اِدھر بھی توجہ فرمائیے
وزیراعظم میاں نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز ایک بزرگ اور زیرک سیاست دان ہیں
وزیراعظم میاں نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز ایک بزرگ اور زیرک سیاست دان ہیں وہ پاکستان کے وزیر خارجہ کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں، وہ ملکی اور عالمی حالات کے علاوہ سفارتی امور سے خوب واقفیت رکھتے ہیں، ان سے ایک ایسی غلط بیانی ہو جانا سمجھ سے باہر ہے کہ جس سے ملک کے وقار کو زبردست دھچکا پہنچنے کا احتمال ہے۔
کیا ان کی زبان پھسل گئی یا پھر جان بوجھ کر انھوں نے یہ بیان دیا ہے، عقل حیران ہے کہ آخر یہ ہوا کیسے؟ انھوں نے واشنگٹن میں اپنے حالیہ دورے کے دوران کونسل آن فارن ریلیشنز کی ایک میٹنگ میں ایک سوال کہ ''پاکستانی حکومت طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کس حد تک صلاحیت رکھتی ہے'' کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان طالبان کی قیادت اور ان کے اہل خانہ چونکہ پاکستان میں موجود ہیں اور وہ پاکستان میں طبی سہولتیں بھی حاصل کر رہے ہیں، چنانچہ اسی وجہ سے انھیں پاکستانی حکومت مذاکرات کی میز پر لانے پر رضامند کر سکتی ہے۔ تاہم اس معاملے میں پاکستان کا کردار محض ثالث کا ہے۔
جب کہ مذاکرات کی کامیابی کا انحصار افغان حکومت اور طالبان پر ہے۔ پاکستان پر شروع سے ہی یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ طالبان قیادت پاکستان میں موجود ہے اور وہ انھیں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر رہا ہے جب کہ پاکستان نے ہمیشہ ہی اس الزام کی تردید کی ہے۔
پرویز مشرف کے دور میں کوئٹہ میں ملا عمر اور ان کی سابق کابینہ کے ارکان کی وہاں موجودگی کی خبریں مغربی میڈیا میں چھائی رہی ہیں، ملا عمر کے کراچی کے ایک اسپتال میں علاج کرانے کی خبر بھی مغربی اخبارات میں شایع ہوئی اس کے بعد جب ان کا انتقال ہو گیا تو مغربی میڈیا نے ان کے کراچی کے ایک اسپتال میں مرنے کی خبر دی تھی۔ پاکستان نہ صرف کوئٹہ میں طالبان شوریٰ کی موجودگی کی خبروں کی تردید کرتا رہا ہے بلکہ ملا عمر کے کراچی میں علاج کرانے اور ان کی وہاں موت کو بھی پروپیگنڈا قرار دیتا رہا ہے۔ مگر اب سرتاج عزیز کے طالبان قائدین اور ان کے اہل خانہ کی پاکستان میں موجودگی کے بیان نے مغربی میڈیا کو پاکستان کو جھوٹا ثابت کرنے کا نیا ثبوت مہیا کر دیا ہے۔
بی بی سی ویب سائٹ پر پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ اب تک جھوٹ بول کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا ہے۔ پاکستان مغربی میڈیا کے سچ کو جھوٹ قرار دے کر دراصل مغربی میڈیا کی بے عزتی کرتا رہا ہے۔ افغانستان میں ہونے والی تمام تخریب کاری اور دہشت گردی کا پاکستان کو ذمے دار ٹھہرایا جا رہا ہے، چند ماہ قبل قندوز شہر پر ہونے والے طالبان کے حملے کے پس پشت بھی پاکستان کا ہاتھ قرار دیا جا رہا ہے۔
آئی ایس آئی گو کہ اس وقت ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے اسے بھی افغانستان کے حالات کو بگاڑنے کا ذمے دار قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک اور نئی بات کہی جا رہی ہے کہ پاکستان طالبان کے ذریعے بھارت کو افغانستان میں اس کا حقیقی کردار ادا کرنے سے روک رہا ہے اور اس کے سفارت خانے وغیرہ پر طالبان کے حملے بھی پاکستان کی شہ پر کیے جا رہے ہیں۔
حقانی نیٹ ورک کے بارے میں بڑھا چڑھا کر باتیں کی جا رہی ہیں انھیں پاکستان کا حمایت یافتہ دہشت گرد گروپ کہا جا رہا ہے حالانکہ حکومت پاکستان حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پہلی ہی عالمی رہنماؤں کو صاف صاف بتا چکی ہے کہ اس نے بلا امتیاز کارروائی کر کے نہ صرف اسے بلکہ دیگر گھس بیٹھیے دہشت گرد گروپوں کو ملک سے نکال باہر کر دیا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی اسلام آباد میں ہونے والی ہفتہ وار بریفنگ میں صحافیوں نے مشیر خارجہ کے اس متنازعہ بیان کی جانب سرکاری ترجمان کی توجہ مبذول کرائی تھی مگر انھوں نے صرف یہ کہہ کر معاملے کو رفع دفع کر دیا کہ وزارت خارجہ کسی سیاسی رہنما کے بیان پر تبصرہ نہیں کرتی یہ جواب صحافیوں کو مطمئن نہیں کر سکا ہے۔
