مشرق وسطیٰ کی سیاست اور امریکا

دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر اوباما نے یہ نصیحت اس وقت کی ہے


Zamrad Naqvi March 14, 2016
www.facebook.com/shah Naqvi

PESHAWAR: امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ جب تک سعودی عرب اور ایران میں مفاہمت نہیں ہوتی مشرق وسطیٰ میں جنگ اور افراتفری ختم نہیں ہو سکتی۔ ایک انٹرویو میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ خطے میں امن کے لیے سعودی عرب اور ایران کو مفاہمت کرنا ہو گی۔ انھیں اچھے ہمسائے بن کر رہنا ہو گا اور اس کے لیے بھرپور کوششیں کرنا ہوں گی۔ وہ شام عراق اور یمن میں پیدا شدہ بحران کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان محاذ آرائی سے لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر اوباما نے یہ نصیحت اس وقت کی ہے جب سعودی عرب میں چونتیس ملکی فوجی اتحاد کی جنگی مشقیں ہو رہی ہیں۔ انھوں نے دونوں ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ آپس میں مفاہمت پیدا کریں اور اچھے ہمسائے کی طرح رہیں لیکن امریکی صدر کو یاد رکھنا چاہیے کہ عراق یمن اور شام میں جو قتل و غارت گری برپا ہے اس کا ذمے دار صرف اور صرف امریکا ہے کوئی اور نہیں۔ صرف نصیحتیں کرنے سے وہاں امن قائم نہیں ہو سکتا ہے۔ ماضی میں اگر جنگ امریکا کی ضرورت تھی تو آج اس خطے میں امن امریکا کی ضرورت ہے لیکن اس کے اتحادی عرب ممالک اس نکتے کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تازہ ترین دلچسپ خبر یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم ایران امریکا جوہری ڈیل اور ایران پر سے معاشی پابندیاں اٹھنے سے اتنے ناراض ہیں کہ انھوں نے اس ماہ مارچ میں امریکا کا دورہ ہی منسوخ کر دیا جس میں انھوں نے صدر اوباما سے ملاقات کرنی تھی۔ ان کی خفگی اس انتہا یہ ہے کہ وہ صدر اوباما سے ملنے کے ہی روادار نہیں۔ 35 سال امریکا ایران کے ساتھ حالت جنگ میں رہا اور اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ یہ صورت حال ہمیشہ برقرار رہے۔ امریکا ایران نارمل ہوتے ہوئے تعلقات اسرائیل کے لیے سخت تکلیف کا باعث ہیں۔ حالانکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب امریکی مفاد کا تقاضا ہوتا ہے تو وہ کسی بھی ملک پر جنگ مسلط کر دیتا ہے اور جب مفادات کا تقاضا ہوتا ہے تو دوستی کر لیتا ہے ''جنگ اور امن'' اس کے اسٹرٹیجک ہتھیار ہیں بشرطیہ کہ اس کے مفادات کا تحفظ کریں۔

کیوبا سے طویل جنگ کے بعد دوستی حال ہی کی بات ہے۔ جب تک اس کے مفادات کا تقاضا تھا ایران پر اس نے جنگ مسلط کیے رکھی 'اس کی بغاوت اور سرکشی کی سزا دینے کے لیے۔ جب ایران نے امریکا کی غلامی کی زنجیر توڑی تو امریکا و یورپ کی ہذیانی کیفیت دیدنی تھی کہ ایران کی پیروی کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے تیل کے مفادات سے محرومی کے تصور نے ان کا ذہنی توازن بگاڑ دیا۔ حالانکہ امریکا اور ایران کا کوئی جوڑ ہی نہیں۔ لیکن ایران کو پوری دنیا کے سامنے ایک عفریت بنا کر پیش کیا گیا اور یہ مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کا کمال تھا کہ ایرانی ایٹم بم جس کا وجود ہی نہیں تھا دنیا کے سامنے ہوّا بنا کر پیش کیا گیا۔

اس خوفناک پروپیگنڈے کی آڑ میں ایران کو اس کی سرکشی اور بغاوت کی طویل مدت تک سزا دی گئی۔ اس طرح ایران کو نشان عبرت بنا کر دنیا کی دوسری غلام قوموں کو ڈرایا گیا اور جب ایران سے دوستی کی ضرورت محسوس ہوئی تو بارہ سال ایران سے خفیہ مذاکرات ہوتے رہے یہاں تک کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کے اہم ترین اتحادیوں اسرائیل اور عرب بادشاہتوں کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی' خود سعودی عرب کی بے خبری کا یہ عالم تھا کہ اس کے اس وقت کے وزیر خارجہ نے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں امریکا ایران مذاکرات کی اطلاع امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے ذریعے ملی۔

پچھلے ہفتے ترک وزیراعظم نے ایران کا دورہ کیا۔ یاد رہے کہ ترکی نیٹو کا ممبر اور امریکا کا اہم اتحادی ملک ہے۔ شام کے معاملے پر ترکی اور ایران میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اپنے دورے میں ترک وزیراعظم نے کہا کہ ایران ترکی تعاون خطے میں کشیدگی کے خاتمے میں مدد گار ثابت ہو گا۔ تہران میں ایرانی نائب صدر اسحاق جہانگیری سے ملاقات کے بعد بیان دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بعض معاملات پر انقرہ اور تہران کے نظریات میں فرق پایا جاتا ہے لیکن دونوں ممالک باہمی تعاون کے ذریعے خطے میں اغیار کی آمد کا راستہ روک سکتے ہیں۔

ترک وزیراعظم نے اغیار کے حوالے سے جو بات کی ہے اس کا مطلب تو روس ہی ہو سکتا ہے کیونکہ ترکی کا اتحادی امریکا تو بہت پہلے ہی سے مشرق وسطیٰ میں بدو کے خیمے میں اونٹ بن کر گھسا ہوا ہے۔ ترک وزیراعظم نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایران ترکی کا تعاون خطے میں امن و استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایٹمی معاہدے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے نئے رستے کھلے ہیں۔ دو مختلف سمتوں میں کھڑے ملکوں ایران اور ترکی کو خطے میں فرقہ وارانہ جنگ و جدل کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔کیونکہ خطے میں امن اب امریکا کی ''ضرورت'' بن گیا ہے اس لیے ترکی بھی امریکا کی زبان بول رہا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ترکی ایک طرف تو ایران کے خلاف سعودی عرب کا اتحادی ہے تو دوسری طرف اب وہ ایران سے دوستی تعاون اور امن چاہتا ہے۔ یعنی اب سعودی عرب تنہا رہ گیا ہے۔ اس کی تنہائی مزید بڑھتی جائے گی جب آنے والے وقت میں دوسری عرب بادشاہتیں بھی امریکا کی ہمنوا بن جائیں گی۔

امریکا ایران جوہری ڈیل کے بعد مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کی بالادستی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے جس طرح شاہ ایران کی حکومت کے خاتمے کے بعد خطے سے ایرانی بالادستی کا خاتمہ ہو گیا۔ مستقبل میں ایران اور ترکی مل کرمشرق وسطیٰ کا نظام سنبھالیں گے جس کو امریکا یورپ کی تائید حاصل ہو گی جس میں سعودی عرب کا بڑا کردار نہ ہو گا کیونکہ وہاں بادشاہت ہے۔ سیاسی نظام نہیں جسے عوامی تائید حاصل ہو۔

عرب حکمرانوں کو شہنشاہ ایران اور خاص طور پر حسنی مبارک کا انجام یاد رکھنا چاہیے جو ابھی کل کی بات ہے۔ ملکوں میں نہ دشمنی مستقل ہوتی ہے نہ دوستی۔ وقت بڑا ظالم ہے دوستی کو دشمنی اور دشمنی کو دوستی میں بدل دیتا ہے... اس سے پہلے کہ امریکا نگاہیں بدل لے۔

مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے لیے 2017ء احتیاط طلب ہے۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں