عام آدمی کو خاص آدمی بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں عالمگیر خان

کوئی عہدہ منزل نہیں، کام نہ کرنے والوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی


حکومتی نمائندے اور امیرطبقہ خود کو بادشاہ سمجھتے ہیں، مہم کا خیال انٹرنیٹ پر ایک وڈیو دیکھ کر آیا سیاسی جماعتیں ساتھ دیتیں تو مقدمہ درج نہ ہوتا، ’’فکس اِٹ‘‘ کے روح رواں عالمگیرخان سے خصوصی گفتگو

کہیں بے حسی ہے تو کہیں بے بسی۔۔۔ بس اسی طرح بنیادی سہولیات کو ترستے شہری جلتے کڑھتے زندگی گزارتے چلے جا رہے ہیں۔ مل جائے، تو شکرنہ ملے تو قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ سادھ لی جائے۔ مصروف زندگی میں کبھی کسی مجبوری کی بنا پر سرکار سے کوئی کام پڑ جائے، تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ شدید پریشانی اور کوفت ہونا لازمی امر ہے۔۔۔ اب ایک عام آدمی کس کس سے لڑے اور کس کس کو روئے۔۔۔ جواب یہ ملتا ہے کہ 'بس میاں یہ پاکستان ہے، یہاں سب ایسے ہی چلتا رہے گا' مگر ایک دن اسی ملک ایک نوجوان اقتدار کے ایوانوں تک اپنی بات پہنچانے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔

اکثر مطالبوں اور جذبات کے اظہار کے لیے دیواروں کا سہارا لیا جاتا ہے، لیکن اس بار سڑک اس اظہار کا وسیلہ بنی۔۔۔ کراچی کی سڑکوں اور شاہ راہوں پر جا بہ جا منہ کھولے ہوئے کچھ گٹروں کے ساتھ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے خاکے بنا دیے گئے اور انہیں مخاطب کر کے لکھا فکس اٹ، (Fix it) یعنی ''اسے درست کریں'' کیمرے کی آنکھ سے اس عمل کی عکس بندی کر کے سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر مشتہر کردی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ اتنی پھیلی کہ اخباری صفحات سے چینلوں کے خبرناموں کی زینت بن گئی۔ خبروں میں آتے ہی وزیراعلیٰ سندھ بھی برہم ہوئے اور انہوں نے گٹر کے ڈھکنے لگانے کے حکم دینے کے ساتھ شکوہ کیا کہ ''کیا یہ کام بھی وزیراعلیٰ کرے گا؟''



'فکس اٹ' کی اس مہم کے روحِ رواں عالمگیر خان ہیں۔ انہوں نے اس کے بعد 25 فروری کو شہر کے مختلف مقامات پر جمع ہونے والے کچرے کے ڈھیر کا رخ کیا۔۔۔ اپنے ارادے کے مطابق انہیں سمیٹا شروع کیا اور اسے پھینکنے کے لیے وزیراعلیٰ ہاؤس پہنچ گئے، جہاں انہیں اور ان کے ڈرائیور کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا، وہ اگلے روز ضمانت پر رہا ہوئے۔

گزشتہ دنوں ''ایکسپریس'' نے فکس اِٹ مہم کے حوالے سے عالمگیر خان سے خصوصی نشست کا اہتمام کیا۔ کسی بھی اخبار کے لیے یہ ان کا پہلا انٹرویو ہے۔ عالمگیر خان سے کی گئی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔

عام آدمی پس رہا ہے
عالمگیر خان کو ایسا لگتا ہے کہ کراچی میں ایک عام آدمی پر آج تک بات نہیں کی گئی۔ یہاں سفر کے لیے نکلیں، تو ٹوٹی پھوٹی مسافر بسوں میں لٹک کر سفر کرنا پڑتا ہے، کنڈیکٹروں کی بدتمیزی عام ہے۔ بلاوجہ چالان اور پھر مٹھی گرم کرنے کے معاملات، تھانے جانا پڑ جائے، تو شنوائی کے لیے بھی چائے پانی، سرکاری اسپتال جائیں، تو تب بھی کسی پرچی کی حاجت، سڑکوں اور شاہ راہوں پر چھینا جھپٹی اور چوری ڈکیتیاں بھی عام آدمی بھگتتا ہے ۔۔۔ دوسری طرف یہی عام آدمی سب سے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے۔ سرکار کا ہر بوجھ ڈھونے کے باوجود بدلے میں اسے سہولت تو درکنار، بنیادی پانی، بجلی اورگیس کی ضروریات بھی پوری نہیں ہورہیں۔

عوام کو نہیں حکومت کو عوام سے ڈرنا چاہیے
عالمگیر کے بقول حکومتی نمائندے اور امیر طبقہ خود کو بادشاہ سمجھتا ہے، بغیر ٹیکس دیے شاہانہ زندگی گزارتا ہے۔ فکس اِٹ کو ایک عام آدمی کو خاص آدمی بنانے کی جدوجہد کررہی ہے۔ صرف حکومت ہی نہیں ہم عام آدمی کو بھی بیدار کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ بھی تو سو رہا ہے۔ وہ مزاحمت کرنے کے بہ جائے مسائل سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔

گلی میں گندگی پڑی ہوگی، تو کوئی پروا نہیں ہوگی۔ 100 روپے رشوت مانگی جائے گی، تو اس کی کوشش بس یہ ہوگی کہ وہ 100 کے بہ جائے 50 روپے میں جان چھڑا لے۔ یہ نہیں سوچے گا کہ وہ یہ 50 روپے بھی کیوں دے۔ لوگوں میں عجیب خوف ہوتا ہے، جب کہ لوگوں کو نہیں حکومت کو لوگوں سے ڈرنا چاہیے۔ حکم راں ہمارے خدمت گزار ہیں، ہم ٹیکس نہیں دیں گے، تو دو چار کی تنخواہیں رک جائیں گی۔

وزیراعلیٰ مستعد تو ہوئے مگر۔۔۔
عالمگیر کہتے ہیں کہ فکس اِٹ مہم کے بعد وزیراعلیٰ سندھ ایڈمنسٹریٹر کراچی کو کہتے ہیں کہ آپ اگلے دو دن میں گٹروں کے ڈھکنے لگائیں، لیکن نہیں لگائے جاتے۔ یہ تو حکومتی عمل داری کا سوال تھا، میں نے کہا کہ اگر کوئی کام نہیں کر رہا، تو اسے فارغ کیا جائے۔ اس طرح نیا آنے والا احکامات سنے گا۔

پھر وزیراعلیٰ یونیورسٹی روڈ پر جہاں فکس اٹ نے تصویر بنائی تھی، وہاں آئے اور پھر دوبارہ ایک ہفتے میں گٹر کے ڈھکنے لگانے اور صفائی کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے لیے 90 کروڑ روپے کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ اسی رات میں نے ان کے لیے شکریے کے ساتھ لکھا کہ یہ صرف شروعات ہے (This is Just a bigning) عمل الفاظ سے زیادہ بلند آواز میں بولتا ہے (Action speaks louder than words)۔ ہماری مہم کے بعد بلاشبہہ کچھ مستعد ہوئے ہیں، لیکن اب بھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ترقیاتی بجٹ کا ایک فی صد مصرف تو پتا چلے!
صوبائی خود مختاری کے باوجود وفاقی حکومت کو کراچی کی بہتری کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ کراچی اس ملک کو ساڑھے تین ہزار ارب روپیہ کما کر دیتا ہے۔ اس شہر کا این ایف سی کی مد میں پانچ ہزار ارب سے زیادہ پیسہ سندھ حکومت کے پاس آیا ہے، وہ کہاں گیا؟ اس میں 800 ارب روپے ترقیاتی فنڈ ہے، یہ پیسہ کہاں لگ رہا ہے، مجھ ایک عام آدمی کی حیثیت سے اس کاجواب چاہیے؟ اگر کوئی مشکل ہے تو وہ بتائیں، مگر یہ صرف اپنے مسائل ہی بتاتے رہتے ہیں۔

عالمگیرکے بقول وزیراعلیٰ کو مخاطب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ 'فکس اٹ' کی جنگ ذمہ داروں سے ہے، جن کے پاس اصل اختیار ہے۔ وزیراعلیٰ کے پاس پچھلے پانچ برس کا ترقیاتی بجٹ کا 800 ارب روپیہ تھا، میں صرف یہ کہتا ہوں کہ مجھے صرف ایک فی صد مصرف بتادیں۔ ہمارے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی تو صرف دکھاوے کے ہیں، اس لیے میں ان کے پاس نہیں گیا۔ مجھے پتا ہے کہ ان کے پاس اختیار نہیں۔

حکومت کا کام فقط مسائل بتانا نہیں
وزیر بلدیات، سندھ جام خان شورو کہتے ہیںکہ پرویز مشرف کے نظام کے دوران بلدیاتی اداروں کے ملازمین کا حجم 13 ہزار سے بڑھ کر 60 ہزار ہوگیا ہے، اس لیے ساری رقم تنخواہوں میں چلی جاتی ہے۔ اس حوالے سے عالمگیر کہتے ہیں کہ حکومت میں بیٹھ کر مسائل نہیں حل بتانے چاہئیں۔ یہ حکومت پچھلے دس سال سے موجود ہے، تو یہ مسئلہ حل کیوں نہیں کیا۔ حکومت کو سیاسی بھرتیوں کو ختم کرنا چاہیے۔

