دولت کا صحیفہ

دنیا کے ہرملک میں متمول لوگ ملیں گے۔متمول لفظ سے مدعابیان نہیں ہوتا۔


راؤ منظر حیات March 14, 2016
[email protected]

دنیا کے ہرملک میں متمول لوگ ملیں گے۔متمول لفظ سے مدعابیان نہیں ہوتا۔ہرریاست میں چندفیصدلوگ بے انتہاامیراوردولت مندہوتے ہیں۔لوگ ان کی زندگی پررشک کرتے ہیں۔ان کے کاروبار،گھروں،گاڑیوں اور سماجی تقریبات کے متعلق تجسس ہوتاہے۔عام افرادان کی زندگی میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔اکثرمتمول لوگ ظاہرکرناچاہتے ہیں کہ وہ کتنے امیرہیں۔وہ کیاکچھ کرسکتے ہیں۔مثلًا دنیاکاسب سے مہنگا گھرممبئی میں مکیش امبانی کاہے۔اس کی قیمت کا اندازہ دوبلین ڈالرہے۔اس میں کام کرنے کے لیے چھ سوملازم ہیں۔ ذاتی گھروں میں یہ سب سے بیش قیمت رہائش ہے۔

یہ ستائیس منزلہ گھرایک عجوبہ ہے۔مکیش امبانی کوحق ہے کہ وہ اپنے لیے دنیاکاسب سے مہنگاگھربنائے اوراس میں قیام پذیرہو۔گزارش یہ ہے کہ پوری زندگی میں وہ اپنے گھرکے دس یابارہ فیصدحصوں سے زیادہ استعمال نہیں کرے گا۔امبانی کو چھوڑدیجئے۔کسی بھی شہرکے عالیشان گھروں اورفارم ہاؤسز پر نظرڈالیں۔ محسوس ہوگاکہ مکین اپنی ذاتی زندگی میں اپنے گھروں کاچندفیصد حصے سے زیادہ استعمال نہیں کرتے۔

میرا قطعاً مقصد یہ کہنا نہیں ہے کہ دولت مندلوگوں کو شاہانہ طریقے سے نہیں رہنا چاہیے۔ میرے سوال کے اندرہی میراجواب موجودہے۔دنیاکے امیر ترین لوگوں کوبہت کم مدت کے لیے یادرکھاجاتا ہے۔اس کا یہ قطعاًمطلب نہیں کہ انسان اپنی زندگی کوبہترکرنے کی تگ ودوچھوڑدے اور جوگ لے لے۔نکتہ یہ ہے کہ بالاخرانسان کی زندگی کامقصدکیاہے اوراس مقصدکے لیے کیاکرناچاہیے۔

مذہبی نقطہ نظر سے عرض نہیں کررہا تاہم ہرمذہب میں اس سوال کاجواب موجودہے۔مگرعام فہم طریقے سے اگر جواب تلاش کیاجائے تویہ ایک سطری ہے کہ ایک انسان اپنے اختیار،دولت اورحیثیت سے عام لوگوں کی بہتری کے لیے کیاکوشش کرتاہے۔وہ خلقِ خدامیں کس طرح آسانیاںتقسیم کرتا ہے۔ وہ کون ساایساکام کرتاہے جس سے اس کی زندگی اَمر ہوجاتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میںایسی قدآور شخصیات کم نظرآتی ہیں۔بہت سے لوگ آپکوانتہائی اچھے کام کرتے نظرآئینگے۔مگر تنقیدی نظرسے دیکھیں توآپکویہ تلخ حقیقت نظرآئیگی کہ بہت ہی کم،تقریباًنہ ہونے کے برابر افراد اپنی پوری دولت یااس کاکثیرحصہ کسی نیک کام کے لیے وقف کرتے دکھائی دینگے۔

مجھے آج تک اپنے اردگردکوئی ایساشخص نہیں ملاجس نے اپنی اولادکوبلایاہو،انھیں زندگی گزارنے کے لیے چندآسائشیں مہیاکی ہوں اورباقی تمام سرمایہ عام آدمیوں کے لیے مختص کردیاہو۔کئی متمول لوگ کھانے کالنگر چلاتے ہیں۔بے شمارخیرات کرتے ہیں۔غریب طالبعلموں کو وظائف دیتے ہیں اوربہت سے نیک کام کرتے ہیں۔یہ سب کچھ قابل تحسین ہے۔مگرآج تک نہیں سناکہ شہرکامتمول ترین شخص اٹھاہواور اپنی تمام دولت ایک یونیورسٹی بنانے میں صَرف کردی ہو۔ایسے افرادبہت کم ہوتے ہیں۔مگریہی لوگ قوموں اور ملکوں کی ترقی میں ایک کلیدی رول اداکرتے ہیں۔ دکھ اورتکلیف کی ایک بات اوربھی ہے کہ مسلمان اقوام میں اس طرح کے مخیرلوگ انتہائی کم ہیں بلکہ دوردورتک نظرنہیں آتے۔آپ لاہورکی مثال لے لیجیے۔سرگنگارام کے مالی عطیات کے بغیریہ شہرنامکمل نظرآئیگا۔لاہورکاچڑیاگھرتک بھی، سوبرس پہلے ایک غیرمسلم کاذاتی عطیہ ہے۔

اینڈریوکارنیج(Andrew Carneige)بھی اس طرح کاایک کردارتھا جس نے ایک مخصوص طرح سے دنیابدل ڈالی۔اسکاٹ لینڈمیں پیداہونے والااینڈریوانتہائی غریب حالات میں سانس لیتارہا۔والدایک مزدورتھا۔اینڈریوکو تعلیم حاصل کرنے کاموقع ہی نصیب نہ ہوا۔ ملکی حالات کی غیریقینی اور بیروزگاری نے اینڈریوکے والدکومجبورکردیاکہ اسکاٹ لینڈ چھوڑکرامریکا ہجرت کرجائے۔

یہ1850ء کاوقت تھا۔تمام خاندان ایک دخانی جہازمیں سفرکرکے نیویارک پہنچ گیا۔ اینڈریو اس وقت صرف تیرہ برس کا تھا۔نیویارک دیکھ کرحیران رہ گیا۔مختلف قوموں کے اتنے لوگ بڑے بڑے شاندار بازار اورشہرکی گہماگہمی اس کے لیے بہت حیران کن تھی۔ پورا خاندان نیویارک سے تین ہفتے کے سفرکے بعدایلی گنی (Allegheny)منتقل ہوگیا۔ والدنے دھاگہ بنانے کا معمولی ساکاروبارکرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگیا۔اب خاندان کے پاس پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔مخدوش حالات میں اینڈریونے ایک کارخانے میں مزدوری کرلی۔ وہ بارہ گھنٹے کام کرتاتھا۔ ہفتے کاڈیڑھ ڈالر ملتا تھا۔

اس کے بعد ایک ٹیلی گراف کمپنی میں پیغام رساں بن گیا۔سائیکل پرایک جگہ سے دوسری جگہ "تار"لے جایاکرتا تھا۔ پھر ٹیلی گراف کاپیغام مشین پردینے کاعمل بھی سیکھ لیا۔تھوڑے سے عرصے میں اپنے نئے ہنرکی بدولت ایک ریل کی کمپنی میں کام مل گیا۔یہ قدرے بہترنوکری تھی۔دفتر میں اسے ایک انتہائی عجیب انسان ملا۔اسکانام کرنل جیمزتھا۔کرنل کوشوق تھاکہ جوبچے تعلیم حاصل نہیں کرپائے،ان کوذاتی لائبریری سے کتابیں مہیا کرے۔چنانچہ جیمزنے اینڈریوکواپنی لائبریری سے کتابیں مستعاردینی شروع کردیں۔یہ اینڈریوکی پہلی علمی بنیاد تھی۔

ایک دن اینڈریو کو بتایا گیاکہ ایڈیم ایکسپریس کمپنی میں چندحصص فروخت ہورہے ہیں۔اس نے بینک سے پانچ سو ڈالرادھارلیے اورحصص خریدلیے۔یہ اس کی پہلی کاروباری مہم تھی۔اس میں کامیاب ہوگیا۔اس نے بینک کواُدھارواپس کیا اوردوسرے کام ڈھونڈنے لگ گیا۔اچانک اسے خیال آیا کہ ٹرین میں مسافروں کے سونے کاانتظام نہیں ہوتا۔ اس نے قرضہ لے کر ٹرین کے ایک ڈبے میں چوڑی اورلمبی نشستیں لگا دیں،جن میں مسافرآرام سے سوسکیں۔یہ تجربہ سفرکی دنیامیں ایک انقلاب کی حیثیت قائم کرگیا۔

اسکا کاروبار اب بڑھنے لگا۔ تھوڑے عرصے میں اینڈریونے ٹرین کی پوری کمپنی خریدلی۔ اینڈریوپردولت اورقسمت کی دیوی مہربان ہوگئی۔ اس نے جس کاروبارمیں ہاتھ ڈالا،وہ سونابن گیا۔لوہے کے کاروبارسے منسلک ہوگیا۔ آبی سفرکے لیے اسٹیمرخریدلیے۔ تیل کے کنوؤں میں بھی اپنا حصہ ڈال لیا۔ لوہے کے کاروبارمیں اتنی ترقی ہوئی کہ اس کی کمپنی دنیاکی سب سے بڑی کارپوریشن کی حیثیت اختیارکرگئی۔1870ء تک وہ دنیاکا امیرترین آدمی بن چکا تھا۔

دولت نے اینڈریوکی سوچ کوایک عظیم اوراچھوتاخیال دیا۔اسے یوں لگاکہ دولت کااصل مقصدکچھ اورہے۔تجوریوں اوربینکوں میں محفوظ سرمایہ توکسی کام کا نہیں۔اس نے اسکاٹ لینڈ،یعنی اپنے آبائی علاقے میں عام آدمیوں کے لیے لائبریری بنانے کافیصلہ کیا۔ایک لائبریری کے بعددوسری اور اس کے بعد سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتب خانے قائم کردیے۔ امریکا، یوکے، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ میں اپنے پیسوں سے لوگوں کے لیے ڈھائی ہزارلائبریریاں بنوا ڈالیں۔ وہ چاہتاتھاکہ لوگ ان کتاب گھروں میں آئیں، بغیرکسی معاوضہ کے علم حاصل کریں اوراس کے بعداپنی اوردوسروں کی زندگی بہتر بنائیں۔

میں ایک صدی پہلے کاذکرکررہاہوں۔اس وقت،انڈریونے پچپن ملین ڈالرخرچ کرکے یہ عظیم کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ صرف امریکا میں سولہ سو لائبریریاں قائم کرڈالیں۔لوگ اسے "لائبریری والادرویش" کہنے لگے۔ مگر ابھی اس نے بہت سے اورکام کرنے تھے۔اسکاایک جملہ ایساہے جس سے دل توکیا،روح تک خوش ہوجاتی ہے۔"نو جوان بچوں اوربچیوں میں اچھائی اورنیکی ہوتی ہے۔اس بے غرض جذبہ کو تواناکرنے کے لیے لائبریری سے بڑھ کرکوئی تحفہ نہیں"۔1911ء میں انڈریونے "کارٹیج کارپوریشن"قائم کی۔

یہ سائنس کی دنیا میں تحقیق کے عمل کوبڑھاوادینے کے لیے قائم کی گئی تھی۔اس نے اپنی تمام دولت اس ادارے کے حوالے کردی۔شروع شروع میں اس ادارے کاسربراہ بھی رہا۔مگربہت جلد،استعفیٰ دے کراپنے گھرآگیا۔کہتاتھاکہ دنیامیں کوئی بھی ایساذہین شخص نہیں، جو ہمیشہ ہربات درست کہتاہو۔میرے سے بہتر انسان، کو کارپوریشن کاسربراہ ہوناچاہیے۔اس نے اس کلیہ پر عمل کرکے دکھایا۔اپنی دولت سے قائم شدہ تحقیقی ادارے کی سربراہی بھی کسی اورکے حوالے کردی۔ شائد آپ کواندازہ نہیں، کہ شوگرکی بیماری کے لیے دوائی "انسولین" اسی فاؤنڈیشن کی ایجاد ہے۔

اینڈریونے مرنے سے پہلے ایک کتاب لکھی۔ اس کا نام "Gospel of Wealth"یعنی "دولت کاصحیفہ" تھا۔اس نے سنجیدگی سے لکھاکہ دولت مندکوچاہیے کہ وہ سادہ طریقے سے رہے۔اپنے خاندان کودرمیانی درجہ کی زندگی فراہم کرے۔اوراپنی پوری دولت کوغریب لوگوں کی خوشنودی اور بہتری کے لیے استعمال کرے کیونکہ اس کی دولت پراصل حق کمزوراورغریب لوگوں کاہے۔اسکایہ فلسفہ آج پوری دنیاکی ہر بڑی درسگاہ میں پڑھایاجاتاہے۔اسی فلسفہ سے متاثرہوکربل گیٹس اوروارن بوفٹ نے اپنی تمام دولت عام لوگوں کی فلاح کے لیے وقف کردی ہے۔اینڈریوکادرجہ ایک ایسے بزرگ کا ہے،جس نے عام لوگوں کی زندگی میں اچھائی اوربہتری کی نموکی۔وہ نہ صرف خوداَمرہوگیا،بلکہ اس کی دیکھادیکھی آج کی دنیا میں امیرترین لوگ حیران کن حدتک خیرات کررہے ہیں۔

مسلمان ممالک کی بات نہیں کرناچاہتا۔اپنے ملک کی طرف دیکھیے۔یہاں سیکڑوں کھرب پتی لوگ موجودہیں۔یہ زندگی کی آخری سانس تک پیسہ جوڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔ان کی دولت ان کے اپنے کام توکیا،کئی باران کے بچوں تک کے کام نہیں آتی۔دولت ان کے لیے سزابن جاتی ہے۔میں نے آج تک اپنے معاشرے میں ایک بھی ایساشخص نہیں دیکھا، جس نے اپناتمام سرمایہ عام لوگوں کی فلاح اوربہتری کیلے مختص کردیاہو۔یہاں تودوڑہے کہ مزیدپیسے کمائے جائیں۔کوئی یہ نہیں دیکھتاکہ تمام قبرستان بے نام دولت مندوں سے بھرے پڑے ہیں،جہاں کئی کئی سال تک کوئی دعا مانگنے تک نہیں جاتا۔یہاں دوردورتک کوئی اینڈریونہیں ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں