شہباز خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔درد کو اگر مجسم دیکھنا ہو تو اس سے ملیے

’’زندگی کی گاڑی رینگ رہی ہے، معذور ہوں مگر اپنے گھر والوں کے لیے سب کچھ کروں گا‘‘


Abdul Latif Abul Shamil November 11, 2012
ٹائروں کے پنکچر لگاکر گھر چلانے والے نوجوان کی آنسوؤں میں بھیگی کہانی۔ فوٹو : فائل

رنگا رنگ دنیا ہے یہ ، ہمہ رنگ انسان کیسے کیسے لعل ہماری بے حسی کی نظر ہوجاتے ہیں۔

جب تک جیتے ہیں ہم قدر نہیں کرتے اور جب مر جاتے ہیں تو رونا روتے ہیں، وہ بھی اکثر کا نہیں ۔ ہم ہمیشہ دور کی چیزیں دیکھتے ہیں۔ ویسے بھی قریب کی چیزیں ہمیں نظر نہیں آتیں۔ انسان تو پھر انسان ہے۔ ہم چیزوں کی قدر کرتے ہیں انسانوں کی نہیں۔
شہباز خان بھی ایک ایسا ہی لعل ہے، جو ہماری بے حسی کا شکار ہے۔ میں اس کے پاس پہنچا تو وہ آمادہ نہیں تھا۔ صحیح تو کہہ رہا تھا وہ۔ آخر کیا ہوگا اس سے۔ وہ مجھ سے اپنا دکھ آخر کیوں بیان کرے۔ بہت مشکل سے آمادہ ہوا۔ وہ دکھ، درد، بے یقینی اور افلاس کا پیکر ہے۔ درد کو اگر مجسم دیکھنا ہو تو اس سے ضرور ملیے۔ لیکن وہ عزم و حوصلے کا شاہ کار بھی ہے۔ وہ خودترسی کا مریض نہیں ہے۔ اس کی آنکھوں میں بیتے ہوئے ماہ وسال کا دکھ ہی نہیں اچھے دنوں کے خواب بھی ہیں ۔ ہمت بھی، عزم بھی اور حوصلہ بھی۔ کچھ کر گزرنے کا سودا اس کے دل میں سمایا ہوا ہے۔ چشم بینا ہو تو دیکھیے، ہاں اگر چشم بینا ہو تب۔ رواں لہجہ او عزم ہمت سے لبریز، گفت گو، اسے ہم سے ویسے تو کوئی گلہ نہیں ہے۔ لیکن مجھے ایسا لگا کہ وہ کہہ رہا ہو؎
بہت اداس ہو دیوار و در کے جلنے سے

مجھے بھی ٹھیک سے دیکھو، جلا تو میں بھی ہوں
آئیے! شہباز خان سے ملتے ہیں۔ ہاں وہ واقعی شہباز ہے، بلند ہمت و بلند پرواز۔

میں 1988ء میں بہاول پور میں پیدا ہوا ۔ مجھ سے چھوٹے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ والد شیراز خان شٹرنگ کا کام کرتے تھے۔ کام کیا، بس مزدوری عمارتیں بنانے والے ٹھیکے دار کے پاس دیہاڑی دار مزدور، اور یہاں مزدور کا جو حال ہے وہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ کام مل گیا تو اور رو دھو کر گزارہ، ورنہ بس رونا۔ ایسی چادر کی طرح ہے۔ یہاں مزدور کا حال کہ سر چھپاؤ تو پاؤں ننگے رہ جاتے ہیں۔ بس ٹھیکے دار کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ مزدور کی زندگی۔ میرے والد کا بھی یہی حال تھا۔ روکھی سوکھی مل ہی جاتی تھی۔ میری ماں بھی کھیتوں میں کام کرنے جاتی تھی۔ وہ بھی مزدور ہی تھی اور اب تک ہے۔ سو، پچاس روپے اسے بھی مل ہی جاتے تھے۔ جب مصیبت اور دکھ آتا ہے، تو بتا کر نہیں آتا اور جب آجائے تو جانے کا نام نہیں لیتا۔ گھر میں بسیرا کر لیتا ہے۔ میں تین سال کا تھا کہ مجھے پولیو ہو گیا۔ یہ پولیو کے قطرے پلانے کا کام تو اب شروع ہوا ہے، وہ بھی شہروں میں، گاؤں دیہات میں تو اب بھی اتنا نہیں ہے۔

