طبقاتی نظام اور خواتین سے امتیازی سلوک
ویسے توخواتین کا سماجی رتبہ غیرطبقاتی نظام میں ہی برابری کا تھا۔
ویسے توخواتین کا سماجی رتبہ غیرطبقاتی نظام میں ہی برابری کا تھا۔ جب طبقاتی نظام وجود میں آیا اسی وقت سے محنت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے بعد خواتین بھی ایک جنس کی طرح استعمال ہونے لگیں۔ انسان کو باشعورسماجی حیوان کی شکل میں آئے ہوئے لگ بھگ پچاس ہزار سال ہوا ہے۔ اس دور میں ریاست کا کوئی وجود نہیں تھا جب کہ ریاست کے وجود میں آئے ہوئے چند صدیاں ہی ہوئی ہیں۔اسٹیٹ لیس سوسائٹی میں خواتین کی سماج میں ذمے داریاں زیادہ تھیں۔
مثال کے طور پر وہ گھریلو انتظامات، حساب کتاب، علاج معالجہ، سماجی انصاف اجناس کا ذخیرہ، پھل و سبزیاں جمع کرنا یعنی کہ سماج کا بیشترکام عورت ہی انجام دیتی تھی۔ مرد حضرات طویل فاصلے طے کر کے جنگلی جانوروں کا شکارکرتے تھے۔قدیم سماج میں خواتین کے رتبے، سماجی حیثیت، زمین، آبی وسائل اور جنگلات پر اس وقت کے باسیوں کی اجتمائی ملکیت کی حقیقی تصویرکشی 'مارگن' نے بہترطور پرکی ہے۔ یہ طبقاتی نظام ہی ہے کہ جس نے خواتین، بچوں، مزدوروں، کسانوں، چرواہوں اور مچھیروں کا سماجی اور معاشی استحصال شروع کیا۔ غلا مانہ نظام میں تو خواتین جنس کے طور پر بیچی جاتی تھیں۔
یہ کس کو نہیں معلوم کہ بادشاہتوں میں ایک ایک بادشاہ کی سیکڑوں بیویاں ہوتی تھیں برصغیر میں سب سے کم بیویاں رکھنے والا بادشاہ جلال الدین اکبر تھا جس کی صرف ایک ہزار بیویاں تھیں۔ جاگیرداری نظام میں بھی جاگیردار درجنوں بیویاں رکھتے تھے اور ہیں ۔ سرمایہ داری میں ترقی یافتہ ملکوں کو لے لیں تو خوا تین کو ووٹ ڈالنے کا حق بھی نہیں تھا۔ روس میں سوشلسٹ انقلاب جب 1917 میں آیا اس کے بعد ہی 1918 میں جرمنی اور1919 میں امریکا میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا جب کہ برطانیہ میں 1931 اورسوئٹزرلینڈ میں 1971 میں خوا تین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی یافتہ ملکوں میں مرد عورت سب کام کرتے ہیں لیکن شام کے وقت مرد ٹیبل پر پاؤں رکھ کر ٹی وی دیکھتے ہیں اور عورت کھانا پکاتی ہے۔
امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں ہر تین سیکنڈ کے بعد ہر بیوی یا گرل فرینڈ اپنے شوہر یا بوائے فرینڈزکے ہاتھوں تشددکا شکار ہوتی ہے۔ ہاں مگر دنیا میں ایسی مثالیں ہیں جہاں خواتین کو حقوق ملے لیکن وہ بھی ایسے لگا کہ جیسے کوئی احسان کیا گیا ہو۔ جیسا کہ روس میں انقلاب کے بعد وسط ایشیائی ملکوں میں ہزار میں دوخواتین لکھی پڑھی تھیں اور سوشلسٹ انقلاب کے بعد چند بر سوں میں سو میں 60 خواتین ڈاکٹر اور سو میں سے 50 خواتین انجینئر بن گئیں۔
انقلاب کے بعد لا کھوں کروڑوں خواتین نے اسٹیج بنا کر اپنے کاک ٹیل نما برقعے پھاڑے یا اتارے۔ خواتین کا عالمی دن منانے سے قبل ہالینڈ کی سوشلسٹ پارٹی نے خواتین کا عالمی دن منانے کی قرارداد پاس کی بعد ازاں یہ قرارداد اقوام متحدہ میں منظورکرلی گئی۔ آج بھی بہت سے ممالک میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہے خاص کرکے عرب بادشاہتوں، بعض افریقی بادشاہتوں اورکچھ پسماندہ ملکوں میں۔ دنیا میں خواتین پر ہونیوالے تشدد، قتل، کاروکاری، غیرت، ونی، جہیز اور لڑکیوں پر ان کی مرضی کے برخلاف شادیاں کرنے کا عمل چند ملکوں کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی ہے۔ صحرا اعظم، روانڈا، افغانستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اورپاکستان میں سب سے زیادہ خواتین کے ساتھ امتیازی بر تاؤ ہوتا ہے۔ صحت کے معاملے میں بھی دوسرے درجے کی شہریوں جیسا برتاؤ ہوتا ہے۔ برصغیر میں زچگی کے دوران ایک لاکھ میں سے ساڑھے 4سوخواتین اپنی جان گنواتی ہیں ۔
گزشتہ برس چھ ہزارخواتین کا پا کستان میں قتل ہوا۔ جن میں بیشتر خواتین اپنے شوہر، بھائی، باپ،چچا اور دیگر رشتے داروں کے ہا تھوں قتل ہوئیں۔ ان میں زیادہ تر پر جھو ٹے الزام، چولھے پھٹنے، تیزاب پھیکنے اور سسرال میں جسمانی تشدد،کاروکاری اور نام نہاد غیرت کے نام پر ہوئے، جب کہ ہماری خواتین مردوں سے زیادہ کام کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کی دیہی خواتین صبح سے شام تک جتنا کام کرتی ہیں، مرد تین دن میں بھی اتنا کام نہیں کرتے۔ صبح کو سب سے پہلے خواتین اٹھتی ہیں، مویشیوں کو باڑے سے نکال کر اس کی صفائی کرتی ہیں، بچوں کے لیے ناشتہ بنا کر انھیں تیارکرکے اسکول بھیجتی ہیں۔
اس کے بعد دن کا کھانا پکانے میں لگ جاتی ہیں، اسی دوران لکڑیاں جمع کرتی ہیں، پانی بھرکے لاتی ہیں، بعض علاقوں جیسا کہ تھر، چولستان، بلوچستان اورگلیات کی خواتین میلوں دور سے پانی بھرکے لاتی ہیں، دن کا کھانا پکا کر مردوں کوکھیتوں میں پہنچاتی ہیں۔ جب دھان بونے یا گندم سمیت دیگر اجناس کوکاٹنا اور بوئی ہوتا ہے، تو اس میں خواتین ہی پیش پیش ہوتی ہیں۔ دن میں بچوں کے اور دیگر استعمال کے پھٹے پرانے کپڑوں کی سلائی کڑھائی بھی خواتین ہی کرتی ہیں۔
شام کو پھر مویشیوں کو با ڑوں میں اور مرغیوںکو ڈربوں میں بندکرتی ہیں ۔اس کے علاوہ لیپا پوتی بھی کرنی ہوتی ہے۔ رات کا کھانا پکا کر سارے گھر والوں کوکھلا کر پھر ایک بار برتن مانجھ کر فرصت نہیں ملتی ہے، بچوں کو دودھ پلاکر اورانھیں لوری سنا کر سلانا بھی پڑتا ہے۔ دنیا کا نوے فیصد کام خواتین کرتی ہیں جب کہ وہ صرف پانچ فیصد دولت کی مالک ہیں ۔ یہ سارے مسائل اس طبقاتی نظام کی وجہ سے قا ئم ودائم ہے۔ اس لیے اس نظام کو ختم کیے بغیر خواتین کی ترقی ممکن نہیں۔