مبصرین کے مطابق مشیر خارجہ سے یقینا یہ غلطی سرزد ہو گئی ہے جس کو درست کرنا وزارت خارجہ کا کام ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے بیان کو وہاں واشنگٹن میں غلط رنگ دے دیا گیا ہو یا انھوں نے صرف طالبان کے اہل خانہ کی پاکستان میں موجودگی کا ذکر کیا ہو۔ مگر مغربی میڈیا نے طالبان قائدین کی پاکستان میں موجودگی کو ان کے بیان میں اپنی طرف سے دانستہ جوڑ دیا ہو۔
گزشتہ سال ممبئی حملے میں زبردستی ملوث کیے گئے ذکی الرحمن لکھوی کو ایک پاکستانی عدالت کی جانب سے ضمانت پر رہا کیے جانے کو بھارت نے نشانہ بنا کر اقوام متحدہ میں اپنے مستقل مندوب اشوک مکھرجی کے ذریعے سینکشنز کمیٹی کے چیئرمین مسٹر جم میک لے کو ایک خط ارسال کرایا گیا ۔
جس میں لکھوی کی پاکستانی عدالت کی جانب سے رہائی کو اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1267 کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے پاکستان پر پابندی لگا کر غیر ملکی امداد کے لیے اسے نا اہل قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جب 23 جون کو سینکشنز کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا تو کمیٹی کے چیئرمین نے بھارتی یکطرفہ موقف کو اتنی اہمیت دی کہ قریب تھا کہ پاکستان پر پابندی کا اطلاق ہو جاتا، خوش قسمتی سے ایسے برے وقت میں ہمارا پرانا آزمودہ دوست چین ہمارے لیے مسیحا بن کر ہماری مدد کے لیے آ گیا۔
اس نے سینکشنز کمیٹی کے سامنے یہ موقف اختیار کیا کہ بھارت نے چونکہ لکھوی کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا ہے چنانچہ پاکستان پر کوئی پابندی عائد نہیں ہو سکتی۔ پھر چین کے ویٹو اختیار کے آگے سینکشنز کمیٹی بے بس ہو گئی اور بھارت کو منہ کی کھانا پڑی۔ مگر اس میں سراسر ہمارے دفتر خارجہ کی کوتاہی کا عمل دخل تھا۔ کاش کہ اس نے اپنے مندوب کے ذریعے سینکشنز کمیٹی کو بروقت لکھوی کے کیس کی اصل حقیقت اور بھارتی ثبوتوں کی عدم دستیابی سے آگاہ کر دیا ہوتا تو نوبت چین کے ویٹو تک نہ جاتی۔
گزشتہ سال روس کے شہر اوفا میں وزیر اعظم نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اس کی ترتیب میں بھی ہماری سفارت کاری کی فاش غفلت ہمارے سامنے آئی تھی، در اصل اس وقت نریندر مودی کی نئی حکومت پاکستان سے متنازعہ مسائل پر مذاکرات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہی تھی بڑی مشکل سے دونوں وزرائے اعظم کی اوفا میں ملاقات ممکن ہو سکی تھی خوش قسمتی سے نریندر مودی پاکستان سے تمام متنازعہ مسائل پر مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے مگر افسوس کہ وہاں جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اس میں تمام ہی متنازعہ ایشوز کا ذکر تھا البتہ کور ایشو مسئلہ کشمیر غائب تھا۔ یہ در اصل بھارتی سفارت کاروں کی جیت تھی۔
انھوں نے کمال ہوشیاری سے مسئلہ کشمیر کو مشترکہ اعلامیے کی زینت ہی نہیں بننے دیا تھا حالانکہ اوفا میں وزیر اعظم کے ساتھ مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی بھی موجود تھے مگر پاکستانی امور خارجہ کے افسران کی عدم توجہی کی وجہ سے بھارتی سفارت کاروں نے اپنی من مانی کر ڈالی تھی۔ بعد میں محض مسئلہ کشمیر کے مذاکراتی ایجنڈے میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان نے ان میں شرکت نہیں کی تھی مگر دیکھا جائے تو یہ سراسر پاکستانی سفارت کاری کی شکست تھی۔
وزیراعظم پاکستان ایک طرف ملکی وقار کو سربلند کرنے کے لیے رات دن ایک کر رہے ہیں مگر دوسری جانب امور خارجہ سے متعلق ذمے داران کی ذمے داریاں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ وزارت خارجہ جیسے اہم شعبے کی کارکردگی پر بھی توجہ مرکوز کریں تا کہ ملک کے بارے میں عالمی سطح پر مثبت تاثر جائے اور ملک کا وقار مجروح ہونے کے بجائے سربلند ہو سکے۔