ایران بدل رہا ہے
ایران میں فروری 26 کے انتخابات کو اب تک ہونے والے انتخابات میں اہم ترین قرار دیا جا رہا ہے
www.facebook.com/shah Naqvi
ISLAMABAD:
ایران میں فروری 26 کے انتخابات کو اب تک ہونے والے انتخابات میں اہم ترین قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ایرانی سیاست کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ یہ انتخابات اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ طاقت کا توازن سخت گیر قدامت پسندوں کے پاس رہے گا یا اصلاح پسندوں کے پاس آئے گا۔کچھ تجزیہ نگاران انتخابات کو مستقبل کی صورت گری قرار دے رہے ہیں جو اگلی نسل کی سوچ پر اثرانداز ہوگی۔
اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ نئی نسل پر قدامت پسندوں کے وہ اثرات نہ ہوں جو ماضی میں رہے ہیں۔ ایران 8 کروڑ کی آبادی کا ملک ہے جس میں ساٹھ فیصد آبادی کی عمریں تیس سال سے کم ہیں۔ یہ وہ آبادی ہے جو بیرونی دنیا سے رابطہ چاہتی ہے۔ زیادہ آزادیاں اور معاشی سیاسی اصلاحات چاہتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی زندگیوں میں بہتری آئے۔
ایران میں انتخابات کو ایک جشن کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ان انتخابات میں بھی لوگ بال بچوں سمیت شریک ہوئے۔ انقلاب کے بعد ایران میں انتخابات تسلسل سے منعقد ہو رہے ہیں۔ چاہے جنگ ہو یا آفت اس کو بہانہ بنا کر انتخابات ملتوی نہیں کیے گئے۔ ہر صورت اور بروقت انتخابات کا انعقاد ہی ایرانی انقلاب کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا رہا کیونکہ ہر آزمائشی وقت میں ایرانیوں کی رائے اور ان کا سہارا لیا گیا۔ یہ انتخابات کا بروقت اور ہر صورت انعقاد ہی تھا جس کے نتیجے میں ایرانی عوام بیرونی دنیا کی مسلط کی گئی ہر سازش سے کامیاب اور سرخرو نکلے۔
اس میں ہمارے لیے بھی سبق ہے۔ دنیا میں جہاں بھی بروقت صاف و شفاف انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور عوامی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اس کی ترقی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں آسانی سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ سابق صدر ایران ہاشمی رفسنجانی نے جنھیں اصلاحات کا سب سے بڑا حامی کہا جاتا ہے، ایرانی انتخاب کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عوامی فیصلے کے سامنے کوئی بھی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔ عوامی طاقت کے سامنے ماضی میں کوئی ٹھہرا نہ عوام کی اکثریت کا کوئی سامنا کر سکتا ہے۔
جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی کہ انتخابات میں قدامت پسند سابقہ پوزیشن حاصل نہیں کر سکیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ ایران میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے مطابق اصلاح اور اعتدال پسندوں نے اکثریت حاصل کر لی۔ 290 کے ایوان میں اصلاح پسندوں نے 85 اور اعتدال پسندوں نے 63 نشستیں حاصل کیں جب کہ بقیہ 49 نشستوں کے لیے انتخابات کا دوسرا مرحلہ اپریل میں ہو گا۔ تہران کی تیس نشستوں پر قدامت پسند ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکے۔ اصلاح اور اعتدال پسندوں نے کلین سویپ کیا ۔ قدامت پسندوں کے رہنما سابق اسپیکر اور آیت اللہ علی خامنہ ای کے سمدھی کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ہر انقلاب جو نظریاتی ہوتا ہے وہ اپنے نظریے کی حفاظت کے بارے میں بہت حساس ہوتا ہے اور اسی کے پیش نظر اپنا انتخابی نظام تشکیل دیتا ہے۔ ایسا انتخابی نظام جو اس کے نظریے اور اس کی شناخت کو محفوظ رکھے، چاہے وہ کمیونزم ہو یا اسلامی۔ ایران میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی سرمایہ دارانہ جمہوریت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہاں کوئی بھی ایسا شخص سربراہ سربراہ حکومت نہیں بن سکتا جو سرمایہ دارانہ نظام کا مخالف ہو۔ اس نظام میں بھی مختلف چھلنیاں لگی ہوئی ہیں جو سرمایہ داری کے مخالف کو فلٹر کر دیتی ہیں۔ ایران میں بھی ایسا ہی انتظام ہے جس کو مجلس رہبر کہا جاتا ہے۔
یہ 88 افراد پر مشتمل ہے اور یہ لوگ سپریم لیڈر رہبر اعلیٰ کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ مجلس رہبر اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ نہ صرف سپریم لیڈر کا انتخاب کرتی ہے بلکہ اسے ڈسمس بھی کر سکتی ہے یعنی ملک کا اصل اقتدار چند مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ وہ مجلس رہبر جو سپریم لیڈر کو ہٹا سکتی ہے اس کی مرضی کے خلاف پارلیمنٹ ہو یا صدر چوں بھی نہیں کر سکتے۔ بے پناہ اختیارات کی حامل مجلس رہبر کے کنٹرول میں فوج سمیت تمام ادارے ہوتے ہیں۔ طاقت کا سرچشمہ یہ مجلس رہبر آمر مطلق کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں آدھے ارکان رہبر اعلیٰ کی مرضی کے ہوتے ہیں اور بقیہ آدھے عدلیہ کی پسند سے۔
اس کونسل نے ان ہزاروں امیدواروں میں سے 80 فیصد کو نااہل قرار دے دیا جو انتخاب میں حصہ لینا چاہتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ آیت اللہ روح اللہ خمینی کے پوتے حسن خمینی کو انتخاب میں حصہ لینے سے روک دیا گیا کیونکہ گارڈین کونسل کی نظر میں وہ ناقابل اعتبار ٹھہرے۔ مجلس رہبر کے نمایندوں کی معیاد آٹھ سال ہوتی ہے۔ نئی مجلس رہبر نے آیندہ آٹھ سالوں میں موجودہ رہبر اعلیٰ کی جگہ نئے رہبر اعلیٰ کو چننا ہے۔ نئی صورت حال میں موجودہ ایرانی صدر حسن روحانی کا اگلے سال دوبارہ صدر منتخب ہونے کا امکان ہے۔ حالیہ ایرانی انتخاب میں شدت پسندی اور اعتدال پسندی کا مقابلہ تھا جس میں جیت اعتدال پسندوں اور اصلاح پسندوں کی ہوئی جو ایران میں طویل عرصے سے شدت پسندی کے جبر سے گھبرا چکے تھے۔ آخرکار یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ یہ انسانی فطرت کا بھی تقاضا ہے۔
پچھلے سال جولائی میں امریکا ایران جوہری ڈیل ہوئی اور اس سال جنوری میں ایران پر سے معاشی پابندیاں اٹھائی گئیں۔ فروری میں ایرانی الیکشن ہو گئے۔ ڈیل اور خاص طور پر معاشی پابندیاں اٹھنے کی ٹائمنگ پر غور فرمائیں جس کے اثرات ایرانی الیکشن پر اس طرح مرتب ہوئے کہ ایرانی عوام نے قدامت پسندوں پر اعتدال اور اصلاح پسندوں کو بالادستی دلا دی۔ اس طرح امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایران کے اندرونی معاملات میں اثرانداز ہونے کا آغاز کر دیا۔ اسے کہتے ہیں شطرنجی سیاست! ایران میں اس تبدیلی کے پاکستان، افغانستان اور پورے خطے پر دوررس اثرات ہوں گے یعنی اس کے اثرات خطے میں شدت پسندی سے اعتدال پسندی کی طرف آنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
یاد رہے کہ ایران سے ہی مذہبی شدت پسندی کا آغاز ہوا تھا۔ اس مذہبی شدت پسندی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے امریکا نے جس مذہبی شدت پسندی کو تخلیق کیا اس کا نتیجہ طالبان، القاعدہ اور داعش کی شکل میں برآمد ہوا۔ اب جا کر ایرانی انقلاب کا اصل امتحان شروع ہوا ہے۔ انقلاب کے آغاز پر امریکا، یورپ، عرب بادشاہتیں حملہ آور تھیں اس طرح ایرانی عوام کا انقلاب خطرے میں ہے کہ نام پر بیشتر آزادیوں سے محروم کر دیا ہے۔ ہر انقلاب ایسے ہی کرتا ہے۔ بیرونی خطرے کو استعمال کر کے اور فائدہ اٹھا کر عوام سے زیادہ سے زیادہ قربانیاں مانگی جاتی ہیں یہاں تک کہ ان کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے۔
پہلے مرحلے میں امریکا نے ایران میں اندرونی سازشوں کے ذریعے انقلاب کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ جب اس میں ناکام ہوا تو ایران پر طویل خوفناک جنگ مسلط کر دی۔ پھر معاشی پابندیاں لیکن اس کا بہت بڑا نقصان یہ ہوا کہ ایرانی عوام میں اندرونی تبدیلی کا راستہ بند ہو گیا۔ اعتدال اور اصلاح پسند قوتیں کمزور اور خاموش ہو گئیں یا کر دی گئیں۔ سخت گیر مذہبی شدت پسند طبقے کو بے پناہ فائدہ اس طرح ہوا کہ ان کی گرفت ایرانی عوام پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔
ایران میں 2018ء میں نئے رہبر اعلیٰ موجودہ رہبر اعلیٰ کی جگہ لے سکتے ہیں۔
سیل فون: 0346-4527997۔