یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے…
جہاں تک حقوق مرد و زن کا تعلق ہے وہ بھی اسلام پہلے ہی مقرر کر چکا ہے۔
معاشرے میں بڑھتی چوریوں اور ڈکیتیوں کا علاج عوام نے ازخود دریافت کر لیا ہے کہ موقع واردات پر ہی چور یا ڈاکو کو پکڑ کر انھیں ازخود سزا دی جائے اور اس پر عمل شروع ہو چکا ہے، کیونکہ عوام کو اب پولیس پر ذرا اعتماد نہیں رہا کہ وہ رپورٹ درج کروائیں تو الٹا ان ہی کی شامت، کہ نہ چور پکڑا جائے نہ مال واپس ملے، بلکہ تھانہ کچہری کے چکر الگ اور اس رپورٹ لکھوانے کی سزا بھی پولیس کی مہربانی سے عوام کو چوروں کے ہاتھوں ملتی ہے۔
بہرحال عوام کا ازخود سزا دینے کا عمل خاصا کامیاب رہا ہے، لہٰذا اب ملک میں منافرت پھیلانے، قرآن و سنت کی من مانی تاویل پیش کرنے والوں کا بندوبست بھی خود عوام کو کرنا ہو گا۔ غضب خدا کا جتنے منہ اتنی ہی باتیں، جتنے فرقے اتنی ہی شریعتیں۔ پیغام قرآن پر غور و فکر کی دعوت تو خود رب العالمین نے اپنے بندوں کو دی ہے، مگر اس کا مقصد قرآنی ہدایت کو سمجھ کر معرفت الٰہی کا حصول ہے، نہ کہ لوگوں کو تقسیم اور گمراہ کرنا؟ حکم تو یہ تک ہے کہ آپ اس لیے مسلمان نہیں کہ آپ کے باپ دادا مسلمان تھے بلکہ خود دین کو سمجھ کر اختیار کریں۔
حیرت ہوتی ہے جب لوگ تمام ادیان میں سب سے وسیع النظر، ترقی پسند، ہر دور ہر زمانے کے ساتھ چلنے والے دین کو محض اپنے خاندانی رسم و رواج اور قبل از اسلام قبائلی روایات کے مطابق نہ صرف خود اختیار کرتے ہیں بلکہ زبردستی دوسروں کو بھی اپنے نظریاتی و فکری اسلام کو قبول کرنے پر زور دیتے ہیں۔
آج ہم سوچتے ہیں کہ کیا اسلام 72 یا 73 مختلف الخیال گروہوں کی ہدایت کے لیے آیا تھا یا تمام بنی نوع انسان کے لیے؟ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری دینی روایات ہی نہیں بلکہ اسلامی تاریخ تک بدلتی جا رہی ہے۔ قرآن مجید جو کتاب ہدایت اور مکمل دستور حیات ہے اسی کو جواز بنا کر اپنی من مانی تفسیر و تاویل پیش کر کے وطن عزیز میں آئے دن ایک نیا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ ہمارے ''ملاؤں'' کی عادت بن گئی ہے کہ ایک گروہ کسی بات کو درست تو دوسرا غلط قرار دے گا، مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ تمام معاملات تو اسلام نے روز اول ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طے کر دیے تھے پھر ان میں اختلاف کیوں، کیسے، کب در آئے؟ کیا کسی کو بھی شریعت محمدیؐ کو اپنے انداز فکر کے مطابق تبدیل کرنے کا اختیار و اجازت ہے؟
جہاں تک حقوق مرد و زن کا تعلق ہے وہ بھی اسلام پہلے ہی مقرر کر چکا ہے۔ میں تمام اہل اسلامقسے درخواست کرتی ہوں کہ قرآن کی کوئی آیت، حیات طیبہ سے کوئی مثال یا روایت پیش کریں جس میں خواتین پر ظلم و تشدد، ان کے عزت و احترام کے منافی اقدام اور ان کا استحصال کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہو۔ بات دراصل یہ ہے کہ قرآن و سنت بھی ان ہی کے لیے ہدایت ہیں جو روشن خیال، غیر جانبدار، وسیع القلب ہوں اور دل سے اس کی ہدایت کو حکم خداوندی تسلیم کرتے ہوں۔
سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات ہی میں فرما دیا گیا ہے کہ ''اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب ہدایت ہے متقین کے لیے'' اب ذرا متقی کے معنی پر بھی غور فرما لیجیے۔ اسی سورہ مبارکہ میں آگے ارشاد ہوتا ہے کہ ''اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو گمراہی کے اندھیروں میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہے اس کو ہدایت کے نور سے منور کر دیتا ہے''۔ تو کیا معاذ اللہ رب العزت عادل مطلق نہیں؟ کیا وہ بلاوجہ کسی کو گمراہ کر دیتا ہے؟ جی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ بھی بیان فرما دی ہے کہ جو لوگ اللہ کو اپنا ولی (سرپرست) قرار دیتے ہیں اللہ ان کو گمراہی سے نکال کر ہدایت کی روشنی کی طرف لے آتا ہے اور جنھوں نے شیطان کو اپنا سرپرست (ولی) تسلیم کر لیا وہ گمراہی کے اندھیروں میں چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