بنیادی خیال روس سے آیا
عالمگیر نے فکس اِٹ کا خیال انٹرنیٹ پر روس کی ایک ویڈیو سے لیا۔ ایک ویب سائٹ نے ایک شاہ راہ کے ایک گڑھے پر میئر، ڈپٹی میئر اور صدر کی تصویر بنا کے چلی جاتی ہے، اگلے روز انتظامیہ آکر اسے مٹا دیتی ہے۔ جس کے بعد پھر اس پر Painting it is not Fixing it. لکھ کے چلے جاتے ہیں۔ تیسرے دن اسے ٹھیک کردیا جاتا ہے، انہوں نے سوچا شاید یہاں بھی ایسا ہی ہو، مگر یہاں اسے توہین اور تذلیل کے معنوںمیں لیا گیا۔ عالمگیر اپنے معاشی لحاظ سے آسودہ ہونے کو سب سے اہم سمجھتے ہیں، ورنہ اس قسم کی سرگرمیوں کے لیے متوسط اور غریب طبقے کے اراکین کے لیے وقت دینا مشکل ہے۔

ان کے رضا کاروں میں کوئی طالب علم ہے اور کوئی ملازمت پیشہ ہے۔ عالمگیر کا خیال ہے کہ اس مہم کے ذریعے اگر ڈھائی کروڑ نفوس کا یہ شہر ٹھیک ہوگیا، تو اس کا مطلب ہوگا کہ آدھا پاکستان سنور گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مسائل حکومت ہی کو حل کرنا ہیں، لیکن میں اس کے لیے اگلے پانچ سال کا انتظار نہیں کر سکتا کہ کوئی اور انتخابات جیت کر آئے، بل کہ میں انہی کو اچھی طرح جھنجھوڑوں گا، ان کو جگاؤں گا تاکہ یہ کام کریں۔ اگر حکومت توجہ دلانے پر بھی کام نہیں کرتی، تو پھر ہم خود کرتے ہیں۔ جیسے گٹر کے ڈھکنوں کی مہم پر فکس اٹ کی ٹیم کے پندرہ سے بیس ارکان نے چھے گھنٹے میں تیرہ ہزار روپے خرچ کر کے 42 ڈھکنے خود نصب کیے۔ یہ رقم بھی ہم نے اپنی جیب سے نہیں دی، ہمیں عطیہ کی گئی۔

توقع سے زیادہ مقبولیت ملی
عالمگیر کہتے ہیں کہ 'فکس اِٹ' مہم منصوبہ بند ہے اور ہمیں ردعمل کا اندازہ تھا۔ ہم جانتے تھے کہ پذیرائی کے ساتھ ٹکراؤ کی صورت حال بھی پیدا ہوگی، البتہ مقبولیت توقعات سے زیادہ ملی ہے۔ ہماری مہم ختم نہیں ہوئی، یہ نہ سمجھا جائے کہ کچھ دوست یار وقتی طور پر اٹھے ہیں، اور یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ ہم اس مہم کو ابھی بہت آگے تک لے کر جائیں گے۔ شروع میں ہمارے کام پر تنقید بھی ہوئی کہ یہ سب سستی شہرت کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ سستی شہرت انسان ایک بار کماتا ہے، بار بار نہیں، پھر یہ ''سستی شہرت'' منہگی بھی پڑ سکتی ہے، جیسے مجھے ایک رات قید میں بھی گزارنی پڑی۔

مزید اچھوتے خیالات لاتے رہیں گے
منفرد خیال کے ذریعے شہرت پانے والے عالمگیر مستقبل میں بھی مزید اچھوتے خیالات لانے کے لیے پرعزم ہیں۔ کہتے ہیں کہ فکس اِٹ مہم کا مقصد اپنے اچھوتے خیال سے لوگوں تک اپنی بات پہچانا ہے۔ ہمیں بہت زیادہ لوگ جمع کرنے کی ضرورت نہیں۔ مقصود یہ بتانا ہے کہ عام لوگ بھی پوری ریاست کو جھنجھوڑ سکتے ہیں۔ چند افراد کا اچھا کام بھی اہمیت رکھتا ہے۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ جب تک ایک بڑی تعداد آپ کے ساتھ نہ ہو تو آپ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا۔ اگر 100 مخبوط الحواس افراد لاکر سڑک پر بٹھا دیں، تو بہت توجہ دی جائے گی، دو دانش وَر لے کر آؤں گا، تو اس کی اتنی بڑی خبر نہیں بنے گی۔



قصہ تحریک انصاف سے وابستگی کا
عالمگیر خان 2009ء سے 2010ء انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن (آئی ایس ایف) کراچی کے صدر رہے، اس کے بعد آئی ایس ایف سندھ کے صدر بنے۔ اس کے بعد آئی ایس ایف کے مرکزی سیکریٹری کے عہدے پر رہے۔ تحریک انصاف کے انتخابات میں حصہ لیا اور مرکزی جوائنٹ سیکریٹری بنے۔ تحریک انصاف کی ایگزیکٹیو کونسل، مشاورتی بورڈ، دستوری کمیٹی میں رہے۔ اپنی اس سیاسی صحبت کو وہ اپنی تربیت اور سیکھنے میں بہت اہم گردانتے ہیں۔ اس وقت وہ تحریک انصاف کے عام کارکن کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔

'فکس اٹ' تحریک انصاف کے ساتھ کیوں نہیں؟
اس سوال کے جواب میں عالمگیر نے کہا کہ فکس اِٹ ایک غیر سیاسی سرگرمی ہے۔ آج ہمارے پاس مختلف سیاسی جماعتوں کے حامی بطور رضاکار متحرک ہیں۔ میں ان کی قیادت اس لیے کر رہا ہوں کہ معاشی طور پر بے فکر ہوں، اس کام کو وقت دے سکتا ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک ایک نمائندہ لے کر فکس اِٹ میں شامل کریں۔ کراچی کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں یہاں وسائل پر باہم دست وگریباں رہی ہیں، اگر تمام سیاسی جماعتیں کراچی کے مفاد کے لیے متحد ہوجائیں، تو عوام اس طرح نظرانداز نہ ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ کراچی کو وسائل اور حق دے دیے جائیں اور اس کے لیے اس غیرسیاسی پلیٹ فارم کے ذریعے سب کو عام دعوت ہے۔

وسیم اختر نے بھی سراہا
عالمگیر اپنی مہم میں سیاسی راہ نماؤں کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں، مگر سوائے تحریک انصاف کے عمران اسماعیل کے، ابھی تک انہیں باضابطہ طور پر کسی کا ساتھ میسر نہیں آسکا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی اور سابق صوبائی وزیر فیصل سبزواری کو بہ ذریعہ سماجی ذریعہ اِبلاغ مدعو کیا، لیکن وہ نہیں آئے۔

اس حوالے سے عالمگیر کہتے ہیں کہ دراصل ایم کیو ایم میں انفرادی شخص کی کوئی حیثیت نہیں، ان کا ہر فیصلہ اجتماعی اور مشاورت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لیے شاید وہ نہ آسکے۔ انہیں امید ہے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ایم کیو ایم ان کی حمایت کرے گی۔ کراچی کے نام زَد میئر وسیم اختر نے میرے کام کو سراہا ہے اور یہ عندیہ دیا ہے کہ حلف اٹھانے کے بعد میں انہیں اپنے ساتھ ملاؤں گا۔

بے اختیار ناظمین کا کوئی فائدہ نہیں!
نئے بلدیاتی نظام میں بے اختیار ناظمین کو عالمگیر بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کی اتنی بڑی مشق کرائی، کروڑوں روپے خرچ کر دیے۔ اب اگر اختیارات نہیں دینا، تو پھر کیا فائدہ۔ اس سے اچھا ہوتا کہ انتخابات ہی نہ کراتے، یا پھر یہ ہوتا کہ آپ خود بلدیاتی مسائل حل کرتے۔ آپ نے بلدیاتی چناؤ کرایا اور ابھی تک وسائل نہیں دیے۔ حکومت کو چاہیے کہ اب جو کونسلر اور ناظمین منتخب ہوئے ہیں، چاہے وہ کسی بھی جماعت سے ہوں، انہیں طاقت وَر کیا جائے، انہیں لوگوں نے چنا ہے، یہی لوگ کراچی کو بہتر کریں گے۔

فکس اٹ رات کو کیوں نکلتی ہے؟
دو جنوری 2016ء کو جامعہ کراچی کے دروازے کے سامنے فکس اٹ مہم کا آغاز ہوا، اس کے بعد سماجی ذرایع اِبلاغ کے ذریعے اس نے عروج حاصل کرلیا۔ عالمگیر کہتے ہیں کہ ہر مہم میں ذمہ دار حلقوں کے ساتھ شہریوں کے لیے بھی ایک پیغام پنہاں ہوتا ہے، جیسے ہم اپنا کام رات کو 12 بجے کے بعد کرتے ہیں، جس سے یہ بتلانا مقصود ہوتا ہے کہ جب شہری سو رہے ہوتے ہیں، تو کوئی ایسا ہے، جو ان کے لیے جاگ رہا ہے۔

اگر ایم کیوایم کے کارکن مل جائیں!
عالمگیر نے متحدہ قومی موومنٹ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایم کیو ایم میں بے شک برائیاں ہوں گی، لیکن یہ کراچی کی وہ جماعت ہے، جو کراچی کے ہر گلی کوچے تک پہنچی ہوئی ہے۔ انہیں یہاں کی ہر گلی اور محلے کے مسائل پتا ہیں، لوگ ان سے جُڑے ہوئے ہیں، اگر یہ ایک بار اس پر متحرک ہوگئے تو یہ بہت بہتری کی طرف جائے گا۔ ان کے کارکنان ہی اتنے ہیں کہ انہیں شہر میں ذمہ داریاں دے کر متحرک کر لیں، تو شاید ناظمین کی بھی ضرورت نہ پڑے۔

عمران اسماعیل نے فاصلہ رکھا
عالمگیر کہتے ہیں کہ گرفتاری کے بعد صرف تحریک انصاف ہی آکر کھڑی ہوئی۔ وہ اس عمل کو فطری قرار دیتے ہیں کہ وہ خود اس جماعت کا فعال حصہ رہے، لیکن انہیں شکایت ہے کہ اگر دوچار سیاسی جماعتیں اور ساتھ دیتیں، تو حکومت پر اچھا خاصا دباؤ پڑتا اور شاید مقدمہ بھی درج نہ ہوتا۔ تحریک انصاف کے عمران اسماعیل تھانے آئے تو تین، چار گھنٹے بیٹھ کر واپس چلے گئے کہ کہیں یہ مہم سیاسی نہ ہو جائے۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ وہ بھی وزیراعلیٰ ہاؤس پر اس جگہ کچرا ڈالیں، جہاں عالمگیر نے کچرا ڈالا ہے، لیکن انہوںنے فکس اِٹ کا غیر سیاسی تشخص برقرار رکھنے کے لیے ایسا نہیں کیا۔

یہ ان کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے اس مصلحت کے باوجود میرا ساتھ دیا۔ عالمگیر کی نگاہیں فکس اِٹ کو ادارہ بنانے پر مرکوز ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس کے لیے ہمیں وسائل بھی درکار ہوں گے۔ عمران اسماعیل شہر کے کاروباری اور صاحب ثروت افراد تک رسائی رکھتے ہیں، وہ ہمیں وسائل مہیا کرنے میں معاون ہوں گے، جیسا کہ انہی کے ذریعے عقیل کریم ڈھیڈھی نے ہمیں ٹریکٹر عطیہ کیا۔ کچھ دن قبل کی مہم کے نتیجے میں یہ ٹریکٹر ابھی پولیس کی تحویل میں ہے۔

بلدیاتی انتخابات کے بعد مہم کا آغاز اتفاق تھا
بلدیاتی انتخابات کے بعد جب شہر میں نکاسی آب اور کچرے کے مسائل کے حوالے سے خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں، تو یہ بھی کہا گیا کہ بلدیاتی نمائندوں کو بااختیار بنانے کے لیے جان بوجھ کر شہر کی صورت حال خراب کی جا رہی ہے، یہاں تک کہا گیا کہ نالوں اور نکاسی آب کی نالیوں میں باقاعدہ بوریاں ڈال کر بند کیا گیا ہے۔ اسی دوران اچانک 'فکس اِٹ' کے ذریعے عالمگیر بھی منظر پر نمودار ہو جاتے ہیں۔ جب عالمگیر سے استفسار کیا، تو انہوں نے کہا کہ یہ محض اتفاق ہے۔

وہ پہلے ہی لوگوں کی ذہن سازی اور تربیت کے حوالے سے سوچ بچار میں مصروف تھے، اسی دوران کراچی کے بلدیاتی انتخابات ہوگئے۔ انہوں نے اس وقت کو دانستہ نہیں چُنا۔ وہ اسے تقدیر کی منصوبہ بندی سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاید اس میں بھی اﷲ کی کوئی حکمت ہو۔ مجھے لگتا ہے کہ اب کراچی نے بہت برا وقت دیکھ لیا، اب یہ بہتری کی طرف جا رہا ہے۔ اگر کسی نے بوریاں پھنسا کر گٹر بھرے ہیں، تو حکومت ان کو پکڑے۔ شاید وہ کراچی کے لوگوں اور علاقوں کے بارے میں بھی ٹھیک سے نہیں جانتے۔

جب گھر پرفائرنگ ہوئی
عالمگیر کہتے ہیں کہ میں نے ایک عام آدمی کی حیثیت سے کراچی میں تکالیف برداشت کی ہیں۔ 2007ء میں ہماری کوئی سیاسی وابستگی بھی نہیں تھی۔ اس کے باوجود میرے گھر پر فائرنگ ہوئی، میری ٹانگ پر گولی لگی۔ جب میں زخمی ہو کر تھانے گیا، تو وہ ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ پھر بہ ذریعہ عدالت، پانچ ہزار روپے کا وکیل کیا، تب جا کر نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر کٹی۔ تھانے کی یہ وہ اذیت ہے، جس سے ہر شہری گزرتا ہے اور شاید اسے اس سے بھی زیادہ مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔

نعمت اﷲ اور مصطفی کمال کے معترف
عالمگیر، پرویز مشرف دور کے ناظمین کو سراہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نعمت اﷲ خان اور مصطفیٰ کمال، دونوں نے شہر میں کام کیا اور یہاں بہتری آئی۔ لوگ بدعنوانی کے الزام لگاتے ہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ چلو پھر بھی شہر کے لیے کچھ کام تو ہوا۔ اُس نظام میں زبردست اختیارات اور وسائل تھے، پرویز مشرف نے بھرپور پیسہ دیا۔

نعمت اﷲ کے بہت سے ادھورے منصوبے مصطفیٰ کمال نے پورے کرائے۔ شاید پیپلزپارٹی کو کراچی سے ووٹ نہیں ملتے، اس لیے انہیں دل چسپی نہیں۔ دیہی سندھ کو دیکھیں تو وہاں کے لوگ دبے ہوئے اور پسے ہوئے ہیں۔ اس لیے وہ ان کے خلاف کھڑے ہی نہیں ہوتے، اس طرح بغیر کسی کام اور مہم کے وہ اگلے پچاس سال بھی منتخب ہوتے رہیں گے۔ اس لیے بے فکر ہیں۔

جنگ صاحب اختیار لوگوں سے ہے
عالمگیر فکس اِٹ کی جنگ کو صرف وزیراعلیٰ نہیں بل کہ کام نہ کرنے والے ہر صاحب اختیار کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اگر تحریک انصاف کا میئر بھی اختیارات کے باوجود کام نہیں کرتا، تو میں اس کے خلاف بھی کھڑا ہوتا، میری مہم سماجی ہے۔ سب لوگ کہتے ہیں کہ اب آپ مشہور ہوگئے ہیں، کسی بھی حلقے سے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں، لیکن یہ چھوٹی سوچ اور خودغرضی ہے۔ اﷲ نے 25 سال کی عمر میں کسی رکن قومی اسمبلی سے زیادہ شہرت دے دی ہے۔

پیسہ بھی ہے، اپنی گاڑی میں شہر گھوم لیتا ہوں، اچھا کھا پی لیتا ہوں۔ طاقت کی بات کریں تو فکس اِٹ کے ذریعے اب ہم کوئی بھی جائز کام دباؤ ڈال کر کرا سکتے ہیں۔ رہی خدمت تو میں اسمبلی سے باہر رہ کر بھی کر سکتا ہوں، تو مجھے کیا ضرورت ہے انتخابات لڑنے کی۔ میں ذرایع اِبلاغ کے ذریعے مسائل اجاگر کرسکتا ہوں۔ مجھے یقیناً میڈیا نے ہیرو بنایا ہے، تنقید کرنے والے بھی آگے آکر اچھے کام کریں، آپ بھی ہیرو بن جائیں گے۔ اس لیے میں نہ تو کبھی میئر کے لیے امیدوار بنوں گا، نہ ہی میرا کوئی انتخاب لڑنے کا ارادہ ہے۔ وزیراعظم بننے کے سوال پر بھی ہنستے ہوئے کہا کہ میں ایک بہتر وزیراعظم کی حمایت ضرور کروں گا، لیکن ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ سیاست دانوں میں قائداعظم کے بعد عمران خان سے بہت زیادہ متاثر ہیں، عالمی سطح پر نیلسن منڈیلا پسندیدہ ہیں۔

گرمی سے بچاؤ اگلی مہم ہے
عالمگیر ابھی مستقبل کا لائحہ عمل طے کر رہے ہیں، پہلے عدالت کے ذریعے اپنا ٹریکٹر چھڑا کر صفائی مہم شروع کریں گے۔ کہتے ہیں کہ اس وقت کراچی کو سخت گرمی درپیش ہے، گزشتہ سال قیامت خیز گرمی سیکڑوں جانیں نگل گئی تھی۔ اس لیے ہم حکومت سے کہیں گے کہ وہ کراچی میں ایک کروڑ درخت لگانے کا اعلان کرے۔

اس کے ساتھ اب 'کے الیکٹرک' کو بھی کام کر کے دکھانا ہوگا، گرمی میں ہلاکتوں کا ایک بڑا سبب بجلی نہ ہونا بھی تھی۔ پچھلی سال کی بدترین مثال کے بعد ایک سال کے بعد پہلے جیسی صورت حال پیدا نہیں ہونی چاہیے ۔ اگر 'کے الیکٹرک' نے بجلی کی فراہمی کے لیے اقدام نہ کیے، تو بدترین نااہلی ہوگی۔ پہلے 'کے الیکٹرک' والوں سے ان کی مشکلات معلوم کریں گے۔ اگر انہوں نے غفلت دکھائی، تو پھر سڑکوں پر 'کے الیکٹرک' کے ایم ڈی کی تصویر بنے گی، تاکہ انہیں کچھ احساس ہو۔ جب گھر میں ان کے بچے پوچھیں کہ سڑک پر یہ تصویر کیوں بنی ہوئی ہے تو شاید ان کو کوئی شرم آجائے۔

شادی کراچی کے مسائل حل ہونے سے مشروط؟
عالمگیر خان کا گھرانا گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک ہے۔ 1997ء میں یہ لوگ پیر الٰہی بخش کالونی سے گلشن اقبال منتقل ہوئے۔ بڑے بھائی لاہور میں ہیں، چار چھوٹی بہنیں پڑھ رہی ہیں۔ عالمگیر فی الحال تعلیم پر مرکوز ہیں۔ شادی کے سوال پر بتایا کہ اگلے چار، پانچ سال تک شادی کا ارادہ نہیں۔ جب یہ پوچھا کہ کیا آپ کی شادی کراچی کی مسائل حل ہونے سے مشروط ہے ؟ تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ نہیں میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھ رہاہو پوری نہ ہو سکے۔

