو الیکشن لڑنے دیا جس کے بعد وہ پارلیمنٹ پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر جب انہوں نے یہ اشارے دیے کو وہ سپریم لیڈر اور پاسداران انقلاب کی قیادت کے ایجنڈے کے ساتھ نہیں چل سکتے تو پاسداران انقلاب نے جلد ہی اصلاح پسندوں پر اس طرح قابو پا لیا کہ ان میں سے بیشتر کو قید کر لیا گیا اور ان کے اخبارات کو بند کردیا گیا۔

انتخابی نتائج کیا بتاتے ہیں؟
صدرحسن روحانی کے حامیوں کی جیت کا واضح مطلب ان کی اعتدال پسندانہ پالیسیوں کی جیت ہے۔ قوم چاہتی ہے کہ بیرونی دنیا کے ساتھ اسی اندازمیں تعلقات کے دروازے کھولے جائیں تاکہ ملکی معیشت مضبوط ہو اور وہ عشروں سے جن مشکلات کی شکار ہے وہ رفع ہوں۔

اصلاح پسندوں کی جیت اس لئے بھی اہم ہے کہ انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتال کے عمل میں بڑی تعدادمیں اصلاح پسندامیدوارکو مقابلے سے باہر کردیاگیاتھا۔ اس کے بعد اصلاح پسند حلقوں نے قوم سے اپیل کی تھی کہ وہ باقی ماندہ اصلاح پسند امیدواروں کو بہرصورت کامیاب بنائیں، قوم نے اس اپیل کو مان لیا اور انھیں بھرپور اعتماد سے نوازا۔ حالانکہ بڑے پیمانے پر نا اہلیوں اور عوام کی عدم دلچسپی کے پیش نظر متعدد مبصرین نے انتخابی مہم کے یکطرفہ رہنے کی پیشگوئی کی تھی۔ مبصرین کا خیال تھا کہ میں سخت گیر طبقہ باآسانی انتخابات میں فتح حاصل کرلے گا۔ تاہم انتخابی مہم کے آخری حصے میںصورتحال یکدم تبدیل ہوگئی اور ایرانی سیاست میں بھونچال آ گیا۔

یہ بھونچال گلیوں، بازاروں میں کم محسوس ہوا البتہ انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر زیادہ نظرآیا۔ ٹیلی گرام (ایران کی معروف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ) کے دو کروڑ صارفین، ٹوئٹر اور فیس بک کے لاکھوں صارفین نے صورتحال کی مناسبت سے آہستہ آہستہ پیش قدمی کی اور ایک خفیہ منصوبے پر عمل پیرا رہے، پھر وہ ہوا جس کا انتخاب کی شام تک کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

اصلاح پسند امیدواروںکے خلاف سپریم لیڈر خامنہ ای بذات خود آن لائن مہم چلاتے رہے۔ انھوں نے انتخابات سے چند روز قبل ووٹروں کو خبردار کیا تھا کہ وہ 'انگریزوں کی فہرست' سے باخبر رہیں۔ اْنھوں نے برطانیہ پر الزام عائد کیاتھا کہ وہ مخصوص اْمیدواروں کی پشت پناہی کرکے انتخابات میں مداخلت کر رہا ہے۔ اْن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت بعض انتہائی سخت گیر رہنماؤں کو ماہرین کی کونسل اور پارلیمان میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اِس بیان کی وجہ سے صدرحسن روحانی سمیت ان کے متعددساتھی سیاستدانوں نے 'انگریزوں کی فہرست' والی بات پر بظاہر ناپسندیدگی ظاہر کی تھی تاہم خفیہ طورپر اپنے حامیوں کو مزید جارحانہ مہم چلانے کی ہدایت کی۔

انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد ایرانی عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ صادق لاریجانی نے بھی کہا ہے کہ ''اصلاح پسند امریکی اور انگلش میڈیا ذرائع کے ساتھ مل کر انتخابات کے دوران کام کرتے رہے تھے''۔انھوں نے سوال کیا ہے کہ ''کیا غیر ملکیوں کے ساتھ اس طرح کی رابطہ کاری کے ذریعے ان شخصیات کو رجیم کے مفاد میں مجلس خبرگان سے باہر نہیں کیا گیا ہے؟''تاہم ایران کے نائب صدر اور روحانی حکومت کے ترجمان محمد باقر نوبخت نے کہا ہے کہ ''ہمارے پاس برطانوی لسٹ کی طرح کی کوئی چیز نہیں تھی،اگر کوئی یہ کہنا چاہتا ہے کہ ایسی کوئی فہرست موجود ہے تو وہ دراصل شورایٰ نگہبان ہی کی توہین کررہا ہے''۔

سوال یہ ہے کہ صدر روحانی کے حامیوں اور اصلاح پسندوں کی کامیابی کے بعد کیا ہوگا؟ تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا کہناہے کہ سخت گیر اور قدامت پسند عناصر کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ وہ اب کیا حکمت عملی اختیارکریں گے۔ قصبوں اورچند بڑے شہروں میں بھی اِن کی کارکردگی اتنی بْری نہیں رہی۔تاہم ایسا بھی ہوسکتاہے کہ شورائے نگہبان انتخابی نتائج کی منظوری نہ دے۔انتخابات کی توثیق کرنے کے عمل میںکئی روز لگ سکتے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ نگران کونسل، عدلیہ، ریاستی ٹی وی اور فوج سمیت غیر منتخب اداروں پر سپریم لیڈر ہی کے حامی غالب ہیں، فوج بھی کسی منتخب ادارے کے بجائے سپریم لیڈر ہی کو جواب دہ ہے، وہ سیاست میں جب اور جتنی چاہے مداخلت کرتی ہے۔

یادرہے کہ پاسداران انقلاب کو امام خمینی نے تشکیل دیا اور خامنہ ای نے اسے بے پناہ طاقت کا مالک بنایا۔ یہ ادارہ اب اسلامی جمہوریہ ایران کے باپ اور بنیادی فیصلہ ساز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ تازہ انتخابی نتائج سے ایرانی سیاست کے منظرنامے پر کچھ بھی اثر مرتب نہ ہوا۔ صدر روحانی کی اصلاح پسند حکومت، غیر منتخب اداروں کے اثر و رسوخ اور سیاست میں فوج کے کردار کو محدود کرنے کے حوالے سے کچھ پیش قدمی کرسکتی ہے۔ایرانی نژاد امریکی سکالر، مصنف ڈاکٹر ماجد رفیع زادہ کا کہناہے کہ ان انتخابات کے نتائج کو مستقبل کی ایرانی قیادت اور اس کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں کے تعین کے لئے بنیادی اور فیصلہ کن عنصر قرار دینا ایک بڑی غلط فہمی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں