بچوں کے ادب کا رواج دوسرا حصہ
دیکھا جائے تو یہ ماحول ایک خوابناک منظر کی طرح ہے اور صرف بچوں ہی کے ادب تک محدود نہیں ہے
جب بچوں کے ادب کے رواج (کلچر) کی بات کی جائے گی تو سب سے پہلے خود ''لکھنے کے عمل'' پر بغور نگاہ ڈالنے کی ضرورت محسوس ہوگی۔ یعنی بچوں کے ادب کے کلچر میں ''لکھنا'' کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ لیکن اس سے بھی قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ ادبی رواج (Literary Culture) سے کیا مراد ہے۔
ادبی رواج سے مراد ایک ایسا ماحول ہے جس میں لکھنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ بغیر یہ سوچے کہ لکھنا نقصان کا سودا ہے، کتابیں لکھ رہے ہوں، پبلشرز بڑی تعداد میں کتابیں چھاپ رہے ہوں۔ کتابوں کی منافع بخش مارکیٹیں اپنا وجود رکھتی ہوں، مختلف سطحات پر کتابوں پر تجزیے تحریر کیے جارہے ہوں، چھپنے والی کتابیں بڑی تعداد میں قارئین خرید کر پڑھ رہے ہوں۔ ایسے ماحول کی وجہ سے کتابیں معاشرے میں مسلسل سرائیت کرتی جاتی ہیں اور معاشرے میں مطالعاتی رجحانات سے تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ ماحول ایک خوابناک منظر کی طرح ہے اور صرف بچوں ہی کے ادب تک محدود نہیں ہے بلکہ یہی ماحول اردو ادب کی ترقی کے لیے بھی درکار ہے۔ مغرب میں اس خوابناک ماحول کو حقیقت کا روپ دیا جاچکا ہے اور ہمارے سیاسی و سماجی اداروں کو بھی سماج کے اندر حقیقی تبدیلی لانے کے لیے ادبی رواج پروان چڑھانے اور اسے جدید تر بنانے کے لیے تعاون کرنا ہوگا، کیوں کہ سیاسی اور سماجی ادارے ہی ہیں جو ادبی کلچر کی پرداخت کرتے ہیں۔
بات بچوں کے ادبی کلچر کی ہے، اس لیے لکھنے کے عمل کی معنویت جاننا بنیادی اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔ لکھنے کا عمل خود اپنے ساتھ اپنے ابعاد بھی لاتا ہے۔ کوئی چاہے تو اِس کا تعلق قدرتی کارروائیوں سے جوڑ دے، تاہم یہ سماج کے اندر ہوتا آرہا ایک مسلسل عمل ہے جو نہ صرف کسی ادیب کے طبعی رجحان کو متشکل کرتا ہے بلکہ اسے وہ راستہ بھی دکھاتا ہے جس پر چل نکلنے سے خود لکھنے کا عمل بھی ترقی پاتا ہے۔
بچوں کے ادیبوں کے پاس اس شکایت کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے کہ کسی نے ان کا ہاتھ تھام کر ترقی کے راستے پر کیوں نہیں لگایا۔ تعلقات کی بنیاد پر شخصی تصویر کو تو ابھارا جاسکتا ہے لیکن ادب نہیں لکھا جاسکتا، نہ ہی شخصیت کے فنی پہلو کو روشن کیا جاسکتا ہے۔ سماجی تعلقات کو وسیع کرنا دراصل انسان کی اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی قوت پر منحصر ہوتا ہے۔ صلاحیت جتنی زیادہ پروان چڑھائی جائے گی، مخصوص سماجی تعلق یا وہ تعلق جو ہدف ہے، اتنا ہی زیادہ استوار ہوگا۔
تمام لکھاری دوسرے طبقات کے ساتھ تو جڑے ہوتے ہی ہیں، تاہم یہ مل کر اپنا بھی ایک طبقہ تشکیل دیتے ہیں اور آپس میں لکھنے کے رشتے میں جڑے ہوتے ہیں۔ ان میں سے جو جتنا زیادہ لکھنے کی صلاحیت کو مہمیز دیتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ نمایاں ہوتا ہے یا اس کے نمایاں ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ روشن ہوتے ہیں۔ یعنی ادیبوں کے طبقے کی بنیاد لکھت پر قائم ہے، اسی لیے یہاں ہر فیصلہ لکھت ہی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جب تک لکھت ہے، طبقہ بھی موجود ہے، جب لکھت نہیں رہتی تو طبقہ بھی آپ ہی آپ ختم ہوجاتا ہے۔ یہی وہ بنیادی سرگرمی ہے جو بچوں کے ادب کے رواج کے لیے روح کا کام کرتی ہے۔
لکھنے کے عمل کی معنویت کا آغاز اس بات سے نہیں ہوتا کہ ادیب نے لکھنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ اصل میں لکھنے کا تہیہ کرنا کافی نہیں ہے، نہ ہی پانی کے قطرے کی طرح مسلسل گرنا۔ لکھنے کے تہیے کے فوراً بعد ادیب کے سامنے ''کیا'' کا سوال آتا ہے۔ جب وہ اسے طے کرتا ہے کہ اس نے کیا لکھنا ہے تو پھر سوال آتا ہے ''کیوں'' کا۔ اس سوال کو بچوں کے ادیب نظر انداز کرتے ہیں، اس لیے ان میں مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس سوال کو غلط معنوں میں بھی لیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر بچوں کا ایک اوسط ادیب اپنے سامنے اس کا جواب یوں رکھتا ہے 'تاکہ بچوں کی تربیت ہو' یعنی وہ معاشرے کی برائیوں کے خلاف صف آرا ہونا چاہتا ہے۔ اب اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اگر سوال کا درست جواب یہی ہے تو پھر یہ ادیب معاش، حیثیت، ساکھ اور توقیر جیسے مقولے دہرا کر کیوں مایوس ہوتا ہے جو کہ نفس کی تسکین کے ذرایع ہیں؟ جب کہ معاشرے کی برائیوں سے جنگ وہ نفس کی تسکین کے لیے نہیں بلکہ اپنی انسانی ذمے داری سمجھتے ہوئے لڑتا ہے۔
مسئلہ سوال کا درست جواب نہ ڈھونڈنے میں ہے۔ ''کیوں'' کا سوال اور اس کا درست جواب اس لیے ضروری ہے کیوں کہ ادیب جب اس میدان میں داخل ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ سو بچوں کے ادیب لکھ رہے ہیں لیکن ان میں نمایاں ایک ہاتھ کی انگلیوں جتنے ہیں۔ اب وہ بغیر سوچے سمجھے لکھنا شروع کردیتا ہے اور ایک سو ایک واں بن جاتا ہے۔
لیکن جب وہ اپنے سامنے یہ سوال رکھے گا تو پھر جواب بھی تلاش کرے گا کہ تحریر کا قدرتی طور پر کوئی نہ کوئی مقصد تو ہوتا ہی ہے، اور اس پر یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ وہ لکھ سکتا ہے تو کیوں نہ اپنے سامنے اچھا اور منفرد لکھنے کا مقصد سامنے رکھے تاکہ وہ ایک سو ایک واں بننے کے بجائے چھٹا بن جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ دیکھتا ہے کہ جو پچانوے فیصد لکھنے والے ہیں ان میں کوئی خاص بات نہیں ہے بلکہ وہ سب ایک دوسرے کا عکس لگ رہے ہیں۔
ان کے پاس نہ منفرد خیال ہے، نہ خیال کو پیش کرنے کا منفرد سلیقہ ہے، نہ ان کے پاس زبان کا اتنا علم ہے کہ وہ اس سے تحریر کو زیادہ سے زیادہ پرکشش بناسکیں، نہ ہی انھیں معاشرے کے مسائل اور ضرورتوں اور جدید معلومات کا درکار ادراک حاصل ہے۔ اس صورت حال میں وہ خود کو ''کیوں'' کا یہ جواب فراہم کرتا ہے کہ اب وہ اپنی توجہ ان باتوں پر مرکوز رکھ کر یہ اہلیت حاصل کرے گا اور اس لیے لکھے گا تاکہ بہترین تحریر وجود میں آسکے، جو اس سے قبل کوئی اور نہ لکھ سکا ہو۔
یہیں سے بچوں کے ادب کے رواج کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ ادبی رواج کوئی ایسی شے نہیں جو بغیر سوچے سمجھے شروع ہو اور خودبخود پروان چڑھتی جائے۔ لکھنے کے عمل کی معنویت سے نابلد ادیب ادبی رواج کو پروان نہیں چڑھاسکتے بلکہ ان کے وجود سے ادبی رواج کی تشکیل کے راستے مسدود ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں بچوں کے اردو ادب کی موجودہ صورت حال ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
بچوں کے ادیبوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ادب میں نہ صرف آپ معاشرے کی جیتی جاگتی تصویر دیکھ سکتے ہیں بلکہ اسی ادب کے ذریعے معاشرے کو سنوارنے اور تبدیل کرنے کا سلسلہ بھی بروئے کار لاسکتے ہیں۔ یعنی ادب معاشرے کی ضرورت بھی ہے اور اس کا حسن بھی۔ اس کا تعین کرنے کے بعد جب ادیب اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے تو بتدریج اس کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور وہ بہت جلد ان میں شامل ہوجاتا ہے جو ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔
تب اس کے لیے آگے بڑھنے کے راستے فطرت کے عین مطابق کھلتے جاتے ہیں کیوں کہ مادی دنیا میں ہر شے دوسرے کے ساتھ ایک بہترین سلیقے سے جڑی ہوئی ہے اور انسانی صلاحیتیں بھی اپنا منطقی سفر طے کرتے ہوئے اپنی منفرد جگہوں پر پہنچ کر فطری ارتقا کے عمل کا حصہ بنتی رہتی ہیں۔ ہم خدا پر غیر متزلزل یقین رکھنے والے لوگ ہیں، اس لیے ہمارا ایقان ہے کہ وہی فطرت کا خالق ہے اور وہ ارتقائی عمل میں کبھی کسی ''ہیرے'' کو ضایع نہیں کرتا، بلکہ اسے اس کے درست مقام پر پہنچاکر رہتا ہے۔
(جاری ہے)