میرا کراچی میرا سندھ میرا پاکستان
عجیب سی میری کہانی ہے، آج خود اپنے کالم میں یہ آپ کو سنانی ہے کہ کیسے اردو مجھے جہیز میں ملی
عجیب سی میری کہانی ہے، آج خود اپنے کالم میں یہ آپ کو سنانی ہے کہ کیسے اردو مجھے جہیز میں ملی اور پھر میری رگوں میں اتر تی چلی گئی۔ شاید یہ بات اتنی سادہ بھی نہیں۔ ابا بتاتے تھے کہ ہمارے اجداد فارسی کے استاد تھے اور یہ قاضی کا لقب ہمیں اسی تسلسل میں عنایت ہوا۔ ہمارا بھی ایک چھوٹا مدرسہ تھا۔
جی ایم سید اپنی کتاب میں ہمارا شجرہ نسب صدیقی بتاتے ہیں۔ آنکھ کھلی تو گھر میں دہقانوں کی تحریک کے قصے و کہانیاں تھیں، شاید ہی کوئی گھر ہو نوابشاہ کا جس کی تاریخ اتنی کشادہ ہو۔ ایک طرف سندھی زبان کی تحریک تھی جس کے لیے ابا نے مرنے کی گھڑی تک روزہ رکھ لیا تو دوسری طرف مولانا حسرت موہانی، فیض احمد فیض، ناصر کاظمی جیسے اردو کے عظیم شاعر بھی ہمارے مہمان ہوئے اور تو اور استاد بڑے غلام علی تو بار بار آتے رہتے۔ اقبال بانو ہو یا استاد منظور، کچھ یوں ہی تھے کہ کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے ۔ وکالت کی تو دہقانوں کے کیس لڑے، سیاست کی تو دہقانوں کے حقوق ہوں یا پاکستان میں چھوٹی قوموں کی حالت زار ہو۔
امام علی نازش، سجاد ظہیر، میجر اسحق یہ سب اسی تسلسل میں پروئے ہوئے تھے۔ خود محمود الحق عثمانی تو ابا کے جگر تھے۔ قصہ مختصر وہ رخصت ہوئے تو ہم ان کے تسلسل کو لے کر بیٹھ گئے، سارا لینن ہم کو اردو میں ملا، ساری روسی ناولیں بھی، ایک طرف شیخ ایاز تھا یا شاہ لطیف تو دوسری طرف فیض تھا، میر و غالب تھا اور ن م راشد ۔ اور پھر یوں کرتے کرتے ایک اردو بولنے والی لڑکی میری زندگی میں آئی، وہ شہری تھی اور میں وہ شہری تھا جس پر دیہات کا گہرا اثر تھا۔
مجھے یوں لگتا ہے یہ سارا سندھ جیسے میرے گھر کی کہانی ہو، گھر سے نکلو تو گلی کے نکڑ پر کسی بھیا کی پرچون کی دکان ہے۔ ایک طرف سندھی ٹوپی پہنے کوئی سائیکل پر سوار ہے تو منہ میں اس کے پان ہے۔ کچھ اس طرح سے ہی تھا، جب تک بھٹو اقتدار میں نہیں آئے تھے اور پھر یوں بھی ہوا کہ پہلے ہنگامے زباں کے نام پر 1972 میں ہی ہوئے۔ بھٹو نے گول میز کانفرنس بلائی تو ادھر پروفیسر غفور، رئیس امروہوی کھڑے تھے تو اس طرف ابا اور شیخ ایاز تھے۔
اور پھر نفرتوں کا طوفان تھا جو امڈ پڑا اور پھر تھم بھی گیا، جتنی شادیاں سندھیوں نے مہاجروں میں کی ہوں گی شاید ہی کسی نے کی ہوں، ہم بہت گھل مل سے گئے ہیں اور ابھی بہت کچھ رہتا بھی ہے۔ لیکن ایک بات اچھی ہوئی، آپ سارے پاکستانیوں کے لیے اردو رابطے کی زبان ہوگی، میرے لیے گھر کی زبان ہے۔ کتنا بھی ان پڑھ سندھی کیوں نہ ہو اسے روانی میں اردو بولنا آتی ہوگی۔ کوئی بھی دفتر ہو یا وہ زیادہ ہوں گے یا ہم کم ہوں گے۔
اب ہم کم ازکم لڑنے جھگڑنے سے گئے اور اگر یہ دکان دوبارہ سے کسی نے کھولنی ہے تو وہ پچھلی دہائیوں میں رہتا ہے۔ ہاں مگر جو ہم میں ملاپ ہے اس میں سست رفتاری کوئی ضرور حائل کرسکتا ہے۔ اور اس کے لیے آگے آئیں گے دونوں طرف سے سنجیدہ و دور اندیش ذہن، کہ ایسا نہ ہونے دیا جائے۔
ہمارے مشرف صاحب کو بھی سب سے پہلے پاکستان سمجھ آیا۔ آپ لوکل گورنمنٹ کا دفتر اسلام آباد لے گئے اور یوں سندھیوں کی خودمختاری کو سلب کیا گیا۔ بھلا ہوا اٹھارویں ترمیم کا، بلدیاتی حکومتیں واپس صوبوں کو ملیں تو دوسری طرف قائم علی شاہ ان بلدیاتی حکومتوں کا زیادہ حصہ اقتدار میں دینے کے لیے تیار ہی نہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اٹھارویں ترمیم کو ہی برا بھلا کہا جائے۔ وہ تو چلو کوئی بات نہیں کہ آپ اس ملک میں دو چار صوبے اور بنانا چاہتے ہوں، ذرا آئیں لیجیے اور بنا کے دکھائیے دو چار اور صوبے۔
