غذا کی جنگ عظیم
ملک کے بڑے مسائل کی فہرست ترتیب دیجیے اور پھر اسے مکمل خاموشی سے پڑھیے۔
ملک کے بڑے مسائل کی فہرست ترتیب دیجیے اور پھر اسے مکمل خاموشی سے پڑھیے۔ اگرآپ کے پاس کوئی علیحدہ کمرہ یا تنہائی کا سامان میسر نہیں ہے، تو کسی مصروف ترین چوک کے قریب کھڑے ہو جائیے۔ کاغذ پر پاکستان کے مسائل کی ایک لسٹ بنائیے اوراسے بغورپڑھنا شروع کیجیئے۔ اگر ایک لاکھ آدمی یہ فہرست بنائیں تو اکثریت کے نکات تقریباً ایک جیسے ہوں گے۔
مثلاً پاکستان میں جمہوریت ہونی چاہیے یا فوجی حکومت یا ٹیکنوکریٹ ماہرین کی۔ ہندوستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات کیسے ہونے چاہیے، دہشت گردی کو کیسے شکنجہ میں جکڑا جائے۔ دہشت گردی کی اصل جڑ کیا ہے۔ اس طرح کے بیس پچیس نکات فہرست میں ضرور نظر آئیں گے۔ لیکن ایک بات جو آپ نظرانداز نہیں کر سکتے، وہ سادہ سی ہے، ان تمام مسائل کا عام آدمی کی زندگی سے کوئی گہرا تعلق نہیں ہو گا۔
اب آپ انھی لوگوں کو دوسرے کام پر لگا دیجیے۔ کہیں کہ وہ اپنی اپنی زندگی کے مسائل کے بنیادی نکات کو ایک یا دو صفحات پر درج کر لیں۔ آپ اس مشق میں ہر سطح کے لوگوں کو شامل کر سکتے ہیں۔ طالبعلم، زراعت پیشہ لوگ، سرکاری ملازم،جیل کے سزا یافتہ قیدی اور پسے ہوئے طبقہ کی کوئی بھی علامت۔ آپ اس دوسری فہرست پر نظر ڈالیں گے تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ یہ بھی تقریباً ایک جیسے نکات پر مبنی ہو گی۔
انصاف کی عدم دستیابی، بے روزگاری، خیانت، رشوت ستانی اور اس طرح یا اس سے ملتے جلتے دیگر مسائل۔ مگر یہاں ایک اہم نکتہ اور بھی ہے۔ جو مرد اور خواتین فہرست بنا رہے ہوں گے، وہ ان معاملات کو درست کرنے کی اہلیت، ہمت، استطاعت یا حیثیت نہیں رکھتے۔ انصاف کی فراہمی یا عدم فراہمی پر سالانہ ہزاروں سیمینار اور اجتماع ہوتے ہیں۔ مگر عملی طور پر معاملہ وہیں کا وہیں رہتا ہے اور کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ آپ اگر تحقیقی نظرسے جائزہ لیں، تو آپ کو ایک جھٹکا سا لگے گا، کہ عدالتی یا انصاف کا معاملہ، آپ بہتر نہیں کر سکتے۔ تھوڑی سی بحث کے بعد بات نظام کی نااہلی کی طرف چلی جائے گی۔
آپ ایک نیب کے بجائے، دس ادارے اور بنا لیجیے۔ رشوت بڑھے گی، کم نہیں ہو گی۔ پولیس کے حق میں یا خلاف بولتے رہیں۔ آپ اس حکومتی ادارے کو بذات خود بہتر نہیں کر سکتے۔ میں یہ تمام الفاظ تناسب کے حوالے سے استعمال کر رہا ہوں۔ لازم ہے کہ ذاتی حیثیت میں کئی لوگوں نے سنجیدہ کوششیں کیں اور اس کاجزوی نتیجہ بھی نکلا۔ مگر عوام بے بس رہے۔ یہ بے بسی زہر قاتل ہے اور کسی بھی ملک کی فکری، سماجی اور اقتصادی اساس کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ طالبعلم کی رائے میں دیمک کا کام مکمل ہو چکا ہے۔
جو گزارشات پیش کی ہیں، ان میں کوئی بھی اہم نہیں ہے۔ شائد اہم ہو بھی۔ مگر آپکو کوئی نئی بات عرض نہیں کی۔ کہتا چلوں کہ کئی کئی ماہ ہو جاتے ہیں، کوئی نئی بات سننے کو نہیں ملتی۔ خیر میں اب اس اہم ترین نکتہ کی جانب آتا ہوں جو آپ کی اپنی ذات سے وابستہ ہے اور آپ خود کرنے پر قادر ہیں۔ آپ اس کی ذمے داری اپنے علاوہ کسی پر نہیں ڈال سکتے۔ یہ اہم نکتہ، کھانے پینے کی وہ اشیاء ہیں جنھیں انگریزی زبان میں Processed Food کہا جاتا ہے۔
مجھے اس کا اردو ترجمہ نہیں آتا۔ اگر کوئی صاحب اس کا ترجمہ کرنے میں میری مدد فرمائیں تو میں بہت مشکور ہوں گا۔ یہ بنی بنائی یا پکی پکائی، روزمرہ کی استعمال کی وہ اشیاء ہیں، جن کا دو سے تین دہائیوں پہلے پاکستان میں کوئی وجود نہیں تھا۔ میرے علم میں یہ بھی ہے کہ میں جب ان اشیاء کو مضرِ صحت یا زہر قرار دوں گا تو میرے خلاف ایک ہنگامہ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ مگر میں اس کے لیے تیار ہوں۔ میں نے طالبعلم کی حیثیت سے جو تحقیق کی ہے، جن بین الاقوامی تحقیقی اداروں کی رپورٹس پڑھی ہیں، ان میں حتمی طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ پروسیسڈ فوڈ یا پینے کی چیزوں کے نقصانات اس درجہ ہیں کہ انھیں استعمال کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے۔ اگر نہ استعمال کریں تو یہ سب سے بہترحکمتِ عملی ہے۔
مغربی ممالک کی بات کر رہا ہوں جہاں حکومتوں کے پاس لوگوں کو محفوظ غذا فراہم کرنے کے قوانین موجود ہیں اور ان پر بغیر کسی امتیاز کے عمل بھی ہوتا ہے۔ اپنے جیسے ناپختہ ممالک میں ریگولیٹری(Regulatory) ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر کسی دکھاوے کی بنیاد پر بنا بھی لیے گئے ہیں توان کے پاس کوئی حتمی اختیارات نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ میں ملاوٹ جیسے عظیم گناہ کی بات نہیں کر رہا۔ یہ ملاوٹ تو اب ایمان سے لے کر ذہن تک اور جسم سے لے کر روح تک اتر چکی ہے۔ اب اس کا کیا ذکر کرنا یا گلہ کرنا۔
مشروبات(Soft Drinks) کو لے لیجیے۔ کوئی تقریب ان کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔ مشروبات اور آپ کی خوشی لازم و ملزوم ہیں۔ ادھر مختلف اداروں میں خوفناک تجارتی جنگ ہے۔ ہر ملٹی نیشنل کمپنی خود کو افضل ثابت کرنے میں مصروف ہے ۔
نوجوان نسل وہ طبقہ ہے جس کے پاس صحت کا انمول خزانہ موجود ہوتا ہے مگر انھیں اس کی اہمیت کا ادراک نہیں ہوتا۔ خیر بچوں کے ذہن میں کسی خواہش کو پیدا کرنا تو بہت آسان ہے۔ انتہائی سادہ الفاظ میں اپنا مدعا عرض کروں گا۔ ان مشروبات میں چینی کی زیادہ مقدار استعمال ہوتی ہے جس سے انسانی وزن بڑھتا ہے۔ موٹاپے اور خوفناک بیماریوں کا آپس میں پیار محبت کا رشتہ ہے۔ میرے سامنے ڈاکٹر گیری قورہن(Gary Curhan) اور ڈاکٹر ہیان کی چاؤ(Hyan ki Choi) کی تحقیقی رپورٹ پڑی ہوئی ہے جس میں تفصیل سے درج ہے کہ بعض مشروبات اور گھنٹیا کے مرض کا گہرا رشتہ ہے۔
دودھ یا گوشت کی طرف آئیے۔ دو تین دہائیوں سے مغربی کمپنیوں نے ہمارے جیسے اَن پڑھ اور ترقی پذیر معاشرے تلاش کر لیے ہیں۔ اب تو خیر لوگوں کو اصل دودھ اور دہی کا ذائقہ تک یاد نہیں۔ دہی اپنی خصلت میں کبھی میٹھا نہیں ہوتا۔ اصل دہی ہمیشہ ترش ہوتا ہے۔ کاروباری لالچ نے لوگوں سے ان کا ذائقہ تک چھین لیا ہے۔ امریکا کی ییل(Yale) یونیورسٹی کی ریسرچ کے مطابق "غیر قدرتی دہی" میں متعدد ایسے کیمیکل استعمال کیے جاتے ہیں جنکی انسانی جسم کو کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔
ایک ریسرچ میں تو بنی بنائی غذا کے متعلق یہاں تک کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیںکہ یہ انسانی جینز(Genes) اور ڈی این اے پرانتہائی منفی اثرات ڈالتی ہیں۔ ساری چیزوں کو چھوڑ دیجیے۔ مان لیجیے کہ میں نے اوپر جو کچھ لکھاہے، وہ غلط بیانی ہے۔ مگر کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نوزائیدہ بچوں کے لیے، ماں کا دودھ اور ڈبے کے دودھ میں کتنا فرق ہے۔
قدرت نے سائنسی اعتبارسے ماں کے قدرتی دودھ میں جو غذائیت رکھی ہے وہ خدا کا ایک انعام ہے۔ دنیاکے کسی ڈبے کے دودھ کو لے لیجیے۔ اس میں بچے کی بیماری کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے انٹی بوڈینر (Antibodies) نہیں ہو سکتیں۔ یہ صرف اور صرف ماں کی عظمت ہے کہ وہ اپنے لختِ جگر کو قدرتی طور پر بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اس بحث کو سمیٹنا بہت مشکل ہے۔ ایک کالم میں اس کا احاطہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے تو کتابیں اور رپورٹیں درکار ہیں اور خوش قسمتی سے موجودبھی ہیں۔ میرا مقصد تو صرف یہ ہے کہ آپ کو یہ عرض کر سکوں کہ اصلی اور قدرتی چیزوں کا استعمال کریں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ جزوی طور پر ناکام ہوںگے۔ مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ جزوی طور پر کامیاب ہو جائیں۔
ہمارا بالائی طبقہ ان معاملات کو خوب سمجھتا ہے۔ اس لیے وہ دیسی مرغی، دیسی دودھ، اَن چھنا آٹا، کھاد کے بغیر سبزیاں اور قدرتی غذا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے گھروں میں ان تمام اشیاء کا موثر انتظام ہے۔ رہے غریب اور متوسط درجے کے شناختی کارڈ، تو ان کے ہونے یا دنیا سے کوچ کر جانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس تجارتی جنگ عظیم میں ان کی کوئی حیثیت نہیں، اہمیت تو صرف منافع کی ہے!