جب کہ اللہ تعالیٰ کے نظام کی بنیاد ہی یہ ہے کہ اس کا پیغام و ہدایت ہر دور ہر زمانے اور ہر علاقے کے لوگوں تک پہنچے تا کہ روز قیامت (حساب) کسی ایک فرد کے پاس بھی حجت نہ رہے کہ تیرا پیغام ہم تک نہیں پہنچا تھا، اس لیے ہم گمراہ رہے۔ ہدایت کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے گئے ہیں جو جب چاہے ان میں داخل ہو جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم دین اسلام کے پیروکار پھر مختلف الخیال کیوں؟ اس کی وجہ بھی کتاب ہدایت میں بیان کی گئی ہے کہ ''ہم نے انھیں توریت کا وارث بنایا تھا مگر انھوں نے اس کمینی و حقیر دنیا کے عیش کی خاطر اس میں تبدیلیاں کر دیں اور لوگوں سے اصل بات چھپائی (سورۃ الاعراف آیت۔169) حدیث مبارکہ ہے کہ جو لوگ ہدایت ربانی میں اپنی من مانی کرتے ہیں (دنیاوی فوائد کے لیے) ان کا حشر ان ہی علمائے یہود کے ساتھ ہو گا۔
فی زمانہ شاید یہ وہ لوگ ہیں جو پیغام الٰہی کے بجائے اپنے خاندانی و قبائلی رسم و رواج کو اسلام کی چادر سے ڈھانپ دیتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقوں کو نہیں چھوڑیں گے (القرآن)۔ جو اپنی روایات کو دین کا درجہ دیں ان میں اور کفار مکہ میں کیا فرق ہے؟ وہ بھی تو بضد تھے کہ محمدؐ کیا ہم تمہارا دین اختیار کر لیں اور اپنے بزرگوں کے طور طریقوں کو چھوڑ دیں؟ یہ تک کہا گیا کہ ہم جہاں اپنے خداؤں کو (بتوں کو) پوجتے ہیں وہاں تمہارے اللہ کو بھی مان لیتے ہیں مگر تم ہمیں بتوں کی پوجا سے مت روکو۔ مگر پیغام حتمی مرتبؐ تھا کہ لا الہ اللہ کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے پہلے اپنے من گھڑت خداؤں کا انکار کرو پھر میرے واحدہ لاشریک رب کو تسلیم کرو۔ تو دین خدا تو یہی ہے کہ نہ خاندانی رسم و رواج نہ قبائلی روایات بلکہ ایک مکمل شریعت اور ضابطہ حیات پر سب متفق ہوں۔
جو حقوق جس کے مقرر کر دیے گئے بس وہی حتمی ہیں ان میں نہ اضافہ نہ کمی۔ یقیناً اسلام نے عورت کے لیے کچھ حدود مقرر کی ہیں مگر بحیثیت انسان مرد و زن کو برابر بھی قرار دیا ہے، اللہ کا پسندیدہ وہی ہے جو تقویٰ اختیار کرے، نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے اور نیک کام کرے، اب چاہے وہ مرد ہو یا عورت محض جنس کی بنا پر کوئی بھی کسی رعایت کا مستحق نہیں۔
کیا مرد کی مردانگی یہی ہے کہ وہ خود سے کمزور ہستی پر ظلم و تشدد کرے؟ اگر خواتین کا احترام اور ان سے مساوی سلوک کرنا کنگن پہننا ہے تو کیا مرد کے ہاتھ میں ڈنڈا، لاٹھی، چاقو یا تیزاب کی بوتل ہو تو وہ مرد کہلائے گا ورنہ وہ زن مرید ہو گا؟
یا الٰہی یہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ کیا ناموس رسالت پر جان دینے والوں نے ایک کافرہ اور رسولؐ کی اذیت کا باعث بننے والی اس عورت کا واقعہ کہیں نہیں پڑھا، جو آپ کے سر اقدس پر روز کوڑا ڈالتی تھی، جب معمول میں فرق آیا اور حضورؐ کو معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہیں تو آپؐ عیادت کو تشریف لے گئے۔ اس سے زیادہ دلکش حسن سلوک عورت کے ساتھ اور کیا ہو گا؟ ہم اسی رسولؐ کی امت اپنے گھر کی عورتوں کی ذرا سی غلطی معاف کرنے کو تیار نہیں۔ دس سالہ بچی کو محض گول روٹی نہ بنانے پر اس کے باپ بھائی قتل کر دیں اور معاشرے میں کوئی احتجاج نہ ہو۔
اگر کسی جاہل کے دماغ میں شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی شریک حیات کی ہر غلطی ہر خطا پر اس کو زد و کوب کرے (خدا جانے یہ روایت کہاں سے آئی ہے) تو کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہر مرد (اولاد) کی جنت اس کی ماں کے قدموں تلے ہے تو جو آپ کی ماں ہے وہ آپ کے والد کی بیوی ہے، جو آپ کی بہن ہے وہ آپ کے بہنوئی کی بیوی ہے جو ایثار و محبت کا اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ کے لیے انمول تحفہ ہے، جو آپ کی نور نظر آپ کی بیٹی ہے وہ آپ کے داماد کی بیوی ہے تو کیا ہر شوہر اپنی بیوی کا اسی طرح استحصال کرے کیونکہ وہ شوہر ہے (آپ ہر صورت کو برداشت کرنے کو تیار ہیں) افسوس صد افسوس ہم نے ہماری جہالت اور روایت پرستی نے امن و سلامتی کے دین کو ظلم و تشدد، استحصال اور ترقی کے دشمن دین کے طور پر پوری دنیا میں متعارف کروانے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