ہوسٹل چارلی اور سلیم اقبال
کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ہاسٹلز میکلورڈ روڈ سے شروع ہو کر گوالمنڈی کے آغاز تک موجود تھے
کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ہاسٹلز میکلورڈ روڈ سے شروع ہو کر گوالمنڈی کے آغاز تک موجود تھے۔1979ء میں سے سب سے اچھا ہوسٹل ''نیوہوسٹل'' تھا۔ اسے نیو کیوں کہا جاتا تھا، چالیس سال گزرنے کے بعد آج بھی یہ نیو ہوسٹل ہی کہلاتا ہے۔کیوں! میرے علم میں آج بھی نہیں۔
ہوسٹلز کی عمارتیں باہر سے کچھ اور اندر سے بالکل مختلف تھیں۔ ویسے تو ان ہوسٹلز میں پانچ چھ برس رہا، مگر بچپن سے لے کر نوکری کرنے تک بارہ برس اس طرح کی عمارتوں میں زندگی گزار دی۔ جیسے جیسے انسان عمر کے سنجیدہ حصے میں داخل ہوتا ہے، کبھی کبھی گھر بھی ہوسٹل معلوم ہوتا ہے اور پھر کبھی کبھی گھر میں دوبارہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو خود اعتمادی آپ میں بچپن سے گھر سے باہر تعلیمی اداروں میں رہنے سے آتی ہے، وہ تجربہ نایاب بھی ہے اور اپنی جہت میں خوبصورت بھی۔ 1979ء کا میڈیکل کالج میرے لیے جہان حیرت تھا۔ اس لیے کہ کیڈٹ کالج حسن ابدال کے مضبوط ڈسپلن سے نکل کر دنیا کو دیکھنا ایک عجیب سا تجربہ تھا۔
کیڈٹ کالج سے ہم پچیس کے قریب طالب علم کے ای میں داخل ہوئے تھے۔ مجھے یہاں یہ عرض کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم تمام نوجوان، آٹھویں کلاس سے اکٹھے تھے اور ایک دوسرے کی رگ رگ سے واقف تھے۔ بلکہ ان رگوں سے بھی واقف تھے جن کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کے ای آنے کے بعد چارلی نے ایک دن اعلان کر دیا کہ یہ تو بچوں کا کالج ہے اور وہ بہت بوڑھا شخص ہے۔ چارلی کی عمر زیادہ سے زیادہ اٹھارہ برس ہو گی مگر وہ ذہنی طور پر دو ڈھائی سو سال پرانا سنیاسی بابا تھا۔ اس نے اعلان کر دیا کہ وہ اپنے ہم جماعت بچوں کے ساتھ قطعاً تعلیم حاصل نہیں کر سکتا بلکہ سانس بھی نہیں لے سکتا۔بہرحال حسن ابدال نے ہم سب کو چھوٹی عمر میں ہی انتہائی پُراعتماد بلکہ پُرخار بنا ڈالا تھا۔
چارلی آٹھویں جماعت یعنی1972ء میں خواتین کے حقوق کی بات کرتا تھا۔ وہ حقوق نسواں کی برابری کے لیے اتنی جذباتی تقریر کرتا تھا کہ کان سرخ ہو جاتے تھے۔ اس کی اکثر باتیں ہماری سمجھ سے باہر تھیں۔ آج بھی یہی حال ہے۔ وہ اتنا ذہین شخص تھا لیکن عملی زندگی نے اس کے ساتھ کیسی ناانصافی کی، یہ گتھی میں حل نہیں کر سکا۔ شائد میں حل کرنا ہی نہیں چاہتا۔ چارلی کی باتیں، تمام ہوسٹلز میں "اقوال زریں" کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اسے محمد علی، شبنم اور ندیم کی فلمیں پسند تھیں۔ ویسے اس زمانے کی پاکستانی فلمیں انتہائی شاندار تھیں۔