کچرا وزیراعلیٰ ہاؤس پر کیوں پھینکنے گئے؟
عالمگیر کہتے ہیں کہ میں نے حکومت سے کہا کہ میں ٹریکٹر کی مدد سے شہر کا کچرا صاف کر رہا ہوں، آپ مجھے بتائیے کہ میں یہ کچرا کہاں پھینکوں؟ میں ندی نالوں، سمندر اورسڑک کے کنارے کوڑا کرکٹ کا ڈھیر نہیں لگا سکتا۔ اس لیے میں نے یہ کچرا وزیراعلیٰ ہاؤس پر پھینکنے کا فیصلہ کیا۔ کراچی میں یومیہ 12 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ اس سے ری سائیکل کرکے مختلف چیزیں تیار ہوتی ہیں، بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ پنجاب میں چینی کمپنیاں یہ کام کر رہی ہیں، لیکن یہاں ابھی تک وزیربلدیات اپنے محکموں کے مسائل کا ذکر ہی کرتے رہتے ہیں۔ بھئی یہ آپ کے ماتحت ادارے ہیں، انہیں ٹھیک کریں، کام نہ کرنے والوں کو فارغ کریں۔

ذلت انسانی جان سے بڑھ کر نہیں!
عالمگیر کہتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے سیاست داں خود ہمارے در پر ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں اور منتخب ہونے کے بعد ہم اگر کسی کھلے ہوئے گٹر کے پاس ان کی تصویر بنا دیں، تو وہ چراغ پا ہو جاتے ہیں۔ کھلے ہوئے گٹروں کے قریب وزیراعلیٰ کے خاکے بنانے کا مقصد ان کی تذلیل نہیں، بل کہ توجہ حاصل کرنا تھا۔ شہری کھلے ہوئے گٹروں میں گر کر زخمی ہوتے ہیں، جان سے جاتے ہیں ۔ کیا تصویر بنانے کی گستاخی روزانہ تلف ہونے والی جانوں سے بڑھ کر ہے؟

''آپ بھی اپنے علاقے کے ہیرو بنیے''
عالمگیر کے فیس بک پیج پر روزانہ سیکڑوں لوگ اپنے خاندانی اور کاروباری جھگڑوں کے لیے رابطہ کرتے ہیں۔ عالمگیر کی خواہش ہے کہ کبھی اس قابل بھی ہوجاؤں کہ یہ مسائل بھی حل کر سکوں۔ شہریوں کے لیے اُن کا پیغام ہے کہ ہم آپ کو حق مانگنا سکھا رہے ہیں، لیکن خود بھی ذمہ داری لیں۔ اگر خاکروب نہیں آتا، تو جس طرح ہم گھر گندہ نہیں چھوڑتے، اس طرح شہر کو بھی خود صاف کریں۔ اپنے مسائل کے لیے خود کھڑے ہوں۔ مجھے ہیرو نہ بنائیں، خود آگے بڑھ کر اپنے علاقے کے ہیرو بنیں۔ میں اتنے بڑے شہر میں کہاں کہاں پہنچوں گا۔ مجھ سے گلہ کریں اور نہ توقع رکھیں۔ میں صرف آپ کو پیغام دے رہا ہوں۔ لوگ مجھے بھارتی فلموں سے متاثر ہوکر مختلف القابات دے رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ میں ایک عام آدمی ہوں، میں بھی آپ کی طرح سوچتا ہوں اور میرا اختیار بھی اتنا ہے جتناآپ کا ہے۔ آپ کھڑے ہوں تو کوئی نہیں ٹھیر سکتا۔

فیس بک پر بات کرنا آسان ہے
فکس اِٹ کے بانی کہتے ہیں کہ فیس بک پر لوگوں کا ساتھ دینا میدان عمل میں آنے سے یک سر مختلف ہے، ہم عملی کام فقط سماجی ذرایع اِبلاغ پر جمع لوگ، ان کے تبصرے اور پسند کے ذریعے نہیں کر سکتے۔ میرے پاس تیس لاکھ لوگوں تک رسائی ہے، لیکن لوگوں کا نکلنا ایک بالکل الگ معاملہ ہے، کچھ وقت لگے گا، میرے پیغام کی تکرار کا نتیجہ یہ ہے کہ اب لوگ بھی ہمارے الفاظ بولنے لگے ہیں۔ ایک وقت آئے گا جب لوگ متحرک ہونے لگیں گے، اس وقت لوگوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ 50 کے قریب لوگ باقاعدگی سے ہماری مہم میں ساتھ ہیں، لیکن وہ اپنی تعلیمی اور پیشہ ورانہ مصروفیات کی مناسبت سے ہی وقت دے پاتے ہیں۔



ذاتی زندگی
9نومبر 1990کو کراچی میں آنکھ کھولنے والے محمد عالمگیر خان ایم بی اے سال آخر کے طالب علم ہیں۔ ان کا آبائی تعلق شمالی وزیرستان سے ہے۔ کراچی کے شاہین پبلک اسکول سے میٹرک اور بحریہ کالج سے انٹر کیا، 'زیبسٹ' (SZABIST) میں بی بی اے کے داخلہ ٹیسٹ میں ناکام ہوئے، تو ایک دوسرے پروگرام میں داخلے کی درخواست دی، انٹرویو کے بعد کام یاب قرار پائے۔ اس پروگرام کے تیسرے برس یونیورسٹی آف ویلز (یو کے) جانا تھا، لیکن وہ باہر نہیں جانا چاہتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب تحریک انصاف اپنی علیحدہ سیاسی حیثیت بنا رہی تھی۔

19 سال کی عمر میں عالمگیر اس کے طلبہ ونگ کا حصہ بن گئے۔ اہل خانہ اور دوستوں کے دباؤ کے باوجود ملک سے باہر نہیں گئے۔ 'زیبسٹ' کے دو سال کے بعد اقراء یونیورسٹی میں ٹیسٹ دے کر بی بی اے کیا، ایم بی اے کے آخری سیمسٹر میں عمران خان کا دھرنا شروع ہوگیا، تو انہوں نے اقراء یونیورسٹی کی اسلام آباد شاخ میں تبادلہ کرا لیا، 126 دن اسلام آباد میں کرائے کے گھر پر رہے۔ دھرنا تو ختم ہوگیا، لیکن عالمگیر کا ایم بی اے ہنوز نامکمل ہے، کہتے ہیں صرف مقالہ جمع کرانا باقی ہے، اس کے بعد پی ایچ ڈی کی پیش بندی کریں گے۔

دادا پیر کالونی سے 'بی ڈی' رکن بنے
عالمگیر کے دادا سخی جان اور ان کے بھائی ملک امر خان پاکستان بننے کے بعد کشمیر کی آزادی کی لڑائی میں شریک ہوئے اور انہیں 'شیر کشمیر' اور 'فخر کشمیر' کے خطابات ملے۔ اس کے بعد ان کے خاندان نے کراچی آکر کاروبار شروع کیا۔ جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریت یا بی ڈی (Basic Democracy) کا نظام متعارف کرایا، تو ان کے دادا سخی جان پیر الٰہی بخش کالونی سے جماعت اسلامی کے راہ نما پروفیسرغفوراحمد کو ہرا کر 'بی ڈی' رکن منتخب ہوئے۔ اس کے بعد وہ سیمنٹ ایسوسی ایشن اور ٹمبر ایسوسی ایشن کے صدر رہے۔ ضیاء الحق کے دور میں مجلس شوریٰ کے رکن بھی چنے گئے۔ اس کے بعد 1988ء، اور 1990ء میں شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس کے بعد بھی ان کے خاندان کے شمالی وزیرستان یہاں سے منتخب ہوتے رہے۔ البتہ عالمگیر کا باقی خاندان کراچی میں موجود ہے اور اب یہاں کے ماحول میں اس قدر رچ بس گیا ہے کہ ان کے گھر کے بچے پشتو کے بہ جائے اردو ہی بولتے ہیں۔

گلیوں کے لاوارث بچے
گٹر کے ڈھکنے لگانے کی مہم کے بعد کچرا اٹھانے کی مہم زیادہ توجہ کا مرکز بنی، لیکن عالمگیر نے بتایا کہ اس درمیان فکس اٹ کی ایک مہم گلیوں کے لاوارث بچوں کے لیے تھی، تاکہ حکومت کچرا چننے اور بھیک مانگنے والے ان بچوں کو سائبان فراہم کرے۔ ہمارے پاس دو یتیم خانے ہیں۔ حُنید لاکھانی کے اقراء سوئیٹ ہومز میں 25 بچے، جب کہ حب چوکی میں 'پاکستان سوئٹ ہومز' میں 300 بچے ہیں۔

ان دونوں یتیم خانوں میں تین سے چار ہزار بچے آسکتے ہیں، جہاں انہیں رہنے سہنے اور تعلیم کی تمام سہولیات دست یاب ہیں۔ سرکاری یتیم خانوں میں صرف وہی بچے لیے جاتے ہیں، جو اپنے والدین کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور اپنا ہیلتھ سرٹیفکیٹ لاتے ہیں۔ سڑکوں پر پِھرنے والے بے گھر بچوں کو تو اپنے ماں باپ کا نہیں پتا، وہ یہ سب کہاں سے لاسکتے ہیں۔ حکومت اگر ان بچوں کو اگر صحیح مصرف میں لے، تو یہ ہماری بہت بڑی طاقت ہیں، لیکن اس سمت توجہ نہیں دی۔ اب ہم اس پر خود کام کر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں