بیورو کریٹ حکمرانوں کو گمراہ کرتے ہیں
جناب ظفر محمود وطنِ عزیز کے معروف اور مکرم سینئر بیوروکریٹ رہے ہیں۔
جناب ظفر محمود وطنِ عزیز کے معروف اور مکرم سینئر بیوروکریٹ رہے ہیں۔ آپ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے سربراہ بھی رہے اور کئی وزارتوں کے وفاقی سیکریٹری بھی۔ سرکاری قوانین کے تحت اپنی اصول پسندی پر کاربند رہنے کی عادت کہئیے یا دیانتداری کا عمل مظاہرہ، کئی بار وہ حکمرانوں کے طیش اور ناراضی کا ہدف بنے۔
افسر بکارِ خاص بنا کر کھڈے لائن لگائے گئے لیکن کوئی دوسرا میرٹ پسند حکمران آیا تو اس نے انھیں گلے سے لگانے، معذرت کرنے اور ان کی قابلیتوں سے مستفید ہونے میں کوئی تاخیر بھی نہ کی۔ ریٹائرمنٹ سے چند ماہ قبل بھی آزمائش سے گزرے۔ اس بار وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ''مہربانی'' کی تھی۔ اسی آزمائش اور بے تنخواہی کے عذاب میں تھے کہ ریٹائرمنٹ کا پروانہ آگیا۔ اللہ نے مگر دستگیری فرمائی اور میاں شہباز شریف نے ان کے مہان تجربات سے قوم کو فائدہ پہنچانے کا مستحسن فیصلہ کیا۔
یہ جناب ظفر محمود ہی تھے جنہوں نے وزیراعظم گیلانی کے دور میں پاک بھارت تجارتی تعلقات کو لائن پر چڑھایا، بھارت میں جاکر پاکستان کا مقدمہ لڑا اور پاکستان کے حق میں تجارت کاتوازن ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی۔ انشاء اللہ پاکستان عوامی توقعات سے قبل ہی برقی توانائی کے بحرانوں سے باہر نکل آئے گا۔ ایک صوبے میں بعض بیوروکریٹس کی گرفتاری اور بعض کے فرار کی کہانیاں سن کر مَیں نے ظفر صاحب سے پوچھا: حضور، قومی جرائم اور مقتدر سیاستدانوں کو خراب کرنے میں بیوروکریسی کا کردار کتنا اور کہاں تک ہوتا ہے؟ سوال سن کر زور سے ہنسے۔ پھر فرمایا: ''بیوروکریسی پالیسی سازوں کے ہاتھ ٹول کا کردار ادا کرتی ہے۔'' مطلب یہ کہ یہ مقتدر سیاستدان ہیں جو بیوروکریٹس سے کام لیتے ہیں۔
کام لینے اور کام نکلوانے میں خاصا فرق ہوتا ہے۔ بگاڑ تب پیدا ہوتا ہے جب مقتدر سیاستدان دھونس اور دباؤ سے بیورو کریسی کو اپنی راہ پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے حکمران لُوٹ مار کا بازار گرم کرتے ہیں۔ پھر کئی بیورو کریٹ بھی خود پر قابو نہیں رکھ سکتے لیکن الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ حکمرانوں کو خرابی کی راہ یہی بیوروکریسی دکھاتی ہے۔
بعض مقتدر سیاستدانوں اور ان کے ترجمانوں نے یہ عادت سی بنا لی ہے کہ اپنی ناکامیوں، نااہلیوں اور نالائقیوں کا ملبہ بیوروکریسی اور بیوروکریٹس پر ڈال دیا جائے۔ہمارے بزرگ اخبار نویس جناب الطاف حسن قریشی نے لکھا: ''جنرل ضیاء الحق (ملک میں) اسلامی قدروں کا نفاذ چاہتے تھے مگر انھیں مناسب ٹیم دستیاب نہیں ہوئی کیونکہ ان کا زیادہ تر انحصار سول اور ملٹری بیورو کریسی پر تھا (ملاقاتیں کیا کیا، صفحہ 133)
سوال یہ ہے کہ جب یہ ہتھکنڈے بروئے کار لائے جارہے تھے تو کیا متعلقہ صوبوں کے سیاستدان سوئے ہوئے تھے؟ وہ آگے بڑھ کر افسر شاہی کے ظالمانہ قدم کو روک نہیں سکتے تھے؟ ہمارے ہمسایہ ملک، بھارت، میں بھی بیوروکریسی اور بیوروکریٹس کو برا بھلا کہنے کا چلن عام ہے۔ وہاں بھی مقتدر سیاستدان بیوروکریسی سے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں اور جب یہ بیوروکریٹ اپنے کرپٹ سیاستدانوں کی دیکھا دیکھی بہتی گنگا میں خود بھی ہاتھ دھونا شروع کردیتے ہیں تو بھارتی عدلیہ اور سیاستدان ان کے پیچھے لَٹھ لے کر دوڑ پڑتے ہیں۔
ممتاز ہندوستانی اخبار نویس، کلدیپ نیئر، اپنی خود نوشت (Beyond the Lines) میں لکھتے ہیں کہ نہرو کو بیورو کریسی سے سخت نفرت تھی اور وہ بیوروکریٹس کے اصول و ضوابط پر چلنے کو ''جنگل میں گھومنے'' سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ نہرو کے برعکس ایک بھارتی وزیرِ داخلہ گووند پنٹ، جس کے ساتھ کلدیپ نیئر نے بطور افسرِ اطلاعات کام بھی کیا، بیورو کریسی پر بہت انحصار کرتے تھے لیکن وہ بھی محسوس کرتے تھے کہ رشوت ستانی نے بھارتی افسر شاہی کو بدنام کردیا ہے۔
گووند پنٹ اپنی بیوروکریسی کو نکیل ڈالنا چاہتے تھے۔ اس ضمن میں ایک بار پَنٹ صاحب نے بھارت کی ساری بیوروکریسی کو بلا کر بے عزت کرنے کا پروگرام بنایا اور جب بیوروکریٹوں نے پنٹ کے وزیروں کی بداعمالیوں اور بدکرداریوں کے بارے میں ثبوتوں کے ساتھ زبان کھولی تو پنٹ جی کو چُپ لگ گئی۔ اس کے بعد انھوں نے بیوروکریسی کو ذلیل کرنے کا عہد دل سے نکال دیا۔ اس بزرگ بھارتی صحافی نے انڈین بیوروکریسی کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے مزید لکھا ہے: ''وزیراعظم اندرا گاندھی کے بیٹے، سنجے گاندھی، نے اپنے کام نکلوانے اور اپنی وضع کردہ پالیسیوں پر سختی سے عمل کروانے کے لیے بیوروکریسی کو تِیر کی طرح سیدھا کردیا۔
چند بیوروکریٹ ہی اپنے قدموں پر کھڑے رہ سکے، باقی سب دباؤ میں آکر سنجے گاندھی کے غلام بن گئے۔ زیادہ تر بیوروکریٹ خوش دلی سے عوام پر ظلم و ستم ڈھانے اور جبر کے کارندے بن گئے۔ یہ بیوروکریٹ آج تک بھارتی عوام کی نظروں میں اپنی عزت و تکریم بحال نہیں کرواسکے۔ سیاسی آقا جانتے ہیں کہ بیوروکریسی کے نمایندے محض ربڑ کی مہریں ہوتے ہیں۔ اور وہ ان کے سامنے ننگے ہوتے ہیں کیونکہ لُوٹ مار میں وہ سب اکٹھے شریک ہوتے ہیں اور ان کے ضمیر میں کوئی خلش اور کسک نہیں ہوتی۔'' (صفحہ 314)
تازہ منظر یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی اپنی سیاسی ٹیم اور وزیروں پر اعتبار اور انحصار کرنے کے بجائے اپنے ملک کی بیوروکریسی کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔
ممتاز بھارتی اخبار نویس تولین سنگھ ''انڈین ایکسپریس'' میں اپنے تازہ کالم میں لکھتی ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی آخر کیوں اپنی سیاسی ٹیم کے بجائے بیوروکریسی پر اتنا انحصار کررہے ہیں؟ تولین نے لکھا: ''دہلی میں گذشتہ دنوں وزیراعظم مودی کا بھارتی بیوروکریٹس سے پیار بھرا خطاب دراصل بیوروکریسی کو مزید سر پر چڑھانے کے مترادف ہے۔'' اور بھارتی وزیراعظم ہیں کہ اپنے ملک کے صحافیوں کی سن ہی نہیں رہے، بالکل ہمارے وزیراعظم صاحب کی طرح جو اپنے نزدیک کھڑے موثر بیوروکریٹس کے خلاف ہمارے بعض صحافیوں کی تنقید پر کان دھرنے سے انکاری ہیں۔
وزیراعظم جناب میاں محمد نواز شریف نے کارِ مملکت چلانے ہیں یا صحافیوں کو پسند نہ آنے والے بعض بیوروکریٹس کے خلاف تقریریں سننی ہیں۔ خواہ ان بیوروکریٹس کو ہمارے اخبار نویس ''زکوٹا جِنّ'' ہی کیوں نہ کہتے پھریں!!