چارلی کا ایک فرمان یہ بھی تھا کہ امتحان کے دو نتیجے ہو سکتے ہیں۔ یعنی آپ اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ خوشی منانے کے لیے فلم دیکھنی چاہیے۔ دوسرا نتیجہ یعنی آپ فیل ہو سکتے ہیں۔تب بھی غم مٹانے کے لیے فلم ضرور دیکھنی چاہیے۔ اس میں یہ اضافہ بھی ہو گیا کہ امتحان دینے کے فوراً بعد کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے پاس ہونا ہے یا فیل۔ لہذا اس غیر متوقع صورتحال میں بھی ضرور فلم دیکھنی چاہیے۔ آپ یقین فرمائیے، چارلی نے مجھے اور علی حماد کو مذکورہ بالا فنکاروں کی فلمیں بار بار دکھائیں۔ چارلی جیسے دل کے صاف انسان آج ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔
ہوسٹل سے بائیں طرف مڑتے ہی پاکستان ٹائمز کا دفتر تھا۔ ہم اسے ایک اجنبی کی حیثیت سے دیکھتے ہوئے گزر جاتے تھے۔ جب ہم کلاسیں پڑھ کر دوپہر کو ہوسٹل جا رہے ہوتے تھے۔ چند بزرگ قسم کے نوجوان اخبار کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش میں مصروف ہوتے تھے۔ ایک دن میں اخبار کی بلڈنگ سے آگے گیا، تو ایک حیرت انگیز دکان نظر آئی۔ یہ چھوٹی سی دکان تھی اور اس کے اندر مختلف موسیقی کے آلات لٹکے ہوئے تھے۔ تین چار ستار فرش پر ایستادہ تھے۔ دکان کے اندر صرف تین آدمی تھے۔ ایک نوجوان آری چلا رہا تھا اور ستار بنانے کے ابتدائی مراحل میں تھا۔ اس کے بالکل ساتھ ایک کم عمر لڑکا اس عمل کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
کونے میں ایک لمبا تڑنگا سیاہی مائل بزرگ کرسی پر بیٹھا تھا۔ میں ان کی خاموشی میں مخل ہوا اور پوچھنے لگا کہ یہ کس چیز کی دکان ہے۔ جواب انتہائی سادہ تھا۔ آلات موسیقی بنانے کی۔ وہ بزرگ آدمی مجھے پوچھنے لگے کہ آپ میڈیکل کالج سے آئے ہو۔ یہ میری استاد سلیم اقبال سے پہلی ملاقات تھی۔ سلیم اقبال اپنے زمانے کا مستند ترین میوزک ڈائریکٹر تھا۔ لڑکے کا نام حنیف تھا اور وہ اپنے بڑے بھائی سے کام سیکھ رہا تھا۔ اس ابتدائی ملاقات کے بعد حنیف اور سلیم اقبال سے باقاعدہ دوستی ہو گئی۔ حنیف سلیم اقبال سے باقاعدہ گانا سیکھ رہا تھا۔ وہ ہوسٹل آ کر ہمیں غزلیں سناتا تھا۔
اس کی آواز میں اتنا رچاؤ اور مٹھاس تھی کہ میں حیران رہ جاتا تھا۔ سلیم اقبال نے اس نوجوان پر بہت محنت کی۔ حنیف نے بھی سیکھنے کے لیے ہر کٹھن منزل عبور کی۔ میرا خیال تھا کہ حنیف پاکستان کے صفِ اول کے گلوکاروں میں شامل ہو جائے گا۔ مگر حنیف باقاعدہ گلوکار نہ بن سکا۔ فکر معاش، ناقدری اور سفارش کے بغیر اس ملک میں حنیف کے ساتھ وہی ہوا، جو لاکھوں قابل نوجوانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ مسائل کی دھوپ سے اس درجہ جل گیا کہ زندگی میں ناکام ہو گیا۔ وہ کہاں ہے، کیسا ہے، میں بالکل نہیں جانتا۔ مگر اس کی آواز آج بھی میرے کانوں میں رَس گھولتی ہے۔
سلیم اقبال جتنا بڑا موسیقار تھا، اتنا ہی بڑا انسان بھی تھا۔ ایک درویش صفت شخص۔ وہ اکثر ہوسٹل میں میرے پاس آتا رہتا تھا۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ سلیم اور اقبال دراصل دو سگے بھائی تھے۔ مگر ہر کوئی ان کو ایک سمجھتا تھا۔ وقت کے جس دھارے میں میری ملاقات سلیم اقبال سے ہوئی، وہ ان کا زوال کا وقت تھا۔ انھوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو سیکڑوں انمول گانوں کا تحفہ دیا۔ مگر وہ اپنی زندگی کے آخری دور میں شدید ناقدری کا شکار رہے۔ غربت نے انھیں گھیرے میں لے رکھا تھا۔ مگر انھوں نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔
میرا خیال ہے1981ء میں ان کی عمر ساٹھ برس سے زیادہ ہو گی۔ میں نے ا نہیں موسیقی ترتیب دیتے دیکھا ہے۔ ایک دن فراز کی مشکل غزل کو بار بار گنگنا رہے تھے۔ ایک گھنٹے میں اس غزل کو اس درجہ خوبصورت لَے میں تبدیل کر دیا کہ میں ششدر رہ گیا۔ سلیم اقبال واقعی بہت بڑا موسیقار تھا۔ اگر وہ انڈیا میں ہوتا تو شائد ان کا مقدر مختلف ہوتا۔ مگر دولت ان کے لیے کبھی اہم تھی ہی نہیں۔ میں نے کئی بار دیکھا کہ وہ دوپہر کو پانی کے ساتھ سادہ نان کھا لیتے اور خدا کا شکر ادا کرتے تھے۔ ارشد بٹ موسیقی شناس تھا۔ ایک دن میں نے ارشد سے ذکر کیا کہ ہوسٹل میں اکثر سلیم صاحب آتے ہیں، تو وہ پریشان ہو گیا۔
اس کا پہلا سوال یہ تھا کہ کیا تم لوگوں کو اس شخص کے مقام کا تھوڑا سا بھی اندازہ ہے۔ لازم ہے کہ میرا جواب ناپختہ سا تھا۔ اس کے بعد ارشد بٹ نے مجھ سے وعدہ لیا، کہ جب بھی سلیم اقبال ہوسٹل آئیںگے، اسے فوراً اطلاع کی جائے گی۔ وہ سلیم اقبال سے انتہائی سنجیدہ اور بامقصد گفتگو کرتا تھا۔ عنوان تو موسیقی ہی تھا۔ مگر ارشد کو یہ شوق تھا اور ہے کہ وہ میوزک کس کیفیت میں ترتیب دیا گیا اور پھر کس حالات میں گایا گیا۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتا تھا کہ موسیقی کے آلات کس کس فنکار نے بجائے۔ یہ تمام سوالات سلیم صاحب سن کر انتہائی اطمینان سے جواب دیا کرتے تھے۔ ارشد کو آج تک ان ملاقاتوں کی تمام جزئیات یاد ہیں۔
آپ ہمارے ملک میں فنکاروں کی ناقدری دیکھیے کہ سلیم اقبال کے پاس لاہور میں رہنے کے لیے کوئی مکان نہیں تھا۔ وہ شاہدرہ کے نزدیک کسی کالونی میں رہتے تھے اور روز بیس پچیس کلومیٹر کا سفر کر کے ہوسٹل پہنچتے تھے۔ زندگی کے آخری دنوں میں وہ فالج کا شکار ہو گئے اور پھر کسمپرسی کے حالات میں دنیا سے چلے گئے۔ سلیم اقبال کے ساتھ مجھے ریڈیو پاکستان لاہور میں غلام علی سے ملنے کا کئی بار اتفاق ہوا۔ غلام علی اپنی عملی زندگی میں ابتدائی جدوجہد سے نکل چکا تھا۔
اب وہ شہرت کے دوسرے زینے میں تھا۔ مجھے یاد ہے، ایک دن ریڈیو پاکستان میں سلیم صاحب نے اسے کہا کہ اپنی سب سے مشہور غزل سنائے۔ کینٹین کی ٹیبل پر غلام علی نے اپنی انگلیوں سے طبلہ بجانا شروع کر دیا اور اس بے تکلفی سے اپنی غزل سنائی کہ سماں باندھ دیا۔ غلام علی، استاد سلیم اقبال کی بہت عزت کرتا تھا۔ شائد یہ اس نسل کے فنکاروں کا خاصہ تھا۔ اب نہ وہ فنکار ہیں، نہ وہ غزلیں اور نہ وہ عزت و احترام کی روایت۔
میں لاہور میں رہنے کے باوجود اب اپنے ہوسٹل کے قریب سے نہیں گزرتا۔ کوشش کرتا ہوں کہ راستہ بدل لوں۔ صرف اس لیے کہ مجھے آج بھی یقین ہے کہ ہوسٹل کی کینٹین سے چارلی اچانک برآمد ہو جائے گا۔ استاد سلیم اقبال پیدل چلتے ہوئے ہوسٹل سے باہر آ رہے ہوںگے۔مگر اب یہ کبھی نہیں ہو سکتالیکن مجھے یقین نہیں آتا! شائد یہ سب کچھ دوبارہ ہو سکتا ہے؟