ہم چاروں صوبوں نے پاکستان کو بنایا تھا، ہم تاریخی اعتبار سے علیحدہ وطن تھے، ثقافتیں ہیں اور جداگانہ تاریخ رکھتے ہیں اور اس بھرے پاکستان میں اگر ڈیموگرافی کسی صوبے کی تبدیل بھی ہوئی تھی تو وہ سندھ تھا اور جتنا مختلف رنگوں سے بھرا سندھ ہے اتنا تو شاید ہی کوئی اور صوبہ ہوگا۔ مذہبی انتہاپرستی کی جب ہوا چلی تو اس میں جتنا سندھ اب بھی اس کا شکار نہیں شاید ہی کوئی اور صوبہ ہو۔ اور اس میں پچاسوں برائیاں کوئی الطاف حسین کی کرے مگر اس حوالے سے اس نے مہاجروں کو صحیح راستہ دکھایا۔ سندھیوں کی تو مذہبی رواداری میں تاریخ پڑی ہے۔
مجھے اکبر زیدی کی یہ بات یاد آگئی جن پر ان کو اب بھی شرمساری ہے کہ کراچی میں رہتے ہوئے ان کو سندھ کی تاریخ نہیں پڑھائی گئی۔ آج جب میں اپنے بچے دیکھتا ہوں تو دکھ سا ہوتا ہے کہ ان کو بھی سندھ کی تاریخ کا اتنا علم نہیں، وہ صرف کراچی تک محدود ہیں اور یہ المیہ ہے۔
ہمیں اپنے بچوں کو اب بلھا، باہو، فرید کے پاس لے جانا ہوگا۔ ان کے لیے وادی سندھ کی تہذیب کے دریچے کھولنے ہوں گے۔ یہ ہے وہ تہذیب جو لداخ کے آبشاروں سے تبت کی پگڈنڈیوں سے اپنا تسلسل بناتی ہے۔
ہمیں جب تک وفاقیت سمجھ نہیں آئے گی تب تک پاکستانیت بھی سمجھنے سے ہم قاصر ہوں گے۔ یہ دونوں حقیقتیں ایک ہی سکے کے دو رخ یا زاویے ہیں۔
کوئی بری بات نہیں، دیہی و شہری فرق فطری ہے۔ ہمارے ہاں کچھ زیادہ ہے۔ یہ وہ واحد صوبہ ہے جس کو شہر کراچی خود نگل گیا ہے۔ پورے سندھ میں کہیں ترقی نہیں ہوئی، خود کراچی بھی پیچھے رہ گیا، کچرے کا ڈھیر! پنجاب میں آج کل ترقیاتی کاموں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔
اس میں وفاق کا اتنا قصور نہیں جتنا قصور سندھ حکومت کا ہے۔ لیکن پھر بھی کراچی باقی ماندہ سندھ سے بہت بہتر ہے، ذریعہ معاش بھی دیتا ہے، دیہی سندھ کیا دوسرے صوبوں سے بھی لوگ یہاں آتے ہیں۔ پختونوں کا تو اگر پاکستان میں کوئی شہر ہے تو وہ پشاور نہیں کراچی ہے۔ پورے پاکستان کو اس شہر نے جذب کیا ہے۔ اس کے علاوہ سرائیکی ، برمی، بنگالی اور طرح طرح کے لوگ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔رزق کماتے ہیں۔
یہ شہر اگر سندھ کا نہیں تو پھر یہ کیسے پاکستان کا ہوگا۔ جو اصول ہے اور جو فطری ہے اسے ہونے دو۔ دم چھلا ہوکر خود سندھ سے بے وفائی کرکے آپ مہا پاکستانی مت بنیے۔ ہوا کیا آج بھی آپ دوراہے پر کھڑے ہیں، وہی دو قومی نظریہ جو اب تاریخ ہوا۔ ہمیشہ آپ نے ولی خان، باچا خان، سہروردی جیسے لوگوں کو غدار کا خطاب دیا۔ اب کہاں ہیں ان آنے والی نسلوں کے لیے ہیرو۔ سب کچھ یوں لگتا ہے عربوں سے آیا ہے، ہمارا وجود جیسے حملہ آوروں کی غذا تھی۔ ہماری تاریخ کے اسلامی تاریخ کے علاوہ اور بھی بہت پہلو ہیں۔ اسے بھی دکھائیے۔
یاد رکھیے ہر راہ جو پاکستان کو جاتی ہے وہ سندھ سے گزر کر جاتی ہے، اسے اپنائیں اور اس پر فخر محسوس کریں اور وہ خود ایک زاویہ ہے کل مجموعی پاکستان کی تاریخ و ثقافت کا۔
آج پورے پنجاب میں اس سوچ کا غلبہ ہے، جس طرح امریکا میں ٹرمپ جاگ پڑا ہے اور جنونی اس کے پیچھے لگ گئے ہیں جس طرح سے ایڈوانی نے ہندوستان کو جنونیت میں دھکیلا۔ ہمیں جنگ و جنون چاہیے تھا۔ جنگی جنون کے لیے ہمیں مدرسے چاہیے تھے۔ مدرسوں کے لیے ہمیں فنڈ چاہیے تھے اور پھر اب تو یہ عالم ہے کہ کروڑوں ہیں ایسے لوگ جو اس بات کو صحیح سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مروجہ قوانین کا شیرازہ بکھر جائے اور یہ سارے ووٹ کسی اور کو نہیں جاتے جیساکہ زرداری ہو، اسفند یار ولی بلکہ یہ سارے ووٹ میاں نواز شریف کو دیتے ہیں۔
بہت دیر سے سہی مگر ہم نے اب ہوش کے ناخن لے لیے ہیں۔ ہمارے لیے اب آگے کے راستے کھلتے دکھائی دیتے ہیں۔