خیر پہلے میری ایک ٹانگ خراب ہوئی تھی۔ میرے والد اور والدہ مجھے وہاں ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ اس وقت تو مجھے ہوش نہیں تھا، ماں ہی بتاتی ہے یہ سب ۔ اس ڈاکٹر نے مجھے نہلا کر پنکھے کے نیچے لٹا دیا۔ انجکشن بھی لگایا، دوا بھی دی ۔ ابّا اما ں تو ان پڑھ ہیں وہ کیا جانیں کیا صحیح ہے کیا غلط۔ جو ڈاکٹر نے کہا مانتے چلے گئے۔ ماں بتاتی ہے کہ صبح ہوئی تو میری دوسری ٹانگ بھی ختم ہوچکی تھی۔ انھوں نے ڈاکٹر سے پوچھا یہ کیا ہوا تو اس نے کہا بس یہی تھی خدا کی مرضی۔ تمھارا بیٹا معذور ہوگیا ہے۔ صبر شکر کرکے رو دھو کے ماں باپ گھر لے آئے۔

یہ تو بہت عرصے بعد معلوم ہوا کہ وہ جعلی ڈاکٹر تھا۔ یہ جعلی ڈاکٹر معصوم لوگوں کی زندگی برباد کردیتے ہیں۔ انھیں ذرا بھی شرم نہیں آتی ۔ اب کیا بتاؤں مزدور ماں باپ کا معذور بچہ، جینا عذاب ہوگیا۔ زندگی اندھیر ہوگئی۔ مت پوچھیں۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا کہ انھوں نے میرے علاج میں کوئی کسر چھوڑی ہو۔ کیا نہیں کیا میرے ماں باپ نے غربت کی حالت میں، خود بھوکے رہے۔ جو کچھ اور تھا بھی کیا... سب بیچ کر انھوں نے جو ان کی بساط میں تھا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کیا ڈاکٹروں کو، حکیموں کو، مزاروں پر، ٹونے ٹوٹکے جو بن پڑا کیا۔ پھر میں بڑا ہوگیا تھا، لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ میری ماں مجھے اٹھا کر لے کر جاتی تھی۔ ہر جگہ یہ مائیں بھی عجیب ہوتی ہے ناں۔

اس کے آنسو پہلے تو چمکنے لگے اور پھر بہہ نکلے۔ یہی ہے زندگی، تم تو بہت بہادر ہو۔ میں نے اسے دلاسا دینے کی کوشش کی، لیکن وہ تو دریا کی طرح بہہ نکلا تھا۔ تھوڑی تک وہ بادوباراں کی طرح برسا۔ پھر سنبھل گیا ۔ کب تک رو سکتا ہے انسان۔ رونے کے بعد سنبھل ہی جاتا ہے۔ چاہے کچھ دیر کے لیے ہی سہی۔ پھر کیا ہوا شہباز...؟ میں پھر سے ایک کنکر اس کی ساکت جھیل میں پھینک دیا اور پھر دائرے بنتے چلے گئے۔

پھر وہی جو ایک معذور کے ساتھ ہوتا ہے یہاں۔ سب تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے، لیکن میری ماں نہیں ہاری تھی۔ پندرہ سال تک وہ مجھے اٹھا کر لے جاتی تھی۔ خود کھیتوں میں مزدوری کرتی تھی، آج بھی کرتی ہے۔ اس نے مجھے اسکول میں بھی داخل کرایا۔ لیکن بچے تو شرارتی ہوتے ہیں۔ ہر کوئی میرا مذاق اڑاتا تھا۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ پڑھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر پیسے ہوتے، کسی بڑے گھر کا ہوتا تو پڑھتا بھی۔ یہاں تو کھانے پینے کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ میرے والد نے بھی ایک دن کہا کہ تجھے کچھ تو کرنا پڑے گا۔ کچھ تو میرا ہاتھ بٹانا ہی پڑے گا۔ اور میں نے درزی کا کام سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ ایک ٹیلر ماسٹر سے بات کی اور کام سیکھنے کے لیے جانے لگا۔ گاؤں دیہات میں اتنا کام تو ہوتا نہیں ہے۔ انھوں نے بھی میرے صبر کا پورا امتحان لیا۔ لیکن چار سال میں کام سیکھ گیا تھا۔ دیہات میں کام ہی نہیں تھا۔ میرا چچا زاد کراچی میں ٹیلر تھا۔ میں نے اس سے بات کی اور اپنے چچا کے ساتھ کراچی آگیا۔ یہاں پہنچ کر دنیا ہی بدل گئی۔ اچھا ہی ہوا میں یہاں آگیا۔

میں اپنے چچا زاد کے ساتھ کام کرنے لگا۔ وہاں سارا کام میں کرتا تھا اور مزدوری بھی بہت کم ملتی تھی اور وہ بھی بھکاریوں کی طرح۔ انھیں تو مفت کا نوکر ہاتھ آگیا تھا، لیکن میں کام کرتا رہا، صبر و شکر کے ساتھ۔ پھر چچا زاد نے وہ دکان ہی بند کر دی اب میں فٹ پاتھ پر تھا۔

وہ پھر برسنے گا اور میرے سامنے ایک شعر ناچنے لگا؎
ہے یہ اندیشہ کہ بہہ جائے نہ اب اشکوں میں
دوست! مجھ کو دل غم خوار سے ڈر لگتا ہے

میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے سگریٹ ہونٹوں میں دبایا۔ وہ اسے شعلہ دکھانے ہی والا تھا کہ میں پوچھ بیٹھا:
تم سگریٹ بھی پیتے ہو؟

میں سگریٹ پیتا ہوں تو آپ خفا ہو رہے ہیں۔ لوگ تو خون پی رہے ہیں آپ انھیں کچھ نہیں کہتے۔ وہ بہت جان دار قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔
فٹ پاتھ پر کیسے آگئے تم؟

لوگ سمجھتے ہیں رشتے دار دکھ درد میں کام آتے ہیں۔ سب باتیں ہیں جی۔ دکھ درد میں تو رشتے دار بھاگ جاتے ہیں کہ یہ کہیں کچھ مانگ نہ لے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں بہت بیمار تھا۔ میری ماں اور باپ نے کچھ پیسے جمع کیے۔ بس سو روپے کم تھے۔ مرے ابا اپنے بھائی سے سو روپے مانگنے گئے تو پتا ہے۔ انھوں نے کیا کہا...؟

نہیں مجھے کیا معلوم کیا کہا، تم بتائو؟
جناب انھوں نے کہا میرے پاس نہیں ہیں سو روپے، اپنے معذور بیٹے کو کہیں بٹھا دو، بہت سے پیسے ملیں گے بھیک میں، یہ ہے رشتے داری ... چچا زاد کی دکان بند ہوگئی، تو مجھے ان کے گھر سے بھی نکلنا پڑا۔ پہلی رات فٹ پاتھ پر، بھوکا پیاسا اوپر آسمان اور نیچے میں ... کچھ لوگوں نے پیسے دینے کی کوشش کی تو میں نے انھیں کہا میں بھکاری نہیں ہوں۔ رات تو جیسے تیسے کٹ ہی گئی، صبح ہوئی تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، یہاں تو چنگے بھلے بندے کو کام نہیں ملتا۔ مجھے کون دیتا۔ میں بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا کہ دو آدمی میرے پاس آئے تو کہنے لگے، چائے پیو گے؟ میں نے کہا نہیں۔ وہ پاس بیٹھ کر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے اور پھر مجھ سے بولے کام کروگے؟ میں نے کہا کیسا کام؟ تو کہنے لگے ایسا کام کہ عیش کرو گے؟ پولیس بھی تمھیں نہیں پکڑے گی۔ میں نے کہا پولیس کیوں پکڑنے لگی مجھے۔ تو کہنے لگے تم معذور ہو ۔ کسی کو شک بھی نہیں ہوگا۔ تم چرس، ہیروئن بیچو ہم لاکر دیں گے۔ بہت عیش کرو گے۔

میں نے صاف انکار کر دیا میرا ضمیر زندہ ہے، میں نے ان سے کہا ۔ انھوں نے کہا ضمیر زندہ مردہ چھوڑو ہمارے لیے کام کرو۔ میں نہیں مانا تو انھوں نے اتنا مارا کہ بتا نہیں سکتا۔ ایک آدمی نے انھیں روکا، تو اسے بھی مارنے لگے وہ خود نشے میں دُھت تھے۔ پھر وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ رات تک سوچ لینا۔ رات کو وہ پھر آگئے اور پھر سے بہت مارا۔ میں خاموشی سے مار کھاتا رہا اور سوچتا رہا کہ آخر میں کیوں پیدا ہوا ہوں۔ وہ مجھے پھر سوچنے کا کہہ کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں وہاں سے گھسٹتا ہوا چل پڑا۔ صبح تک میں اسی طرح رینگتا ہوا بہت دور نکل گیا۔ بہت تھک گیا تھا۔ فجر کی اذان ہوئی تو میرے آنسو بہہ نکلے، اور میں نے دعا کی ''یا اﷲ میرا کوئی آسرا بنا دے'' بہت تھک گیا تھا تو مجھے نیند آگئی۔ سورج نکل آیا تھا تو میں جاگ گیا۔ میری دعا اﷲ نے سن لی تھی۔

وہ مسکرانے لگا ، واقعی تمھاری دعا اﷲ نے سن لی تھی میں نے پوچھا۔ ہاں بس پھر زندگی بدل گئی زندگی کے بھی نجانے کتنے رنگ ہوتے ہیں۔
یہ تو بتاؤ کیسے بدل گئی زندگی تمھاری؟

میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا ، سامنے کی دکان میں میری طرح کا ایک معذور آدمی بیٹھا ہوا ٹیوب کے پنکچر لگا رہا تھا۔ میں اس کے پاس پہنچا اور بہت دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ پھر اسے کہا استاد مہربانی کرو گے مجھ پر ۔ وہ بولا کیا مہربانی؟ میں نے کہا مجھے بھی یہ کام سکھا دو، تو وہ ہنس کر کہنے لگا تم بھی معذور ہو اور میں بھی معذور۔ لوگ میرا مذاق اؑڑاتے ہیں پھرا تمھارا بھی اُڑائیں گے۔ اگر تم لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور دل لگا کر کام کرو تو میں تمھیں ایک مہینے میں یہ کام سکھا سکتا ہوں۔ میں نے کہا منظور ہے۔ اور بس زندگی بدل گئی میری ایک مہینے میں۔

میں کام سیکھ گیا۔ فٹ پاتھ پر سوتا تھا۔ وہیں ایک اور مزدور سے ملاقات ہوئی اور ہم دوست بن گئے۔ وہی میرا دوست ہے، بھائی ہے، باپ ہے بہت مدد کی اس نے میری۔ کچھ پیسے دیے اور میں نے سامان خریدا اور یہ کام کرنے لگا۔ سامان تو میرے پاس اب بھی پورا نہیں ہے۔ بس اﷲ روزی دیتا ہے اور عزت کی دیتا ہے۔

شہباز کہانی تو ادھوری رہ گئی ہے کہاں رہتے ہو؟ کھاتے پیتے کیسے ہو؟ آتے جاتے کیسے ہو؟
انسان کی کہانی تو اس کی موت تک جاری رہتی ہے جی۔ آنکھیں جب تک دیکھ رہی ہیں۔ کہانی بھی چل رہی ہے۔ آنکھیں بند ہوجائیں گی تو کہانی بھی مُک جائے گی۔ ہاں تو اس کے بعد میں نے یہ کیبن لیا اور کام شروع کیا۔ رہنے کا مسئلہ تھا تو ایک کوارٹر لیا۔ تین ہزار روپے کرایہ ہے اس کا۔ پہلے تو میں سڑک پر گھسٹ گھسٹ کر جایا کرتا تھا۔ اکثر لوگ مجھے بھکاری سمجھتے تھے اور پیسے دینے کی کوشش کرتے تھے۔ میں ان سے کہتا، بھائی میں بھکاری نہیں ہوں مزدور ہوں، پھر یہ سائیکل گاڑی بنائی۔ اب کچھ سہولت ہوگئی ہے، لیکن سڑکوں کی حالت تباہ ہے، بہت مشکل سے آتا جاتا ہوں۔ ہاتھ شل ہوجاتے ہیں۔ لیکن کچھ پانے کے لیے کھونا تو پڑتا ہے۔ خوش ہوں کہ اپنے بہن بھائیوں ماں باپ کا سہارا ہوں، جو کچھ ہوتا ہے کرتا ہوں۔

اب تو تمہیں خوش ہوتی ہوگی کہ جو تم نے چاہا کر دکھایا۔ کیا کر دیا جی، اب تک تو کچھ بھی نہیں کر سکا، لیکن کوشش ہے اور تمنا بھی کہ کچھ کر سکوں اب ہیلپر بھی رکھ لیا ہے۔ اس سے بہت آسانی ہوگئی ہے ۔ دو سو روپے اسے بھی دینے پڑتے ہیں۔ گزارہ ہو رہا ہے۔ گھر والوں کو بھی تھوڑے بہت پیسے بھیج دیتا ہوں۔ محنت کرتا ہوں اﷲ روزی دیتا ہے۔

حکومت کی جانب سے غریبوں کی امداد کی جاتی ہے، تم نے کیوں نہیں لی؟
اجی چھوڑیں، آپ بے نظیر اسکیم پروگرام کی بات کر رہے ہیں۔ سچی بات ہے کیا چھپانا، میں نے کوشش کی تھی۔ کچھ نہیں ملا، انھیں ملا جن کے پاس بہت پیسے ہیں ۔ ہمیں تو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے۔ رہنے دیں، کہتے کچھ ہیں، کرتے کچھ ہیں اچھا ہے نہیں ملا۔ کسی کا احسان تو نہیں اٹھایا۔

کپڑے دھوبی سے دھلواتے ہو یا...؟
سب کچھ خود کرتا ہوں۔ اتنے پیسے کہاں ہیں کہ دھوبی کو دوں۔ طبیعت خراب ہوتی ہے اور جب بہت مجبوری ہو تو ڈاکٹر کے پاس چلا جاتا ہوں۔ چھوٹی موٹی بیماریوں میں (میڈیکل) اسٹور سے دوا لے لیتا ہوں۔ بس میرے سر پر ایک ہی بات سوار ہے۔ مجھے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کرنا ہے۔ میری تمنا ہے کہ اپنی والدہ ، والد کو بہن بھائیوں کو سکھ چین کی زندگی دے سکوں۔ میری ایک بہن کی شادی ہوگئی ہے۔ میں نے کہا ناں کہ غربت بہت بڑی لعنت ہے۔ غربت امتحان میں ڈال دیتی ہے۔ ہم نے اتنی اچھی بہن اپنے چچا زاد سے بیاہ دی۔ ان کے روز کے مطالبے ہی پورے نہیں کر سکتے تھے۔ سات سال ہوگئے وہ گھر بیٹھی ہوئی ہے۔ نہ وہ طلاق دیتے ہیں نہ بساتے ہیں۔ عجیب دنیا ہے یہ۔ یہ ہیں رشتہ ناتے، غربت آپ کو ننگا کر دیتی ہے۔ پیسہ آپ کا ہر عیب چھپا لیتا ہے۔ پیسے کی دنیا ہے جی۔ اب کیا رونا، چھوڑیں، دنیا ایسی ہی رہے گی ۔ مجھے تو بہت سے کام کرنے ہیں اﷲ نے چاہا تو ضرور کروں گا۔

کیا کام شہباز؟
میں اپنے گھر والوں کو خوشیاں دینا چاہتا ہوں۔ انھیں راحت پہنچانا چاہتا ہوں۔ میں انھیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں معذور سہی، لیکن ان کے لیے سب کچھ کروں گا۔ بہنوں کی شادی کراؤں گا بھائیوں کو کسی قابل بناؤں گا۔ میری والدہ بنگلا دیش کی ہیں۔ ان کی تمنا ہے کہ ایک مرتبہ وہ ضرور اپنے میکے والوں سے ملیں۔ میری پوری کوشش ہے کہ ان کی یہ خواہش پوری کروں۔ ہمارے گھر کی چھت گر گئی ہے۔ بہت عرصہ ہوگیا ہے۔ انشاء اﷲ وہ بناؤں گا۔ دیواریں گرنے والی ہیں، انشاء اﷲ میں سب کچھ کروں گا۔ محنت کرنا میرا کام ہے باقی تو اﷲ کرتا ہے۔ غریب کے سر پر اﷲ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ لوگوں کا رویہ کیسا ہے تمھارے ساتھ؟

بس جی ہر آدمی کا اپنا اپنا برتاؤ ہے، کوئی تو تعریف کرتا ہے، مجھے استاد کہتا ہے تو اچھا لگتا ہے کہ اﷲ نے اس قابل بنایا، اور کوئی تنگ بھی کرتا ہے مذاق بھی اڑاتا ہے۔ ہر طرح کا انسان ہوتا ہے ناں دنیا میں تو...
تم اپنی اس سائیکل گاڑی میں انجن لگوالو بہت آسانی ہوجائے گی تمھیں۔

ہاں جی اوروں کی طرح آپ بھی مشورہ دے رہے ہیں۔ مشورہ دینا تو بہت آسان ہے کرنا مشکل ہے۔ اب انجن تو لگوالوں جیسے تیسے کرکے لیکن پھر پیٹرول کہاں سے لاؤں گا۔ سائیکل گاڑی کو کیا کرنا۔ بس یہی صحیح ہے۔ زندگی کی گاڑی رینگ رینگ کر چل رہی ہے جی۔ آئے دن ہڑتال ہنگامے ہوتے رہتے ہیں اور کام متاثر ہوتا رہتا ہے لیکن ہمت نہیں یاروں گا ۔ جو نصیب میں ہوگا مل جائے گا اپنی نیت اچھی ہونی چاہیے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ زندہ رہنا ہے تو کان منہ بند کرلینے چاہییں۔ بس کام سے کا م، دور بہت نازک ہے۔ غربت میں انسان اکثر غلط سوچتا ہے۔ حالات سے تنگ آکر غلط کام کرنے لگتا ہے اور پھر عمر بھر پچھتاتا ہے۔ ہمیں کسی بھی حالت میں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کسی بھی حالت میں ضمیر نہیں بیچنا چاہیے۔ مجھے بھی بہت سارے غلط کام کرنے کا کہا لوگوں نے۔ لیکن میں نہیں مانا ، مجھے اچھا لگتا ہے کہ محنت سے کماتا ہوں اور رات کو گھر جا کر اچھی نیند سوتا ہوں۔ میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں۔ یہ خوشی ہے کہ اﷲ نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا ہے اور پکڑے رہے گا۔

انسان کا کام ہے محنت کرنا اﷲ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔ میں معذور ضرور ہوں، لیکن بے ضمیر نہیں ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک معذور نے ہی مجھے جینا سکھایا۔ لوگ ہمیں کچھ دے نہیں سکتے، تو بھلے نہ دیں، بس اچھی بات کریں ۔ اچھے اخلاق سے بات کریں ۔ یہی غنیمت ہے۔

یہ ہے شہباز خان کی دکھ بیتی۔ لکھنا بہت آسان ہوتا ہے ۔ نصیحت کرنا دنیا کا آسان ترین کام ہے، جس پر بیت رہی ہے بس وہ جانتا ہے۔ ہم نے نہ جانے کیسے کیسے لوگوں کو ہیرو بنایا ہوا ہے۔ اصل ہیرو تو شہباز خان جیسے نوجوان ہیں۔ جنھیں ہم فراموش کیے ہوئے ہیں۔ فراموش ہی نہیں، شہباز جیسے لوگ ہمیں دکھائی بھی نہیں دیتے۔ ہم بینا ہوں تو ہمیں دکھائی بھی دیں ۔

ویسے تو ہر شخص کے دل میں ایک کہانی ہوتی ہے
ہجر کا لاوا، غم کا سلیقہ، درد کا لہجہ ہو تو کہو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں