تھرکی ماں دکھی ہے
صحرائے تھر خوبصورت ہے، اس کی خوبصورتی کے بہت سے حوالے ہیں۔
صحرائے تھر خوبصورت ہے، اس کی خوبصورتی کے بہت سے حوالے ہیں۔ ہر حوالہ جامع اور مربوط ہے۔ چاہے تھری لوگوں کے مثبت رویے ہوں، رنگا رنگ ثقافت ہو، رہن سہن، رسمیں، لوک گیت اور بارشوں کا حسن ہو۔ ایک الگ ہی سماں دکھائی دیا۔ سندھ کے معروف ادیب ولیرام ولبھ صاحب کا تعلق مٹھی سے ہے۔ان کی صاحبزادی پشپا ولبھ سندھی زبان کی منفرد شاعرہ ہیں۔ ان کے لہجے سے تھر کی سادگی جھلکتی ہے۔ یہ دھیمے، ٹھنڈے میٹھے لہجوں اور مزاجوں کا دیس ہے۔
جب بھی موقع ملتا ہے، بے اختیار تھرکی طرف جانے کا پروگرام بن جاتا ہے۔تھرکے داخلی دروازے نؤںکوٹ کی تاریخی اہمیت ہے۔ نؤںکوٹ کا قلعہ اٹھارویں صدی کی تاریخ سینے میں سنبھال کے شان سے ایستادہ ہے۔ یہ قلعہ ٹالپر حکمران میرکرم علی خان نے بنوایا تھا۔ نؤںکوٹ کا ایک حوالہ فقیر حسین چانڈیوکا سبزے میں گھرا گھر بھی ہے۔
جہاں آتے جاتے سستانے کے لیے ٹھہرتے ہیں۔ حسین صاحب کی خاص بات یہ ہے کہ بہت مہمان نواز اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔ انھوں نے مخالفتیں مول لے کر اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔کہتے ہیں کہ عورت کے علم کے حصول کے بغیر یہ ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ وہ اکثر ان دشواریوں کا ذکر کرتے ہیں اور میں اس فیمنسٹ مرد کے حوصلے کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتی۔
تھر تعلیم کے میدان میں بہت آگے ہے۔ وہاں علم کو محض ڈگری کے حصول کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا، بلکہ تھریوں کے لیے علم آگہی اور من کی روشنی ہے۔ تھرکے کسی کونے میں بھی گئے تو وہاں اخبار پڑھنے والے لوگ موجود تھے۔ وہ ملکی حالات سے باخبر تھے۔ دنیا بدل گئی مگر تھری لوگوں کے مزاج کا خالص پن نہیں بدلا۔ کیونکہ یہ چالاکی یا ہوشیاری کوآگے بڑھنے کا ذریعہ نہیں سمجھتے۔ یہ جدید دنیا کے شارٹ کٹس ہیں۔ تھر میں افرادی قوت موجود ہے۔
ہرگھر سے تین یا چار لوگ شہروں میں کمانے کے لیے نکل جاتے ہیں، جب کہ بڑے کھیتی باڑی میں مصروف رہتے ہیں۔ یا پھر مویشی سنبھالتے ہیں۔ عورتیں خوبصورت کشیدہ کاری کرتی ہیں اور خاندان کی معاشی کفالت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تھری گج بڑے خوبصورت ہوتے ہیں۔ تھر کے ہاتھ سے بنے ہوئے کپڑے، شالوں، گج، چنری اور باندھنو (چنری کی ایک قسم) کی ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑی مانگ ہے۔ کھپرو میں کسی زمانے میں باندھنو (خالص چنری) کی صنعت ہوا کرتی تھی۔ جس سے زیادہ تر خواتین کی بڑی تعداد وابستہ تھی۔ یہ باندھنو کے سوٹ کافی مہنگے ہوتے ہیں۔
زیادہ تر سیاہ، نیلا اور عنابی رنگ استعمال ہوتا ہے۔ گو کہ یہ صنعت زوال پذیر ہے لیکن اس قدیم چنری کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ روزگار کے ذرایع سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ تھر میں وسائل موجود ہیں۔ یہاں پرکوئلہ اور کئی معدنیات پائی جاتی ہیں۔ گھریلو صنعتیں ہیں مگر سیاحت کا شعبہ غیر فعال ہے۔ تھر میں سیاحت کو فروغ دینے سے مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقعے مل سکتے ہیں۔
تھرکے دلکش رنگ کب سے مانند پڑے ہوئے ہیں۔ مور تھر کی خوبصورتی کا حصہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تھر کے مور بیماری کا شکار ہوکے مرنے لگے۔ ابھی موروں کی بیماری کا معمہ حل نہیں ہوا تھا کہ معصوم بچوں کی پے درپے اموات ہونے لگیں۔ لوری دینے والی ماں کی گود اجڑنے لگی۔ حکام کے مختلف بیانات سامنے آنے لگے۔
مختلف جواز اور حوالے دیے جاتے رہے۔کوئی بھی مسئلہ جب سامنے آتا ہے۔ جس میں اگر صحت اور انسانی جانیں ملوث ہوں۔ تو اسے گمبھیر مسئلہ سمجھا جانا چاہیے۔اس مسئلے کا تدارک فوری طور پر اور ترجیحی بنیادوں پر ڈھونڈنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر مسئلے کے مختلف حل موجود ہوتے ہیں مگر ہمیں بدقسمتی سے ایک حل بھی نہیں مل پاتا۔حل ڈھونڈنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنی پڑتی ہے۔ جس کے لیے سچائی اور سنجیدگی کا ہونا لازم ہے۔
تھر میں غذائی قلت، غیر شفاف پانی اور غربت جیسے مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ نجی تنظیمیں تھرکی بدحالی کوکیش کروا کے امیر ترین تو ہوجاتی ہیں۔ مگر کڑے وقت میں ان بدقسمت لوگوں کا ساتھ نہیں دیتیں۔کہا جاتا ہے کہ ڈھائی سو بچے اس وقت تک لقمہ اجل بن چکے ہیں، لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انسانی ہمدردی رکھنے والے ادارے اس وقت کہاں ہیں؟
تھرکے یہ لوگ جو اکثریت میں سندھ کے اصلی اور قدیم باشندے ہیں۔ ہمیشہ سے مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ قحط سالی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے بہت سے لوگ سندھ کے مختلف علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور دربدری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔یہ خانہ بدوش حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں بدحال جھگیوں میں رہائش پذیر ہیں اور زندگی کی صعوبتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان تمام مسائل کو حساس دل ہی سمجھ سکتا ہے۔ لہٰذا سندھ کے صحافی، ادیب اور دانشور مٹھی شہر میں جمع ہوئے۔ انھوں نے اسپتال کے سامنے دھرنا اور بھوک ہڑتال کرکے اپنا احتجاج قلم بند کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان بے سہارا اور دکھی ماؤں کو اس وقت دیکھ بھال کی اشد ضرورت ہے۔ لہٰذا اس مسئلے کا ترجیحی بنیادوں پر تدارک کیا جائے۔
ان ادیبوں میں مظفر چانڈیو، اشتیاق انصاری، بیدل مسرور، منظور سولنگی، اخلاق انصاری، غفار تبسم، نصیر اعجاز، مسرور سومرو، اسحق انصاری، ضیا ابڑو، ارشاد سرکی، حافظ نظامانی، خلیل کھوسو اور دوسرے شامل تھے۔ پورے سندھ سے پچاس اہل قلم تھے۔ جنھوں نے اسپتال کا دورہ کیا اور بیمار بچوں کی مزاج پرسی کی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ فلاحی ادارے ہوں، نجی تنظیمیں یا مخیر حضرات آگے بڑھ کر مزید ماؤں کی گود اجڑنے کے اس دکھ دائیک سلسلے کو روک دیں۔
ماشرے کی حالت یہ ہے کہ بلاوجہ دکھاوا، تعیش پرستی اور ذاتی تقریبات پر بے تحاشا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ فلاحی کاموں کا گراف تیزی سے نیچے آرہا ہے۔ یہ بے حسی اور لاتعلقی انسانیت کا بہت بڑا المیہ ہی تو ہے۔ جس معاشرے میں انفرادی خوشی کو اہمیت دی جاتی ہے، وہاں اجتماعی دکھ بے اثر ہوجاتے ہیں، لیکن ابھی بھی وقت نہیں گزرا۔ ہم ابھی بھی ان دکھی ماؤں کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