پودینے کے باغ
بدقسمتی سے جمہوریت کے نام پر کچھ مخصوص گروہوں نے ملک کے وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے
گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی طرف سے ایک ایسا بیان ملک کے سنجیدہ اور باشعور حلقوں میں موضوع بحث و توجہ بنا رہا جس کی اہمیت و ضرورت سے حکومتی بے توجہی و عدم دلچسپی تو ایک طرف ان کی غیر ضروری اشتہار بازی پر بہت سے سوال اٹھ گئے ہیں۔
حکومت کے عوامی بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات کی تشہیر پر شاید کسی کو اعتراض نہ ہو لیکن چیف جسٹس یہ نقطہ اٹھائیں کہ اگرچہ ملک کے عدالتی نظام پر عام آدمی کو تحفظات ہوں گے لیکن انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے متبادل اداروں کے قیام میں غفلت برتنا ناقابل معافی ہے اور آج عدالتی نظام پر بہت سوں کے عدم اعتماد کی وجہ بھی دراصل معاشرے میں سچ، جھوٹ اور حلال و حرام کی تمیز کا اٹھ جانا ہے۔ چیف صاحب کا کہنا تھا کہ تنازعات کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب ناگزیر ہو گیا ہے کہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے انصاف کے متبادل ذرایع بصورت مصالحتی ادارے قائم کیے جائیں۔
انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ بدقسمتی سے جمہوریت کے نام پر کچھ مخصوص گروہوں نے ملک کے وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ مسلسل ناکامیوں کے باوجود ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ قوم لسانی، علاقائی، مذہبی، دیہی، شہری اور دیگر ناموں سے تقسیم ہو گئی ہے۔ یہ ملک سمندروں، پہاڑوں، دریاؤں، موسموں اور سورۂ رحمن میں بیان کی گئی بے شمار نعمتوں سے مالامال ہونے کے باوجود پسماندہ ہے۔ اگر حکمران اور عوام اللہ کے عطا کردہ وسائل کا درست استعمال کریں تو یہ ملک دنیا کا بہترین ملک بن سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید فرمایا کہ عرصہ 68 برس ہو گیا جب ملک معرض وجود میں آیا تھا لیکن ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والوں نے اسے فلاحی مملکت بنانے میں تو ناکامی کمائی لیکن اپنی کمائی سے ایک لمحہ بھی غافل نہ ہوئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوریت کے نام پر کچھ گروہ ملکی وسائل پر پیران تسمہ پا کی طرح قابض ہو گئے پھر آبادی، جہالت اور غربت کے سائے بڑھتے اور پھیلتے چلے گئے۔ ملکی قوانین اور نظام اگرچہ خراب نہیں لیکن انھیں چلانے والے ان کے برعکس من مانے فیصلے کریں تو لازماً مسائل ہی جنم لیں گے۔ ملک کے نظام عدل کے بارے میں بھی چیف جسٹس کا فرمانا تھا کہ اس میں کوئی خرابی نہیں لیکن حصول انصاف کے راستے میں خرابیوں اور برائیوں کے انبار ہیں۔
کسی بھی نظام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اسے چلانے والے ہی اہم ہوتے ہیں اور اگر انھی کا طریق کار بدنیتی، بددیانتی اور منفی طرز عمل سے آلودہ ہو تو پورا نظام مشکوک نظر آئے گا۔ بدقسمتی سے نظام کو عملی جامہ پہنانے والوں ہی نے اس نظام کے برعکس خرابیاں پیدا کی ہیں اور چونکہ ان کا اپنا ہی احتساب نہیں ہوتا۔ چور مچائے شور والی صورت حال ہر نئی حکومت کے برسراقتدار آنے پر دیکھنے سننے کو ملتی ہے۔
چیف صاحب کے گزشتہ کئی ہفتوں سے کرسی عدالت پر بیٹھے ہونے کے دوران دیے ہوئے ریمارکس اور مختلف تقاریب میں بولے ہوئے ارشادات بے حد اہم اور حالات حاضرہ کے مطابق تھے۔ انھیں پڑھ سن کر ہر دردمند اور فکرمند خود احتسابی کی طرف مائل ہو گیا لیکن حقیقتاً ان کا روئے سخن ملک کے صاحبان اقتدار کی طرف تھا۔
مذکورہ بالا ارشادات پر غور کرتے ہوئے اور خاص طور پر قیام پاکستان کے 68 سالہ عرصہ کی جدوجہد کے پیش نظر ملک کے اسلامی و فلاحی ریاست نہ بن سکنے کے حوالے سے جناب چیف جسٹس کا نوحہ ذہن میں آیا تو میری نظر الماری میں پڑی ایک قانون کی کتاب پر پڑی جس کا نام ہے ''Displaced Persons (Compensation and Rehabilitation Act 1958)۔ یہ بات ہر کسی کے علم میں ہے کہ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے مسلمانوں کی پاکستان کی طرف ایک عظیم ہجرت ہوئی۔ آگ کا دریا عبور کرتے ہوئے مسلمانوں کے قافلے چلے تو یہ خاندان اپنے مکان، زمینیں اور سامان چھوڑ کر شہادتوں کے درمیان گرتے پڑتے سرحدیں عبور کرتے نئی سرزمین کی طرف چلے۔ یہاں وہ بے گھر، بے آسرا، بھوکے ننگے، بیمار، بدحال افراد پہنچے تو جس کو جہاں جائے پناہ ملی داخل ہو گیا اور جسے کوئی ٹھکانہ نہ ملا، کھلے آسمان تلے پناہ گزین ہو گیا۔
آنے والے مسلمان گھرانے جانے والے ہندو اور سکھوں کے خالی مکانوں اور زمینوں میں داخل ہو گئے۔ اس عمل میں بعض بڑے مکانوں میں ایک سے زیادہ خاندانوں نے پناہ لی۔ یہ وہ وقت تھا جب حکومت نے 1958ء میں پناہ گزینوں کی آمد اور قبضوں کو ریگولیٹ کرنے اور ہندوستان میں پراپرٹیز چھوڑ کر آنے والوں کو بدلے میں مکان اور اراضی کے حقوق دینے کے لیے مذکورہ بالا قانون نافذ کیا۔ سیٹلمنٹ کا قانون اور اس کا محکمہ آنے سے بہت بڑی نیکی کی ابتداء ہوئی اور پھر وہی کچھ شروع ہو گیا یعنی
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
مہاجرین میں ہر طرح کے لوگ تھے۔ محکمہ سیٹلمنٹ کے افسروں، اہلکاروں کے پاس دس مرلے کے مکان انڈیا میں چھوڑ کر آنے والوں نے جب دس کنال کی کوٹھی اور پندرہ مربع زرعی اراضی جیسے کلیم داخل کروانے شروع کیے تو دونوں فریقوں کے وارے نیارے ہو گئے اور پھر یہ کلیم ایڈجسٹ ہونے شروع ہوئے۔ محکمہ مال بھی مالامال ہونے لگا۔ نیک مقصد والے قانون نے افسروں، اہلکاروں اور کلیمنٹ مہاجرین کے منہ کو ایسا خون لگایا کہ چیف جسٹس کو ملک کے حوالے سے کہنا پڑا کہ معاشرے میں سچ، جھوٹ اور حلال و حرام کی تمیز اٹھ چکی ہے۔
محکمہ سیٹلمنٹ سے بہت سارے مہاجرین کو اپنے ایک کنال کے مکان کے بدلے میں دس مرلے کا کوٹھا بھی نصیب نہ ہوا لیکن پودینے کے باغ چھوڑ کر آنے والوں کو آم، کیلے اور مالٹے کے باغات مل گئے جب کہ آنے والے حکمرانوں نے بھی عوامی خدمت کے بجائے جمہوریت کو بادشاہوں کی طرح برتا، جس کا خمیازہ ہم آپ بھگت رہے ہیں اور چیف جسٹس صاحب نے تو کھل کر کہہ دیا کہ ''بدقسمتی سے جمہوریت کے نام پر کچھ مخصوص گروہوں نے ملکی وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے۔''